وہ ارب پتی خواتین… …(2)

برطانیہ کے اخبار' دی ٹائمز‘ پر ایک ادھیڑ عمر خاتون کی تصویر اُس کے عالیشان گھر کی تصویر کے ساتھ شائع ہوئی ہے‘ عنوان ہے: Robber Baron(ڈاکوئوں کی سردار)‘ جو اپنے عالی مقام اور تگڑے دوستوں کے باوجود 40 ملین پائونڈ ( آٹھ ارب روپے) کی جائیداد سے محروم ہونے والی ہے۔ مذکورہ خاتون اُن دو ارب پتی خواتین میں سے ایک ہے جن پر اس کالم کی دوسری قسط لکھی جائے گی۔ نام ہے: گل نارا کریموف۔برطانوی حکومت کی تفتیش کے مطابق وہ لندن کی ملحقہ سرے کائونٹی میںGorse Hill Manor کی اصل مالکہ ہے۔ ماڈل اور ازبکستان کے نسوانی حسن کا پیکر‘ ظاہر ہے کہ کوئی شخص بجا طور پر گل نارا سے یہ توقع کبھی نہ کر سکتا تھا کہ وہ ہمیں یہ بھی بتائیں گی کہ اُنہوں نے اربوں پائونڈ کہاں سے کمائے؟ بالکل اُسی طرح‘ جس طرح آصف علی زرداری نے اپنی بیوی کے وزیراعظم ہونے سے بھرپور مالی فائدہ اُٹھایا‘ گل نارا‘ کہ ازبکستان کے صدر مملکت اور آمر مطلق اسلام کریموف کی چہیتی بیٹی ہے‘ نے اس تعلق سے کروڑوں اربوں ڈالروں کی لوٹ کھسوٹ کی اور اپنے باپ سے غیر قانونی کام کروانے کا دروازہ کھول دیا ۔
آپ کو شاید یقین نہ آئے‘ مگر یہ سچ ہے کہ گل نارا کے والد نے اُسی طرح اُسے امریکہ کی چوٹی کی یونیورسٹی ہاورڈ سے تعلیم دلوائی جس طرح جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی کو ۔دونوں صورتوں میں اتنی اعلیٰ تعلیم دلانے کا ایک ہی مقصد تھا کہ باپ کے بعد بیٹی کو تخت نشینی کیلئے اچھی طرح تیار کیا جائے۔ اب گل نارا کی عمر47 برس ہے۔ نہ صرف اُس کی جوانی ڈھل چکی ہے‘ بلکہ اُس کا ستارہ بھی گردش میں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق گل نارا نے اپنے باپ کے عہدِ صدارت میں 661 ملین پائونڈ (روپے بنانے کیلئے آپ 200 سے خود ضرب دے لیں)رشوت لے کر اپنا خزانہ بھرا۔ گل نارا کے والد نے اپنی بیٹی کی گونا گوں صفات کے پیش نظر اُسے اقوام متحدہ میں اپنے ملک کا سفیر بنایا‘ مگر گل نارا کو سفارتی ذمہ داری راس نہ آئی اور وہ بطور ایک پاپ سٹارفنون لطیفہ کے اُفق پرGoo Gooshaنام رکھ کر اُبھری۔ گل نارا نہ صرف اپنے والد کی وفات کے بعد صدارت سنبھالنے میں اور عہدئہ جلیلہ پر فائز ہونے میں ناکام رہی‘ بلکہ اُس پر بد عنوانی کا مقدمہ چلا اور جرم ثابت ہو جانے پر پانچ سال قید کی سزا ملی۔ وہ ان دنوں اپنے ملک کی ایک جیل میں سزا کاٹ رہی ہے۔ 25 سالوں کی اندر وہ (مالی اعتبار سے) عرش سے فرش پر آگری۔ ایک بڑی عبرتناک داستان کی مرکزی کردار کال کوٹھڑی میں بیٹھے یہ ضرور سوچتی ہوگی کہ اُس کی زندگی صرف چار الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے:ایسی بلندی ایسی پستی۔
آج سے دس برس پہلے گل نارا نے مذکورہ بالا جائیداد18 ملین (ایک کروڑ دس لاکھ) پائونڈ وں میں خریدی جواب مہنگی ہوتے ہوتے 30 ملین پائونڈ تک جا پہنچی ہے۔ وسیع العرض گھر کے ساتھ جڑا ہوا باغ 17 ایکڑوں میں پھیلا ہوا ہے۔ گل نارا کے پڑوسیوں میں برونائی کے سلطان اورروسی ارب پتی قابل ذکر ہیں۔گل نارا نے چند کلیوں پر قناعت نہ کی بلکہ اپنی تنگیٔ داماں کا علاج کرانے کیلئے لندن میں دس ملین پائونڈ کے فلیٹ بھی خرید رکھے ہیں۔ جیل میں قید کاٹتے ہوئے گل نارا کو وہ سنہرا دُور بھی یاد آتا ہوگا‘ جب اُس کا باپ ازبکستان کا مطلق العنان حکمران تھا ( 2016ء میں اپنی وفات تک 27 برس کے طویل عرصہ کیلئے)۔ گل نارا کا زوال اپنے باپ کی زندگی میں اُس انتہائی غیر مناسب اور غیر شریفانہ تصویر کی اشاعت سے شروع ہوا جس میں اُس کے جسم کو مور کے پروں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ صحافیوں کی ایک تفتیشی انجمن کے مطابق‘ گل نارا جن ممالک میں جائیدادوں کی مالکہ ہے اُن میںبرطانیہ‘لٹویا‘ مالٹا‘ جرمنی‘ سپین‘ روس‘ ہانگ کانگ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ گل نارا کی بیٹی (ایمان) لندن کے ایک کالج میں زیر تعلیم ہے اور یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہی ہے۔ ازبکستان کی عدالت نے منی لانڈرنگ کے جرم میں گل نارا کو سزا دی تو اُس کا لحاظ کرتے ہوئے اُسے اپنے ایک محل نما گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ گل نارا نے نظر بندی کے قوانین کی خلاف ورزی کی تو اُسے مجبوراً جیل بھیج دیا گیا۔ برطانیہ میں جائیدادوں کی ملکیت کے سرکاری ریکارڈ میں گل نارا کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے سیاست دانوں اور بڑے سرکاری افسروں اور ارب پتی کاروباری لوگوں کی طرح اُس نے برٹش ورجن آئی لینڈز میں فرضی اور نمائشی (دراصل جعلی) کمپنیاں بنا کر اربوں پائونڈوں کی جائیداد اس امید پر خریدی کہ اتنی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے اور اتنا اچھا نقاب اوڑھنے سے وہ خطرے سے محفوظ ہو جائے گی‘ مگر صد افسوس کہ یہ سکیم کامیاب نہ ہوسکی۔ ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
دس برس پہلے کالم نگار اپنی بیوی کے ساتھ ازبکستان گیا تو تاشقند‘ بخارا اور سمر قند کو اچھی طرح دیکھنے اور صوفی سلسلہ نقش بندی کے بانی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ‘مگر یہ مقام اپنا سفر نامہ لکھنے کا نہیں ‘بلکہ قارئین کا دوسری ارب پتی خاتون سے تعارف کرانے کا متقاضی ہے ‘جبکہ یہ کالم بھی اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کا نام ہے؛ Isabel dos Santos ۔ ان کا تعلق جنوبی افریقہ کے ملک ا نگولا سے ہے۔ وہ بھی اُس بد نصیب ملک کے سابق صدر کی چہیتی بیٹی ہیں۔ باپ کے عہدے سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایزابیل نے نا صرف قیمتی زمینوں‘ بلکہ ہیرے ‘تیل نکالنے اور فروخت کرنے اور ٹیلی کام کے نفع بخش کاروباری میدانوں میں اپنے خاوند کے اشتراک سے اتنی کامیابی سے گھوڑے دوڑائے کہ اربوں ڈالر لوٹ لیے۔ قارئین کو ہر گز اندازہ نہ ہوگا کہ انگولا کے عوام کا ایک تہائی خطِ افلاس سے نیچے بصد مشکل زندہ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ عالمی معیار کے مطابق اُن کی فی کس آمدنی دو ڈالر یومیہ سے بھی کم ہے۔ برطانیہ میں ایک قابل صد تعریف غیر سرکاری تفتیشی ادارے Corruption Watch ہے۔ اس کے نام سے ہی اس کے کام کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس کی دی گئی معلومات کے مطابق ایزابیل کو اپنے یا اپنے کسی دوست کی جنم دن کی تقریب منانا ہوتی تھی تو وہ اپنے تمام مہمانوں کو خصوصی طیارے کے ذریعے جنوبی فرانس لے جاتی تھی۔ اس کی فضول خرچیوں کی افسانوی داستانیں نہ جانے کتنی سچی اور کتنی مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں‘ مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ یورپ میں گپ شپ ( Gossip) کا دل پسند موضوع رہے گی۔
عرصۂ دراز تک ایزابیل کا پرلے درجے کا بدعنوان باپ انگولا کا 38 سال صدر رہا۔ پڑوسی ملک کانگو کے صدر (دراصل آمر مطلق)Mobutu Sese Sekoکی طرح José Eduardo dos Santosستمبر2017 ء میں بڑے تذبذب کے عالم میں ریٹائرڈ ہوا‘ مگر وہ جاتے جاتے اپنی مذکورہ بالا بیٹی ایزابیل کو انگولا میں تیل نکالنے والی کمپنی Sonan Gulکا سربراہ بنایا گیا‘ دوسرے لفظوں میں گیدڑ کو خربوزوں کے کھیت کی رکھوالی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ظاہر ہے کہ اُس خاتون نے لوٹ مار میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ریٹائرڈ ہونے والے صدر نے اپنے ایک چہیتے نائب کو اپنا جانشین بنایا۔ اُمید یہ تھی کہ وہ اپنے سابق باس کے جملہ جرائم کی پردہ پوشی کرے گا‘ مگر ایسا نہ ہوا۔ نئے صدر Joao Lourenco نے ایزابیل کو معزول کرنے سے احتساب کی مہم شروع کی تو وہ بھاگ کر برطانیہ آگئی ‘جہاں وہ اتنی مہنگی جائیدادوں کی مالکہ ہے کہ اُس کی دولت کا تخمینہ تو لگایا جا سکتا ہے ‘مگر پورے وثوق سے نہیں کہا جا سکتاکہ وزن تولنے والی جس مشین پر چوری کے اربوں ڈالر رکھے جائیں تو اُس کی سوئی کہاں جا کر ٹھہرے گی۔
دو صدیوں تک یورپی ممالک افریقہ اور ایشیا میں نوآبادیاتی نظام کے تحت لوٹ مار کرتے رہے‘جب وہ دور ختم ہوا تو ایشیا اور افریقہ کے چوٹی کے لیٹروں نے یورپ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ ''پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں