امریکہ اور چیرہ دستی

لگتا ہے کہ امریکہ اور چیرہ دستی ‘یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ وہ ملک جو دو سو سال قبل مقامی آبادی کے لاکھوں پرُ امن افراد کے قتلِ عام کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا‘ اُس کی بنیاد ہی تشدد‘ ظلم و ستم‘ طاقت کے بل بوتے پر توسیع اور دوسروں کی زمین پر زبردستی قبضہ کرنے پر رکھی گئی۔ آپ جانتے ہوں گے کہ امریکی آئین کے مطابق ہر امریکی شہری کو جو بنیادی حقوق حاصل ہیں اُن میں اسلحہ اور ہتھیاروں کی بلا روک ٹوک ملکیت بھی شامل ہے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب امریکہ کے کسی نہ کسی شہرسے بے گناہ اور معصوم شہریوں (چاہے وہ گرجا گھروں میں مصروفِ عبادت ہوں) پر اندھا دھند فائرنگ اور درجنوں افراد (جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں) کی ہلاکت کی خبریں نہ آتی ہوں‘ مگر امریکہ میں اسلحہ فروخت کرنے والوں کی انجمن (Gun Lobby) اتنے سیاسی اثر و رسوخ کی مالک ہے کہ امریکہ میں کوئی حکومت بندوق خریدنے یا گھر سے اسلحہ لے کر باہر نکلنے پر پابندی لگانے کی جرأت نہیں کر سکتی۔اقبال نے ایک سو سال پہلے کہا تھا: 
حذر اَے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
غالباًشاعرِ مشرق خصوصی طور پر امریکہ سے مخاطب تھے۔ اقبال نے شعر اُردو میں کہا اور اہل امریکہ یہ زبان نہیں جانتے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ لاہور سے واشنگٹن کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اقبال کی آواز اتنی دور نہ جا سکی ہو۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ اہلِ امریکہ نے اقبال کی دی ہوئی وارننگ تو سن لی‘ مگر اس کو مان لینا‘چیرہ دستی سے ہاتھ روک لینا اور ہر قسم کی غنڈہ گردی (دھن‘دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ) سے پرہیز کرنا‘ اُن کے بس میں نہ تھا۔ لندن پہنچنے والی ایک خبر کی تفصیل بتانے اور تبصرہ کرنے سے پہلے آپ کو 1803 ء اور 1917 ء کے درمیان (106 سالوں میں) اُن سات سودوں کے بارے میں بتانا ضروری ہوگا ‘جو امریکہ حکومت نے دوسرے ملکوں سے کئے اور انگریزی محاورے کے مطابق) اُن کے بازو مروڑ کر اپنی مرضی کی قیمت (جو ہمیشہ برائے نام ہوتی تھی) ادا کر کے وسیع و عریض علاقے خریدے۔
Louisiana ‘ جو فرانس سے خریدا گیا یہ خطہ اتنا بڑا ہے کہ پندرہ امریکی ریاستوں پر پھیلا ہوا ہے‘ اس کی قیمت 15 ملین ڈالر لگائی گئی۔مشرقی اور مغربی فلوریڈا سپین سے خریدا گیا صرف پانچ ملین ڈالر میں۔ میکسیکو کا شمالی حصہ جو کہ میکسیکو سے خریدا گیا‘ 15 ملین ڈالرمیں‘ Gadsden بھی میکسیکو سے خریدا گیا 10 ملین ڈالر میں۔الاسکا کو روسی سلطنت سے خریدا ‘7.2 ملین ڈالر میں۔پاناما کنال زون کو پاناما سے خریدا ‘ 10 ملین ڈالر میں‘(یہ علاقہ 1999ء کو پاناما کو واپس کر دیا گیا )اور جزائر غرب الہند میں آج کا Virgin Islands ڈنمارک سے خریدا ‘25 ملین ڈالر میں۔
مندرجہ بالا تمہید (جو حسب معمول طولانی تھی) کا جواز یہ ہے کہ 20 اگست کو امریکی صدر نے ڈنمارک سے گرین لینڈ کا بڑا جزیرہ خریدنے کی تجویز پیش کی تھی۔ گرین لینڈ منطقہ قطب شمالی کا پڑوسی ہے اور یہاں بحر اٹلانٹک اور متعلقہ قطب شمالی کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ گرین لینڈ اُن معدنیات سے مالا مال ہے جو قیمت کے اعتبار سے سب سے مہنگی ہیں اور نایاب بھی ہیں۔ صدر ٹرمپ سے پہلے ایک اور امریکی صدر نے گرین لینڈ کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر صدر ٹرومین نے ڈنمارک کو 100 ملین ڈالرکی پیشکش کی تھی۔ ڈنمارک نے یہ جزیرہ تو فروخت نہ کیا ‘مگر امریکہ کو Thule کے مقام پر اپنی ائیر فورس کے استعمال کے لئے فضائی اڈے کی سہولت دے دی اور وہ بھی غیر معین عرصہ کے لئے۔ جب سے قطب شمالی کی برف پگھلنا شروع ہوئی ہے‘ چین کی بھی اس خطے میں دلچسپی اتنی بڑھ گئی ہے اور وہ روس کے ساتھ مل کر یہاں سے معدنیات کی کان کنی کے منصوبے بنا رہا ہے۔ نام رکھا گیا ہےPolar Silk Road ۔ ظاہر ہے کہ امریکہ کو اس کی پوری خبر ہے اور وہ چین اور روس کی مشترکہ پیش قدمی کو روکنے کے لئے سارا (برفانی) جنگل خریدنا چاہتا ہے‘ تاکہ چین اور روس مل کر وہاں اپنے منصوبے شروع نہ کرسکیں۔
گرین لینڈ کا اَسی فیصد رقبہ سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے اور برف بھی وہ جس کی گہرائی دو میل تک جاتی ہے۔ 2002ء سے برُے دن شروع ہوئے‘ جب عالمی حرارت (Global Warming ) کی نئی آفت کی وجہ سے گرین لینڈ میں ہر سال280 ارب ٹن برف پگھل کر سمندر میں گرنے لگی۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ گرین لینڈ لق ودق برفشاں ہوگا ‘جہاں کوئی انسانی آبادی نہ ہوگی‘ یقین جانئے کہ وہاں 58,000 ہزار لوگ رہتے ہیں۔ اُن کی خوشی اور خوشحالی کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اربوں کھربوں ٹن کے برفانی پہاڑوں کے حد نگاہ تک پھیلے ہوئے سلسلوں کے درمیان رہتے ہیں بلکہ ڈنمارک کی حکومت اُن کی والی وارث ہے اور انہیں ہر سال 575 ملین ڈالر کی مالی امداد (گرانٹ) دیتی ہے۔ (یہ رقم ڈنمارک کے کل بجٹ کا 60 فیصد بنتی ہے)۔ مقام حیرت نہیں کہ صدر ٹرمپ کی پیشکش ڈنمارک اور گرین لینڈ (نیم خود مختار) دونوں کی حکومتوں نے مسترد کر دی ہے اور گرین لینڈ کی برفانی سرزمین پر ایک بڑا بورڈ نصب کر دیا ہے ‘جس پر لکھا ہے۔ Not For Sale۔
ماہرین کے اندازے کے مطابق گرین لینڈ کی طرف امریکہ کو حریصانہ نظروں کے ارتکاز اور چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ دنیا میں جن بے حد قیمتی معدنیات کو Rare Earth Minerals کہا جاتا ہے‘ اُن کا دنیا بھر کا ایک چوتھائی ذخیرہ اس سرزمین پر ہے اور وہ بھی اتنی بڑی مقدار میں کہ اگلے پچاس برس تک ختم نہ ہوگا۔گرین لینڈ کا اپنا رقبہ 839,800مربع میل ہے اور اُس پر قابض ڈنمارک کا صرف 16,638 مربع میل۔ اسکیمو (جو گرین لینڈ کے اصل باشندے ہیں) کی مادری زبان میں اس ملک کا نام Kalaalit Nunat ہے اور دارالحکومت کا سرکاری زبان میں نام Nuuil (اسکیمو زبان میں Godhtab )۔
کالم ختم ہونے کو ہے اور ابھی منطقۂ قطب شمالی کا تعارف باقی ہے۔ یہ جغرافیائی خطہ ساری دنیا کا آٹھ فی صد اور خشکی کا پندرہ فی صد ۔ یہ ہے اس کی وسعت کا عالم۔ برف سے ڈھکا ہونے کی وجہ سے یہاں کتنی سردی ہے‘ آپ کے لئے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہوگا۔صدر ٹرمپ لٹھ مارنے میں بے مثال ہیں۔ انہوں نے اس بھونڈے انداز میں گرین لینڈ کی خریداری کی بات کی جیسے وہ نیویارک میں کوئی عمارت خرید رہے ہیں۔ ڈنمارک کی وزیراعظم ایک بڑی مہذب خاتون ہیں۔ (جیسے خواتین اور وہ بھی سیاست دان خواتین اکثر ہوتی ہیں) انہیں بھی یہ بات اتنی برُی لگی کہ وہ اسے احمقانہ کہے بغیر نہ رہ سکیں اور اس طرح بیل کو سرخ رومال دکھا دیا۔ صدر ٹرمپ کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے ڈنمارک کے ردعمل کو باعثِ کوفت و ذہنی اذیت کا اسم صفت استعمال کر کے جواب دیا‘ مگر آپ اسے چائے کی پیالی میں طوفان کہہ سکتے ہیں۔ ان سطور کی اشاعت تک یہ اُڑتی ہوئی گرد بیٹھ چکی ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات (دونوں Nato کے رکن ہیں) پھر معلوم پر آچکے ہیں۔ اہلِ یورپ کو آپس میں لڑنا بھی آتا ہے اور صلح کر کے امن کے ساتھ رہنا بھی۔ دوسری طرف برصغیر ہندو پاک میں رہنے والوں کو بدقسمتی سے نہ جم کر لڑنا آتا ہے اور نہ پائیدار اور باوقار صلح کرکے ڈھنگ سے رہنا آتا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں