Enough is Enough

مجھے معذرت خواہ ہونا چاہیے کہ کالم اُردو میں اور اس کا عنوان انگریزی میں ہے۔ کالم نگار کو انگریزی زبان کے تین الفاظ مجبوراً استعمال کرنا پڑے۔ یہ لکھا جا سکتا تھا کہ لاہور میں دل کے مریضوں کے ہسپتال پر وکلا کے حملے نے عدل و انصاف‘ امن و امان اور قانون کی حکمرانی کے تصورات کی دھجیاں اُڑانے اور قائداعظم اور اقبالؔ کے معزز پیشے کے وقار کو خاک میں ملانے میں حد کر دی۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ اس تشویشناک صورتحال کی علامت ہے کہ پانی سر سے گزر چکا ہے‘ مگر انگریزی کے جو تین الفاظ آج کے کالم کا عنوان ہیں‘ وہ واضح طور پر یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہوا وہ صبر اوربرداشت کا امتحان لینے کے لیے کافی ہے۔ اب‘ اس سے آگے جانا ممکن نہیں۔
کالم نگار پیشے کے اعتبار سے بیرسٹرہے اور دوسری طرف ایک ڈاکٹر کا بیٹا ہے اور اسی وجہ سے میں پیدائش سے لے کر 19 برس تک (یونیورسٹی جانے تک) غیر منقسم پنجاب کے مختلف شہروں کے ہسپتالوں میں رہا۔ گزرے ہوئے دو ہفتوں میں لاہور میں امراضِ قلب کے ہسپتال پر وکیلوں کے حملے پر اتنا کچھ لکھا اور کہا جا چکا کہ میرے لیے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کوئی نئی چیز نہیں رہ گئی‘ پھربھی قانون اور پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت میں میرا فرض بنتا ہے ۔یہ عرض کروں کہ اگر بہت سے آنسو بہا لیے جائیں‘ اگر رنج و غم کے عالم میں اپنے بال بھی نوچے جائیں تو اب ماتم کا یہ مرحلہ بھی گزر چکا ہے۔ اب‘ ہم اس لمحہ فکریہ پر رُک کر چند باتیں سوچیں۔ یہ واقعہ کیوں رونما ہوا؟ دوسرے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ کیا کوئی صورت نہ تھی کہ پولیس اس کی مؤثر طریقے سے روک تھام کر لیتی؟ہم اس طرح کے واقعات کا مستقبل میں سدباب کس طرح کریں؟
تمام مہذب ملکوں کا یہ دستور ہے کہ وہ اُن لوگوں کو جو معزز پیشوں سے وابستہ ہوتے ہیں‘ اُن کی کڑی نگرانی کرتے ہیں‘ اُن سے ایک ضابطہ اخلاق کے احترام اور پابندی کی توقع رکھتے ہیں‘ اُن کا سختی سے احتساب کرتے ہیں۔جس شخص کے خلاف ایسی کوئی شکایت سامنے آئے یا الزام عائد کیا جائے کہ اُس نے کوئی ایسا غیر اخلاقی‘ نامناسب یا غیر قانونی کام کیا ہے تو وہ اپنے پیشے کے ٹریبونل کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے‘ جہاں اُس سے اسی طرح باز پرُس ہوتی ہے‘ جس طرح کسی عام فوجداری مقدمے میں‘ اگر الزام ثابت ہو جائے تو جرمانہ اور خاص مدت تک معطلی سے لے کر رجسٹریشن کے منسوخ کر دیئے جانے (یعنی اُس پیشہ میں روزی کمانے کا حق چھین لیے جانے) کی سزا دی جا سکتی ہے اور ہر سال سینکڑوں افراد کو دی جاتی ہے۔ میں برطانیہ کی مثال دوں گا‘ جہاں ہر سال تقریباً 500 ڈاکٹروں اور وکیلوں سے بطورِ سزا پریکٹس کرنے کا لائسنس چھین لیا جاتا ہے۔ آپ غور فرمایئے کہ ایک شخص جو تقریباً سات سال کی تعلیم و تربیت کے بعد ڈاکٹر یا وکیل بنا اور پھر ادھیڑ عمر کو پہنچنے تک پندرہ بیس سال کی شب و روز کی محنت کے بعد کسی مقام پر پہنچا اور اپنے قدم جمائے اور اتنی کامیابی حاصل کی کہ معقول آمدنی کا پکا بندوبست ہو گیا۔ اگر وہ ایک سنگین غلطی کا مرتکب ہو کر اور اپنے کئے کی سزا پا کر اپنے لائسنس سے محروم ہو جاتا ہے تو وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ وہ بقیہ زندگی میں دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی نہ ہمت رکھتا ہے اور نہ صلاحیت اور نہ مہلت۔ پیشہ ورانہ ٹریبونل (جو عدالتی اختیارات کے مالک ہوتے ہیں) صرف وکلا اور ڈاکٹروں کے نہیں ‘بلکہ ہر پیشہ کے ہوتے ہیں۔ اساتذہ کے‘ اکائونٹنٹس کے‘ دندان سازوں کے‘ مالی مشیروں (قرض دلوانے والوں) کے‘ معماروںکے‘ صحافیوں کے۔ اس کا مقابلہ ذرا اپنے ملک سے کریں‘ اول تو کوئی انضباطی (Regulatory)ادارہ ہے نہیں اور اگر ہو‘ جیسے بار کونسل ‘تو وہ ٹریڈ یونین بن کر اپنے ہم پیشہ لوگوں کا تحفظ کرتا ہے۔ اپنے کسی رکن ‘چاہے وہ کتنی بڑی غلطی یا کتنے بڑے جرم کا مرتکب ہو‘ کو سزا نہیں دیتا۔ اگر میرا حافظہ مجھے دھوکہ نہیں دے رہا تو سپریم جوڈیشنل کونسل نے آج تک صرف جسٹس شوکت علی کو کرپشن کا جرم ثابت ہو جانے پر اُن کے عہدے سے برطرف کیا۔ اس کا مطلب ہے 72برسوں میں صرف ایک بار۔ بار کونسلوں کا ریکارڈ دیکھیں ‘جواب ملتا ہے صفر۔ ہمارے ملک میں نالائقی‘ فرض ناشناسی‘ کام چوری‘ رشوت اور بدعنوانی کے مہلک امتزاج نے ہمارے ریاستی ڈھانچے اور سرکاری نظام کوغیر فعال اور مفلوج کر دیا ۔یہ ہے ‘وہ پس منظر جس میں ایک آمر نے پاکستان کے آئین کو پامال کیا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اُن کے عہدے سے برطرف کیا ‘بلکہ اُنہیں بیوی بچوں سمیت گھر میں نظر بند بھی کر دیا۔ملک کے طول و عرض میں وکیلوں نے ان غیر قانونی اقدامات کے خلاف مظاہرے کئے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری اور دوسرے بہادر اور با ضمیر ججوں کی بحالی کے بعد ایک بڑی تبدیلی آئی جسے بجا طور پر عظیم بدقسمتی قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ یہ تھی کہ قانون کے رکھوالے ہی قانون توڑنے والے بن گئے۔
گزرے ہوئے ان بارہ برسوں میں ہمیں ہر طرح کے صدمات برداشت کرنا پڑے۔ وکلا کے جج صاحبان پر حملے‘ وکلا کے پولیس پر حملے‘ وکلا کے سائلین پر حملے‘ وکلا کے ایک دوسرے پر حملے‘ وکلا کے صحافیوں پر حملے‘ وکلا کے تہذیب‘ شائستگی اور ضابطۂ قوانین پر حملے اور اب (وسط دسمبر میں) وکلا کا لاہور میں دل کے ہسپتال پر حملہ‘ وہاں کام کرنے والے ڈاکٹروں‘ طبی عملہ‘ مریضوں اور اُن کے لواحقین‘ میڈیکل مشینری اور طبی سازو سامان پر تباہ کن یلغار۔ یقینا آپ کالم نگار سے متفق ہوں گے کہ غلطی چاہے بدترین ہو اور جرم چاہے کتنا سنگین ہو‘ مجرم اعترافِ جرم اور صدقِ دل سے اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کر سکتا ہے۔ برطانوی قانون میں مجرموں کے احساسِ شرمندگی کو Remorse کہا جاتا ہے‘جو اُنہیں دی جانے والی سزا میں بڑی تخفیف کا باعث بنتا ہے۔ صد افسوس کہ بقول اقبال نا صرف متاعِ کارواں لُٹ گئی‘ بلکہ احساسِ زیاں بھی جاتا رہا۔ ہر بار کونسل قانون شکن وکیلوں کا وکیل بن کراُن کے دفاع پر کمر بستہ ہو گئی۔ توڑ پھوڑ اور جسمانی حملہ ایک عام شہری کرے تو مجرم اور سزا کا مستحق اور اگر اُسی جرم کا ارتکاب کرنے والا وکیل ہو تو وہ ضمانت کا حقدار اور رہائی کا بھی‘ یہ ہے انصاف کا نیا کلیہ ۔ بلا خوف ِتردید یہ لکھا جا سکتا ہے کہ ہر ضلع کی بار ایسوسی ایشن‘ ہر ہائی کورٹ کی بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل‘ ہر سطح پر وکلا کی انجمن اپنے اراکین کی نگرانی اور باز پرُس کرنے اور اپنے معزز پیشے کے بلند اخلاقی معیار کی حفاظت کرنے میں برُی طرح ناکام رہی ہے۔ 16 اور 17 دسمبر کی درمیانی رات کو لندن کے ایک گھر میں جب یہ سطور لکھی جا چکی تھیں تو پاکستان سے اُڑتی اُڑتی خبر آئی کہ جناب اعتزاز احسن اور جناب عابد حسن منٹو اور اُن کے ہم خیال 55 وکلا نے بار کونسلوں کو کھلا خط لکھا ہے۔ میں نے وہ ابھی تک نہیں پڑھا‘ مگر میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اُنہوں نے جو فریاد کی اُس کے مندرجات کیا ہو سکتے ہیں؟ وہ قابلِ صد تعریف ہیں۔ اُن کے خط کا مضمون پڑھوں گا تو شرم سے جھکا ہوا سر فخر سے اُونچا ہو جائے گا۔ کالم نگار یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلیاں ایک نیا قانون منظور کریں‘ جس کے تحت تمام پیشوں کو ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے کا ذمہ دار ایک نیا انضباطی (Regulatory) ادارہ تشکیل دیا جائے جو بار کونسلوں سے بالا تر ہو اور وہ ہر اُس شخص کو (چاہے وہ ڈاکٹر ہو‘ وکیل یا استاد) اپنے پیشہ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے یا کسی جرم کا ارتکاب کرنے پر مقدمہ چلا کر اور اُسے اپنے دفاع کا حق دے کر وہ سزا دے جو قانون اور انصاف کے تقاضے پورا کرے۔ مذکورہ بالا ادارہ ریٹائرڈ جج صاحبان‘ چوٹی کے وکلا اور پنشن یافتہ معزز لوگوں پر مشتمل ہو‘ جنہیں پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر صدر مملکت نامزد کرے۔ ہمیں جو گہرا گھائو لگنا تھا‘ وہ لگ کے رہا۔ آیئے اب ہم اُس زخم کو مندمل کرنے کی تدبیر سوچیں ۔چونکہ حاصل کلام وہی ہے ‘جو آج کے کالم کا عنوان ہے‘ Enough is Enough ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں