سرکاری افسروں کے تبادلے

یہ کالم نگار ہزاروں میل دُور وطن ِعزیز میں سرکاری افسروں کے تبادلوں کی خبر سنتا ہے تو اسے ایک محاورہ یاد آتاہے:محمود کی پگڑی ایاز کے سر۔ جس کا مطلب ہے بے مقصداور غیر ضروری کارروائی۔ ہندوستان پر انگریزوں نے دو سو برس حکومت کی تو جو نو آبادیاتی نظام بنایا ‘ اس کیلئے نا صرف ہر محکمے میں افسر تعینات کئے ‘بلکہ اُن کے تبادلوں کی پختہ روایت کو بھی پروان چڑھایا۔ اگست 1947 ء میں ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی‘ مگر اُس کے بنائے ہوئے نظام کو جوں کا توں رکھا۔وہی پولیس‘ وہی پٹوار‘ وہی قانون‘ وہی طریقۂ انتخاب‘ وہی سرکاری زبان۔ ایک اور فرق بھی آیا کہ نئے حکمران نہ پرانے حکمرانوں جتنے محنتی ‘ قابل اور فرض شناس تھے اور نہ اُتنے دیانت دار۔ وہ گورے افسروں کے مقابلے میں عوام دوستی کے امتحان میں بھی برُی طرح فیل ہوئے۔ قدرت اللہ شہاب یا اس درجہ کے کسی اور بڑے سرکاری افسر نے لکھا کہ (غالباً) عزیز احمد کو مشرقی پاکستان کا چیف سیکرٹری لگایا گیا تو وہ صاحب بہادر دفتر میں آنے والے بنگالیوں سے مجبوراً ہاتھ ملا کر موقع ڈھونڈتے تھے کہ کب غسل خانے جائیں اور اپنے ہاتھ دھولیں۔ 1947ء سے 1971 ء تک مشرقی پاکستان میں سرکاری ملازمت کرنے والا شاید ہی کوئی ایسا پنجابی افسر ہو جس نے بنگالی زبان سیکھی ہو۔ موازنہ کیلئے میں George Cunningham کا نام لکھوں گا جو شمال مغربی سرحدی صوبہ( خیبر پختونخوا) میں پولیٹیکل ایجنٹ اور گورنر کے عہدے پر فائض رہا۔ اُسے پشتو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ نہ صرف عمائدین کے بچوں کی شادیوں میں شریک ہوتا تھا‘ بلکہ نماز ِجنازہ بھی پڑھتا تھا۔اسی طرح سندھ کو فتح کرنے والے Charles Napierنے سندھی عوام کی اتنی خدمت کی کہ لوگ اب بھی اُس کی قبر پر دعا کرتے ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال جیکب آباد والے جیکب کی ہے۔ 
کالم نگار آج سے 52 سال پہلے برطانیہ سماجی علوم پڑھانے آیا تو اپنے ملک کے مقابلے میں زیادہ نمایاں پانچ چیزیں نظر آئیں: قانون کی حکمرانی‘ تبادلوں کا نام و نشان نہ ہونا‘ ہر حلقۂ انتخاب میں پارٹی اراکین کو انتخابات میں اپنے پارٹی اُمیدوار کو ٹکٹ دینے کا کلی اختیار‘غیر تحریر شدہ آئین کے باوجود نظامِ حکومت کا بخوبی چلنا اور انسانی حقوق کا ہر ممکن احترام۔ قارئین کو بمشکل یقین آئے گا کہ برطانیہ میں سرکاری افسروں کے اُس طرح تبادلے نہیں ہوتے جس طرح ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ بیشتر محکموں میں تو تبادلے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا مثلاً سکول‘ کالج‘ ہسپتال‘ رفاعی ادارے یہاں تک کہ پولیس بھی۔ امریکہ اور یورپ کی طرح برطانیہ میں پولیس کا نظام صوبائی سطح پر نہیں‘ بلکہ اصلاحی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔ برطانیہ اور فرانس کی طرح وحدانی نظامِ حکومت میں مرکز میں جو بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہو وہ کسی بھی پولیس افسر کو ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ تعینات نہیں کر سکتی۔ فوج کی طرح پولیس کا محکمہ اس لحاظ سے بالکل آزاد ہے کہ پولیس داخلی طور پر خود مختار ہے‘ وہ اپنے افسروں کی بھرتی اور اُن کی محکمانہ ترقی اور احتساب کی خود ذمہ دار ہے‘جبکہ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب میں گزشتہ ایک سال کے دوران ہر تین چار ماہ کے بعد یا چیف سیکرٹری یا انسپکٹر جنرل پولیس یا دونوں تبدیل کئے گئے۔ میرے محدود علم کے مطابق اس طرح دُنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتا۔ ترقی یافتہ تو ایک طرف رہے پسماندہ ممالک میں بھی نہیں۔جمہوریت کا مطلب بڑا سیدھاہے کہ عوام ایک طے شدہ مدت کیلئے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو عنانِ حکومت سنبھالتے ہیں اور وہ اپنے منشور اور اپنی پالیسی کے مطابق ملک چلاتے ہیں اور اُن کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔یہ سول سروس کے ایک شعبہ کا کام ہے کہ وہ تجربہ‘ اہلیت اور Seniorityکی بنیاد پر کسی سرکاری افسر کو کہاں تعینات کرتا ہے۔ یہ نہ صدرِ مملکت کا کام ہے‘ نہ وزیراعظم کا اور نہ وزیراعلیٰ کا۔اگر دورِ غلامی میں یہ اختیار گورنر جنرل یا گورنر کے پاس تھا بھی تو آزادی مل جانے کے بعد یہ اختیار جمہوری یعنی عوامی نمائندوں کو کیسے مل گیا؟ اس امر کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے کہ کیا ہمارا آئین اور ضابطۂ قوانین وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کو سرکاری افسروں کی تعیناتی اور تبادلہ کا اختیار دیتا ہے یا نہیں؟اگر پولیس کا تفتیشی نظام جوں کا توں رہے‘ اگر تھانہ کلچر میں کوئی تبدیلی نہ آئے‘ مختصراً یہ کہ گاڑی وہی رہے ‘مگر ہم صرف اُس کا ڈرائیور بدلتے رہیں اور توقع یہ رکھیں کہ کایا پلٹ جائے گی‘آپ بتائیں اس کو کیا کہا جائے؟حماقت یا سادہ لوحی!
1968 ء میں بھٹو صاحب جنرل ایوب خان کے عتاب سے ڈر کر مفرور لوگوں میں شامل ہوگئے۔ کبھی پیرس میں پاکستان کے سفیر جے اے رحیم کے پاس چلے جاتے تھے اور کبھی لندن میں کرامویل روڈ پر کرائے کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ کالم نگار شمالی انگلستان کی ایک قدیم درس گاہ میں پڑھاتا تھا۔ مانچسٹر لندن سے 175 میل دُور ہے اور میرا گھر مانچسٹر سے 35 میل اور آگے تھا۔ بھٹو صاحب کا پیرس سے خط آتا تھا کہ میں فلاں تاریخ کو فلاں پتہ پر لندن پہنچ جائوں گا تم بھی آجائو تو خوب گپ شپ ہوگی۔ خوش قسمتی سے درس گاہ میں گرما کی تعطیلات تھیں‘ بھٹو صاحب سے گفتگو کی دعوت کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ بھٹو صاحب کا مہمان اپنی بیوی اور تین کم عمر بچوں کے ساتھ سارا دن بس پر سفر کر کے لندن پہنچ جاتا۔ بھلا ہو صادق آباد سے آئے ہوئے مرحوم مالک اور ان کی بیوی کا جو ہماری کئی کئی ہفتے بڑی محبت سے مہمان نوازی کرتے تھے۔ میں کئی دن بھٹو صاحب کو ملنے جاتا رہا۔ ایک دن اُنہوں نے پوچھا کہ اگر میں اقتدار میں آجائوں (خود ہی کہنے لگا کہ اس کا امکان بہت کم ہے ‘کیونکہ ایوب خان بڑا مضبوط اور مستحکم ہے) تو تمہارے خیال میں مجھے سب سے پہلے کیا کام کرنا چاہیے؟ اُنہیں بلا توقف جواب ملا ''تبادلوں کی مکروہ رسم کا فی الفور خاتمہ‘‘۔ میں نے اُنہیں وہی دلائل دیئے جو مندرجہ بالاسطور میں لکھے‘ بھٹو صاحب کا چہرہ کھل اُٹھا اور اُنہوں نے خلافِ معمول کالم نگار سے ہاتھ ملا کر کہا: میرا وعدہ رہا کہ ایسا ہی کروں گا۔ آپ جانتے ہیں کہ اُنہوں نے ایسا بالکل نہیں کیا۔ صرف تبادلوں کی بات نہیں مجھے جو کچھ بھی کہااُس کے بالکل اُلٹ کیا۔ نتیجہ؟ خود تختہ دار تک پہنچے اور کروڑوں عوام کو جس لق و دق صحرا میں چھوڑ گئے وہاں ہمارا کوئی والی وارث نہ بنا۔ ہم بھٹو صاحب کے بعدپانچ افراد کے رحم و کرم پر رہے‘ جنرل ضیا الحق‘ بے نظیر بھٹو‘جنرل مشرف‘ زرداری اور نواز شریف ۔ ان سب نے باری باری ہمارے پیارے ملک کا اوراس میں رہنے والے کروڑوں افراد کا جو حشر کیا وہ محتاجِ بیان نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ تبادلے بطور سزا یا بطور انعام کئے جاتے ہیں۔ سرکار جس افسر سے خوش نہیں ہوتی یا کوئی افسر کسی بدعنوانی کا مرتکب ہوتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو اسے یہ سزا دی جاتی ہے کہ اُس کا کسی اور شہر تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ آپ ذرا سوچیں کہ یہ سزا اُس ناپسندیدہ افسر کو دی گئی یا اُس علاقہ کے لوگوں کو جہاں اُس کا تبادلہ کر دیا گیا؟
مجھے تبادلوں کو ایک تکلیف دہ مذاق لکھنے میں کوئی عار نہیں ‘مگر یہ نہ بھولیے کہ یہ مذاق ہر سال ہمارے خزانہ پر اربوں روپوں کا بوجھ بھی ڈالتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی مرضی کی پوسٹ کے حاصل کرنے کیلئے یعنی تبادلہ کروانے یا اُسے رکوانے کیلئے نہ صرف بااثر لوگوں کی سفارش بلکہ رشوت دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں رشوت ستانی کا بازار گرم ہونے کی ایک بڑی وجہ تبادلے کروانا یا تبادلے رکوانا ہے۔ خواتین کو دُہرے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر غیر شادی شدہ خاتون کی ملازمت گھرسے دور مقام پر ہو تو اپنے گھر کے قریب تبادلہ کروانا اُس کی دُکھ بھری زندگی کا سب سے بڑا مشن بن جاتا ہے۔ کتنے افسوس اور کتنی حیرت کا مقام ہے کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے تبادلوں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔ لگتاہے کہ ہم نے تبادلوں کو بھی اتنا مقدس درجہ دے رکھا ہے کہ ان کے آگے بڑا سوالیہ نشان لگانا بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔کالم نگار حکومت کیلئے نیک خواہشات رکھتا ہے ‘مگر اس کا اخلاقی فرض ہے کہ حکومت کو خبردار کرے کہ فرسودہ‘ گلے سڑے‘ عوام دشمن نظام کو تبدیل کئے بغیر محض چیف سیکرٹری‘ آئی جی پولیس‘ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے تبادلے ہر سہ ماہی محمود کے سر سے ٹوپی اتار کر ایاز کے سر پر رکھنے کے مترادف ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں