برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

اقبال جیسے صاحب ِبصیرت نے حکمران اور مراعات یافتہ طبقے کیلئے برہمن کا لفظ کئی بار استعمال کیا۔ وہ جب یہ کہتے ہیں کہ صنم کدوں کے بت پرُانے ہو گئے ہیں‘ یعنی پرانا‘ بوسیدہ نظام حالتِ نزع میں ہے ‘تو وہ یہ سچ بولتے وقت برہمن کے برُامان جانے کے امکان کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ طبقاتی نظام پر برہمن کا قبضہ ہو تو اُس کا وقار اور ٹھاٹھ باٹھ اُس نظام کے دائم و قائم رہنے میں ہے ۔تاریخ میں محکوم اپنی غلامی کے عذاب سے جب بھی بیدار ہو تو حکمرانوں (برہمنوں) کی ساحری (یعنی جادوگری) اُنہیں پھر سُلا دیتی ہے۔اقبال نے ایک سو سال پہلے مشرق و مغرب پر نظر دوڑائی تو اُنہیں دو چیزیں سب سے نمایاں نظر آئیں‘مسلمانوں کا سیاسی اور فکری انتشار اور دوسری طرف مغرب کی سامراجی قوتوں کا اتحاد اور اتفاق۔
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں عالمِ اسلام جس حالت میں ہے وہ شدید افراتفری‘ اندرونی خلفشار اور باہمی تصادم سے بڑھ کر خانہ جنگی یا اُس سے ملتی جلتی صورتحال کے الائو میں جل رہا ہے۔ بدترین مثال تو شام کی ہے‘سارا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے‘دس لاکھ کے قریب لوگ اپنے آبائی ملک سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ تہران سے لے کر بغداد‘ بیروت اورالجزائر کے دارلحکومت تک لاکھوں افراد ہر روز یا ہر ہفتہ مظاہرے کرتے ہیں۔ قاہرہ بھی آتش فشاں پہاڑ کی طرح دہک رہا ہے۔ کوئی دن کی بات ہے جب وہاں بھی عوامی طاقت کو آمرانہ طاقت پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔کُردستان پر جن چار ممالک کا قبضہ ہے وہ ہیں‘ ایران‘ عراق‘شام اور ترکی۔ وادیٔ کشمیر پر مجھے ایک لفظ بھی لکھنے کی ضرورت نہیں ‘چونکہ قارئین وہاں کی صورتحال اور عالمی رائے عامہ کی مجرمانہ خاموشی سے بخوبی واقف ہیں۔ 
پاکستان کے پاس دنیا کی صرف چھٹی بڑی فوج ہی نہیں‘ ایٹمی ہتھیاروں کابڑا ذخیرہ بھی ہے‘جو غیر ملکی جارحیت کے خلاف مؤثر ڈھال ہے‘ مگر بدقسمتی سے ایٹمی ہتھیاروں کی بدولت ہمیں نہ داخلی امن و امان مل سکتا ہے اور نہ قانون کی حکمرانی۔ صرف خطِ افلاس سے نیچے کروڑوں افراد ہی نہیں بلکہ متوسط طبقے کی زندگی کو بھی مہنگائی نے عذاب بنا دیا ہے۔ جرائم کی لہر بلند سے بلند ہوتی جا رہی ہے۔ اپنا قوامی ترانہ سُنیں تو لگتا ہے کہ وہ کسی اور ملک کا ہو‘کیونکہ ہمارے اوپر تو اس کے ایک لفظ کا بھی اطلاق نہیں ہوتا۔ عدل و انصاف سے محرومی‘ سینکڑوں جعلی پولیس مقابلے‘ ہر روز تھانوں میں ہزاروں زیر تفتیش (زیادہ تر بے گناہوں) پر نہ ختم ہونے والا تشدد اور تعلیم اور صحت کی زبوں حالی ‘ان سب نے ملیامیٹ کر دیا‘ قوتِ اُخوتِ عوام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ اب آپ بتائیں کہ ایک نیم غلام ملک کے کروڑوں لوگ جن کے انسانی حقوق روزانہ پامال ہوتے ہوں یا ماڈل ٹائون لاہور سے لے کر کراچی تک (براستہ ساہیوال) قتل کر دیئے جانے والے بے گناہ افراد کے خون کے دھبے ہمارے شہروں میں اور شاہراوں پر بکھرے نظر آتے ہوں‘ تو ایسی بدنصیب بے بس ‘ ستم زدہ اور عذابوں میں گھری قوم اہالیانِ کشمیر کو آزادی دلوائے تو کیونکر؟ ہماری وہ حکومت جو عوام کو مچھروں اور کتوں سے نہیں بچا سکتی وہ وادیٔ کشمیر میں کئی ماہ سے گھروں میں نظر بند لاکھوں افراد کو بھارتی چنگل سے کس طرح رہائی دلوا سکتی ہے؟ جب تک پاکستانی عوام کے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اور پائوں کی بیڑیاں نہیں ٹوٹتیں ہم فلسطین یا کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں سوائے خالی نعروں اور کھوکھلے دعوئوں کے کوئی بامعنی اور نتیجہ خیز حصہ نہیں لے سکتے۔
یہ تو تھا تصویر کا ایک رُخ یعنی عالم اِسلام کا رُخ‘ آیئے اب ہم تصویر کا دُوسرا رُخ دیکھتے ہیں جہاں ہمیں برہمن (سامراجی ‘ مغربی اور دنیا پر غالب ممالک کے حکمرانوں) کی پختہ زناری کی وہ تصویر نظر آتی ہے جو ہمارے لیے عبرت ناک ہے اور سبق آموز بھی۔ بحیرہ اوقیانوس میں ایک چھوٹا سا جزیرہ‘ نام ہے؛Bougainville (آسٹریلیا کے شمال مشرق میں) کل آبادی تین لاکھ (لاہور یا کراچی کی ایک بستی جتنی) 23 نومبر2019 ء کو اس جزیرے کے باشندوں کو استصواب رائے کے ذریعے یہ موقع دیا گیا کہ وہ پاپوا نیو گنی سے داخلی خود مختاری کے حق میں ووٹ ڈالیں یا مکمل آزادی کے حق میں۔98فیصد سے زائد رائے دہندگان نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔آپ نے غور فرمایا کہ یہ حقِ خود اختیاری نہ کشمیر میں رہنے والوں کو ملا اور نہ فلسطین کے باشندوں کو۔ 1990ء کی دہائی میں اس جزیرے کے لوگوں نے پاپوا کی حکومت سے دس سال لمبی جنگ لڑی۔2001 ء میں نیوزی لینڈ کی ثالثی کی بدولت جنگ اس شرط پر بند ہوئی کہ 2020 ء میں اس جزیرے کے باشندگان کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ اپنے لیے مکمل آزادی کو چُن لیں اور اس طرح پاپوا سے بالکل علیحدہ مملکت معرض وجود میں آجائے۔ اگر ایسا ہوا (جس کا واضح امکان ہے) تو یہ دنیا کی سب سے چھوٹی تو نہیں مگر سب سے کم عمر اور نوزائیدہ مملکت ہوگی اور اگر اقوام متحدہ کی رکن بنی تو یہ وہاں قانوناً روس اور امریکہ کے ہم پلہ ہوگی اور اسے بھی (بڑی عالمی طاقتوں) کے برابر اپنا ایک ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوگا۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ اس جزیرے کے باشندوں کو آزادی کی نعمت پلیٹ پر رکھ کر پیش کی گئی۔ انہوں نے آزادی مسلح جدوجہد سے حاصل کی‘ جس میں اس جزیرے کے 20 ہزار لوگوں نے اپنی جان کی قربانی دی۔ جزیرہ نا صرف قیمتی لکڑی کے جنگلوں بلکہ سونے‘ چاندی اور تانبے کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ جزیرے کے لوگوں کو یقین ہے کہ نباتات اور معدنیات کے اتنے قیمتی ذخائر کی بدولت اُن کی کایا پلٹ جائے گی اور وہ خطِ افلاس سے اُوپر اُٹھ کر متوسط درجے کی آمدنی کے ممالک میں شامل ہو سکیں گے۔
کالم کے کے آخری حصے میں قارئین کو بحر اوقیانوس سے واپس بلا کر مشرقی وسطیٰ پر نظر ڈالنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ عراق کے تمام بڑے شہر ان دنوں زبردست عوامی مظاہروں کی لپیٹ میںہیں۔ ایک شخص صدام حسین کے دور حکومت میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچ کر جب فوج سے ریٹائر ہوا تو اُس نے سویڈن میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ عراق کا سیاسی موسم بدلا تو وہ واپس آگیا۔ قسمت نے یاوری کی اور وہ عراق کا وزیر دفاع بن گیا۔ نام ہے؛ Najah-Al-Shammari اس کے پاس عراق اور سویڈن دونوں ملکوں کی شہریت ہے۔ سویڈن کے اخباروں نے وسط نومبر میں یہ تہلکہ مچا دینے والی خبر شائع کی کہ اس شخص نے سویڈن میں اپنا نام Najah-Al-Adeliرکھا اور سویڈن سے چلے جانے کے بعد بھی وہ جعلسازی سے سویڈن کی حکومت سے وظائف کی صورت میں تقریبا7000 پائونڈوصول کر چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب یہ خبر بغداد پہنچی تو نا صرف وزیر نے‘ بلکہ ساری عراقی حکومت نے اس الزام کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس خبر کو شائع کرنے والے سویڈن کے اخبارات پر ہتکِ عزت کا دعویٰ کرنے کے پختہ ارادے کا اعلان بھی کیا ‘مگر یقین جانئے کہ یہ صرف گیدڑ بھبکی ہے۔ یہ ارادہ اتنا ہی پختہ ہے جتنا شہباز شریف کا برطانوی اخبار پر مقدمہ دائر کرنے کا۔ سنگین الزام یہ تھا کہ میاں صاحب برطانوی حکومت کی طرف سے زلزلہ زدگان کو بھیجی گئی رقوم میں خورد بردکے مرتکب ہوئے۔ ماہ نومبر کے آخری ہفتے سے شہباز شریف اپنے مریض بھائی کی تیمار داری اور نگہداشت کیلئے اُن کے ساتھ ہسپتال آتے جاتے نظر آتے ہیں‘ یقینا وہ اتنے مصروف نہیں کہ تھوڑا سا وقت نکال کر کسی اچھے بیرسٹر کو نہ مل سکیں اور مقدمے کی کارروائی شروع کر دیں۔ اجازت دیجئے کہ میں یہ پیشگوئی کر سکوں کہ وہ لندن میں ایک ماہ رہیں یا ایک سال‘ الزام لگانے والے اخبار پر کبھی دعویٰ دائر نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ وجہ مالی تنگی نہیں ‘بلکہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر جرح کا سامنا کرنے سے معذوری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت کی گاڑی زرداری اور شریف برادران کے تعاون کے بغیر چل نہیں سکتی اور وہ اور اُن کی آل اولاد اربوں ڈالروں کی کرپشن کے الزامات کی دلدل میں گردن کی سطح تک غرق ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں