پروین رحمان کی یاد میں

کالم نگار کو یہ اعتراف کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ وہ 22 جنوری 1957ء کو ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی اور 13 مارچ2013ء کو کراچی میں نامعلوم لوگوں کے ہاتھوں قتل کر دی جانے والی اُس کمال کی خاتون کو بالکل بھول چکا تھا‘ جس کا نام پروین رحمان تھا۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ بڑھاپے کی وجہ سے حافظہ کمزورہو گیا ہے ‘بلکہ ان ساڑھے چھ سالوں میں رُونما ہونے والے دوسرے المناک واقعات اور خونِ خاک نشیناں کے دھبوں نے میرے ذہن کو اتنا غبار آلود ‘بلکہ خون آلود کر دیا تھا کہ مجھے اپنی بے حد پیاری بیٹی‘ نہیںدوست (ایک بھی ملاقات نہ ہونے کے باوجود گہری دوستی کا رشتہ) اور رفیق کار (ایک بار بھی مل کر کام کرنے کا موقعہ نہ ملنے کے باوجود رفاقت کا نہ ٹوٹنے والا رشتہ) کا قتل بھول گیا۔ یکم اکتوبر کو سپریم کورٹ نے قتل کے دس بھولے بسرے واقعات کی تحقیق پر صفر پیش رفت ہونے پر اپنی ناراضی ظاہر کی۔ جج صاحبان نے جو باتیں کیں ‘وہ اگلے دن پاکستان کے تمام اخبارات میں صفحہ اول پر شائع ہوئیں تو میرے دل کا زخم پھر ہرا ہو گیا۔ کالم نگار اس لحاظ سے قابلِ معافی ہے کہ ان ساڑھے چھ سال میں کتنے بڑے بڑے ظلم ہوئے؟ مظلوموں اور ستم زدگان اور اُفتادگانِ خاک کے اہل و عیال‘ رشتہ داروں‘ دوستوں‘ عزیزوں پر کتنی بار کوہِ غم ٹوٹا؟ اُن کی دنیا کس طرح تباہ و برباد‘تاخت و تاراج ہوئی ؟ ایک کے بعد دوسرا المیہ‘ پشاور سے لے کر کراچی تک پھیلی ہوئی کربلا۔ قافلہ حسینی میں پہلی بار شامل ہونے کا اعزاز حسن ناصر کو حاصل ہوا‘ جس کو ایوب خان کے دور اور نواب آف کالا باغ کو گورنری کے زمانے میں شاہی قلعہ لاہور میں تشدد کر کے شہید کیا گیا۔محض اشتراکی ‘ عوام دوست اور سامراج دشمن ذہن رکھنے کے جرم میں۔ کراچی میں ایس پی کے درجہ کے پولیس افسر (رائو انوار) کے ہاتھوں مبینہ طور پر چار سو سے زائد (غالباً بے گناہ اور صرف مشکوک) افراد کا جعلی پولیس مقابلوں میں قتل‘ ماڈل ٹائون لاہور میں 14 بے گناہوں ( طاہر القادری صاحب کا پیروکار ہونا اُن کا واحد جرم تھا) کا قتل ِعام۔ اس سال کے شروع میں ساہیوال کے قریب شاہراہ پر انسدادِ دہشت گردی پولیس کے جانبازوں کے ہاتھوں ایک معصوم بچی‘اُس کے والدین اور اُن کے دوست (جو کار چلا رہا تھا) کا سو فیصدی بے جواز اور ناقابلِ فہم قتل۔ تقریباً ہر ہفتے کسی نہ کسی تھانے میں زیر تفتیش ملزم کا ناقابل برداشت تشدد سے قتل۔ بہت سے دیگر مقامات (خصوصاً قصور اور اُس کے گردو نواح میں) پھول جیسے درجنوں بچوں کا جنسی حملوں کے بعد قتل۔ پختونخوا کی ایک یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا قتل۔ ایک درسگاہ میں ایک استاد کا قتل۔ یقینا میں بے گناہوں کے قتل کی بہت سی دیگر وارداتوں کو بھول رہا ہوں‘ مگر جو مندرجہ بالا سطور میں لکھ دی گئی ہیں وہ بھی ہمیں ساری زندگی خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہیں۔ بقول غالبؔ:ع 
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
میں چاہتا ہوں کہ آج کا کالم جس عظیم اور ہمارے لئے باعث ِ فخر خاتون کے اعزاز میں لکھا جا رہا ہے‘ میں اپنے قارئین کو اُس سے مفصل تعارف کرائوں۔ پروین نے ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں حاصل کی۔ 1971 ء میں ہمارا ملک ٹوٹا تو وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے کراچی آگئی۔ اُس نے یہاں سے دائود کالج آف انجینئرنگ سے فن تعمیرات میں ڈگری اور ہالینڈ کے شہرRotterdam سے سماجی علوم اور شہری منصوبہ بندی کا ڈپلومہ حاصل کیا۔انڈین سول سروس (جو برطانوی راج کی آنکھ کا تارا اور نظام حکومت کی ریڑھ کی ہڈی تھی) کی بلند پایہ اور اعلیٰ ترین ملازمت کو چھوڑ دینے والوں کی تعداد صرف تین ہے‘ مجنوں گھورکھپوری‘ فراق گورکھپوری اور اختر حمید خاں۔ موخر الذکر نے کراچی اورنگی بستی آباد کرنے کا فقید المثال کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نے پروین کو اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے جائنٹ ڈائریکٹر کا بڑا عہدہ دے کر اپنا دستِ راست بنا لیا۔ 1988ء میں اس پراجیکٹ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تو پروین اس کے ایک ڈویژن کی ڈائریکٹر بنائی گئیں۔ وہ خدمتِ خلق کی کئی اور غیر سرکاری تنظیموںکی سربراہ بھی تھیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی کو صرف ایک کام کے لئے وقف کر دیا‘ کراچی کی کچی بستیوں میں رہنے والوں کی رہائش‘ صفائی‘ تعلیم ‘ صحت اور پینے کے پانی کی سہولیات کو بہتر بنانا۔ وہ کراچی کے چار اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں‘ کراچی یونیورسٹی‘ NED یونیورسٹی‘ وادیٔ سندھ سکول آف آرٹ اور دائود کالج آف انجینئرنگ میں پڑھاتی بھی تھیں۔
جس خاتون نے اپنی زندگی کے28بہترین سال خدمتِ خلق کو دیئے‘ وہ 13 مارچ 2013ء کی ایک صبح معمول کے مطابق‘ گھر سے اورنگی اپنے دفتر جا رہی تھیں کہ پیرآباد پولیس سٹیشن کے قریب دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار قاتلوں نے اُن پر گولیاں برسا کر اُنہیں شہید کر دیا۔ پولیس نے قتل کے جرم میں ملوث ایک ملزم (احمد خان المعروف پپو کشمیری) کو مانسہرہ میں گرفتار کر لیا اور قتل کے اگلے ہی دن پولیس نے قاری بلال نامی شخص کو تحریک طالبان کا رکن ہونے اور پروین کے قاتلوں میں سے ایک ہونے کے الزام میں دن دہاڑے ہلاک کر دیا اور تفتیش بند کر دی۔ جب پولیس پروین کے اندھے قتل کے مجرموں کو نہ پکڑ سکی اور پکڑنے کی اُمید بھی نہ رہی تو اُس نے پولیس مقابلے کی آڑ میں بذات خود ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جس پہ نہ کوئی مقدمہ چلا‘ نہ چالان عدالت میں پیش ہوا‘ نہ اُس کا بے گناہ ہونا ثابت ہوا اور نہ مجرم ہونا۔ ہماری سپریم کورٹ کا بھلا ہو جس نے یکم اکتوبر کو پروین کے قتل کے مقدمے کی سماعت کی۔ JIT (تفتیش کی مشترکہ ٹیم) کے سربراہ بابر بخت قریشی کو تسلیم کرنا پڑا کہ چھ سالوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور اُس نے عدالت سے مزید وقت مانگا۔ جسٹس عطا محمد بندیال صاحب نے بجا طور پر فرمایا کہ زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والے غنڈوں نے ہر اُس شخص کو قتل کر کے اپنے راستے سے ہٹایا جو اُن کی غنڈہ گردی کے راستے میں رکاوٹ بنتا ۔ اگر پروین شہید کی غمز دہ بہن عقیلہ اسماعیل عدالت عالیہ میں انصاف کی زنجیر ہلانے کی جرأت نہ کرتیں تو ان گنت دوسرے جرائم کے مقدمات کی تفتیش کے نامکمل ہو جانے کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہو جاتا ۔ عدالت عالیہ کے جج صاحبان نے صرف زمینوں پر قابض ہونے والے مافیا کا نہیں بلکہ کراچی میں پانی کی ترسیل اور تقسیم کے انتظامات پر قابض مافیاکی صاف الفاظ میں نشاندہی کی اور یہ بھی کہا کہ بدقسمتی سے قانون توڑنے والے مجرم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔ پروین کے قتل کے مقدمہ کی کارروائی عدالت عالیہ میں اس لئے پہنچی کہ 2014 ء میں ہونے والی عدالتی تفتیش میں یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ متعلقہ پولیس افسران نے لینڈ مافیا سے رشوت لے کر یا اُس کی دہشت کی وجہ سے قتل کی تفتیش کا حلیہ اتنی برُی طرح بگاڑ دیا ہے کہ اصل مجرموں کو پکڑنا ممکن نہیں رہا۔ عدالت عالیہ نے JIT کو حکم دیا کہ وہ اپنی عبوری رپورٹ تین ہفتوں کے اندر اور مکمل رپورٹ دو ماہ کے اندر پیش کرے۔ جب JITکے سربراہ کو عدالتی احکام کا سامنا کرنا پڑا تو اُسے اچانک یاد آیا کہ پروین کے قتل کے چاروں ملزمان (رحیم سواتی‘ امجد حسین‘ احمد خان عرف پپو کشمیری اور محمد عمران) تو کافی عرصہ پہلے گرفتار کئے گئے تھے اور اب وہ عرصے سے زیر حراست ہیں اور باری آنے پر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بنا ئے جانے والی عدالت میں اُن پر مقدمہ چلایا جائے گا۔
ایک نظامِ حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا سب سے بڑا اور بنیادی امتحان ایک ہی ہوتا ہے کہ وہاں قانون کا کتنا احترام کیا جاتا ہے؟دنیا کے چند ممالک میں کرپشن عروج پر ہے اور کسی نالائقی اوربدقسمتی سے ہمارے ملک میں ان دونوں برائیوں کا مہلک امتزاج سرکاری اداروں میں اس حد تک رچ بس گیا ہے کہ علاج کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آیئے ہم پروین جیسے شہدا کے درجات کی بلندی کی دعا مانگنے کے ساتھ یہ عہد بھی کریں کہ ہم اُس چراغ کو روشن کریں جس کی خاطر پروین نے اپنی جان کی قربانی دی۔ پروین خاک نشینوں کی آنکھ کا تارا تھی‘ مگر اُس کا خون رزق خاک نہیں ہوا‘ بلکہ وہ تارا ہمارے دل و دماغ کو ایمان کی حرارت بخشتا رہے گا اور ترو تازہ رکھے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں