دن کو بھی شب کی سیاہی

70 سال پرانی بات ہے جب کالم نگار ڈیرہ غازی کے گورنمنٹ ہائی سکول میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ سائنس کا مضمون پڑھنے کی وجہ سے مجھے اُردو ادب کو بطوراختیاری مضمون مطالعہ کرنے کا موقع نہ ملا۔ ایک دن اپنے ڈیسک پر ساتھ بیٹھے ہم جماعت سرجیس ناگی (جو جدید نظم کے جانے پہچانے شاعر انیس ناگی مرحوم کے بڑے بھائی تھے) کے بستہ پر نظر پڑی تو سرمایۂ اُردونامی درسی کتاب کی مقناطیسی کشش رنگ لائی۔ اتوار کے دن کیلئے ادھار مانگی اور دوراتیں بڑی دلچسپی اور توجہ سے پڑھی۔ ایک نظم کا موضوع مقبرۂ نور جہاں تھا۔ پہلے شعر کا دُوسرا مصرع یوں تھا۔ع
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
مگر آج کے کالم کا موضوع مقبرۂ نور جہاں ہر گز نہیں‘ بلکہ ہماری سینکڑوں درس گاہیں ہیں۔ ان درس گاہوں (کالجوں اور یونیورسٹیوں) اور مقبرۂ نور جہاں میں قدرِمشترک یہ ہے کہ دونوں میں دن کے وقت بھی شب کی سیاہی کا سماں رہتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے محکمہ آثارِ قدیمہ کی توجہ اور بڑی محنت اور محبت سے کی جانے والی مرمت اور تعمیرِ نو سے مقبرۂ نور جہاں میں نہ ویرانی رہی اور نہ کھنڈرات والی وحشت‘اُس کا حلیہ بدل چکا ہے۔ دوسری طرف درس گاہیں ‘جو انگریز کے زمانہ میں روشنی کا مینار تھیں اور دانش کا مآخذ‘اب وہ علم کو بطور ایک جنس (Commodity) فروخت کر رہی ہیں۔ معیارِ تعلیم کتنا گر گیا ہے‘ وہ اپنی مثال دے کر واضح کرتا ہوں‘ میں 1967 ء میں برطانیہ آیا تو میری تعلیمی استعداد صرف پنجاب یونیورسٹی کی پولیٹکل سائنس میں ایم اے کی ڈگری تک محدود تھی۔ اس کے باوجود برطانیہ کے محکمہ تعلیم نے ہم میاں بیوی کی ڈگریوں کو سرکاری طور پر برطانیہ کی Good Honours Degreeکے برابر تسلیم کیا اور ہمیں برطانیہ میں طلبا اور طالبات کو سماجی علوم پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اب پاکستان سے جو نوجوان خواتین و حضرات ایم اے پاس کر کے برطانیہ آتے ہیں تو اُنہیں پڑھانا تو کجا اُس کورس میں بطور طالب علم داخلہ لینے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔
میں چھ ہزار میل فاصلہ کی وجہ سے احوالِ وطن سے بے خبری کا ازالہ کرنے ہر سال دو تین بار وطن ِ عزیز جاتا ہوں تو مجھے مقبرہ ٔنور جہاں پر لکھی ہوئی نظم کے پہلے شعر کا دوسرا مصرع یاد آتا ہے۔ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہماری تمام کی تمام درس گاہوں میں دن میں بھی شب کی سیاہی کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ طلبا اور طالبات کو گھسے پٹے ‘ فرسودہ بے جان‘ زندگی کے حقائق سے لاتعلق سبق اس میکانکی اور غیر تخلیقی طریقہ سے پڑھائے جاتے ہیں بلکہ رٹائے جاتے ہیں کہ وہ ذہنی طور پر لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں۔ وہ کوئی نئی بات نہیں سوچ سکتے۔دہرا المیہ یہ ہے کہ طلبا اور طالبات کو جو اساتذہ پڑھانے پر معمور ہیں وہ خود جدتِ افکار سے انکار ی ہیں۔ درس گاہوں کی بے حد افسوسناک صورتحال کے بارے میں مختصریہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بنجر دانش اور بانجھ علم کے مراکز بن چکے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو برائے نام اور نام نہاد سیاسی جماعتیں ہیں‘ اُن کا علم و دانش‘تحقیق اور مطالعہ سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔وہ قومی مسائل کی ابجد کا بھی شعور نہیں رکھتیں‘ اُنہیں قومی مسائل سے ذرہ بھر دلچسپی نہیں۔ اُنہیں نہ عوام کی مالی پریشانیوں کا احساس ہے اور نہ اڑھائی کروڑ بچوں کی سکولوں سے غیر حاضری کی فکر۔ وہ بے زمین کسانوں میں لاکھوں ایکڑ غیر آبادسرکاری زمین کے مطالبہ کی حمایت نہیں کرتیں اور نہ مقامی حکومتوں کے قیام کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں۔ وہ ایسا کچھ نہیں کہتیں یا کرتیں جس سے عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی امکان پیدا ہو جائے ‘جس سے کروڑوں لوگوں کی خوشی اور خوشحالی کا بند دروازہ کھل جائے۔ نام نہاد‘ بوگس اور عوام دشمن سیاسی جماعتوں کی طرح ہماری مذہبی جماعتیں بھی مسائل کے حل کا حصہ نہیں ۔ اب میدان میں صرف سول سوسائٹی رہ گئی۔ سول سوسائٹی کا مطلب ہے اساتذہ‘ وکلا‘ کسانوں‘ مزدوروں اور صحافیوں کی انجمنیں۔ ابھی وہ عالمِ طفولیت میں ہیں۔ وہ بالغ ہوں گی تو صداقت‘ عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھیں گی اور پھر دستِ قدرت اُن سے قوم کی امامت کا کام لے گا۔ اس لق و دق صحرا میں صرف ایک نخلستان ہے اور اُس کا نام ہے سارے ملک میں پھیلی ہوئی درس گاہیں۔ درس و تدریس کے مراکز‘ کالج اور یونیورسٹیاں۔ تمام درسگاہوں میں اساتذہ کی تعداد جمع کریں تو کئی ہزاروں تک جاتی ہے۔ مگر بقول اقبال: ؎
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
آغاز ہم اپنے معاشی نظام سے کرتے ہیں جو اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ دو سال کے اندر مہنگائی میں پندرہ فیصد اور غذائی مہنگائی میں 25 فیصد اضافہ۔ بے روزگاری‘ افراطِ زر‘ نہ کم ہونے والی درآمدات نہ بڑھنے والی برآمدات‘ سینکڑوں ارب ڈالرز کا قرضہ (جس کی قسط اداکرنے کیلئے ہمیں مزید قرض لینا پڑتا ہے)۔ بجلی کے محصولات میں ایک سال کے اندر دو سو ارب روپے کے اضافہ کے باوجود گردشی قرضہ گیارہ سو ارب روپے سے بڑھ کر 1900 ارب ہو گیا۔ صنعتی پیداوار‘ زرعی پیداوار اور قومی آمدنی میں مسلسل کمی۔ کتنے دکھ اور شاید اس سے زیادہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ معاشیات کے سینکڑوں اساتذہ اندھے‘ گونگے اور بہرے بن کر یہ انتہائی تشویشناک منظر دیکھ رہے ہیں‘ مگر 72 برسوں سے دم بخود ہیں۔ وہ نہ ہمارے معاشی امراض کی ماہرانہ تشخیص کرتے ہیں اور نہ اُن کا علاج بتاتے ہیں۔ جن اساتذہ کو 72 برسوں سے بوئے گل کا سراغ نہیں ملا تو اب کیا ملے گا؟
یہی حال ہے درسگاہوں میں دوسرے ماہرین کا ہے۔ زرعی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے‘ وہ نہ ہمیں ایسی تدابیر بتاتے ہیں جن کی بدولت گندم‘ کپاس‘ گنا اور دوسری اجناس کی پیداوار بڑھائی اور صارفین کیلئے قیمتِ خرید میں کمی کی جا سکے۔ علم سیاسیات کے سینکڑوں پروفیسر بھی مہر بلب ہیں۔ اُنہیں موجودہ سیاسی نظام کی بے عملی‘ عوام دشمنی اور فرسودگی ہر گز نظر نہیں آتی۔ وہ متبادل سیاسی نظام ‘متناسب نمائندگی اور اقتدارِ اختیار کو مکمل Decentralizationکی طرح اضلاعی اور مقامی حکومتوں پر نہ بحث کرتے ہیں اور نہ غور و فکر۔ اُردو پڑھانے والے ہزاروں اساتذہ کے کانوں پر اُردو محاورہ والی جوں آج تک نہیں رینگی کہ وہ بھی گہری نیند سے جاگ کر مطالبہ کرتے کہ جب پاکستان کے 1973 ء میں بنائے گئے آئین کے مطابق 1988 ء میں اُردو کو سرکاری زبان بنانے کی آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی تو آج تک ایسا کیوں نہیں ہوا اور نہ مستقبل قریب میں ہونے کا امکان ہے۔ جغرافیہ کے اساتذہ کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ اپنی بند آنکھیں کھولیں۔ ہمارے ماحول کی خرابی‘ پانی اور ہوا کی خطرناک حد تک آلودگی اور ہمالیہ میں پگھلتے ہوئے برفانی تودوں سے خبر دار کرنے کیلئے خطرہ کی گھنٹی زور زور سے بجائیں۔ سکولوں کے اساتذہ اور کالجوں کے لیکچرر صاحبان کو رتی بھر فکر نہیں کہ ہماری شرح خواندگی کتنی کم ہے؟ اڑھائی کروڑ کے قریب بچے سکول نہیں جاتے؟ بھٹہ مزدوروں کے ہزاروں بچوں سے ایک ہزار روپیہ ماہانہ وظیفہ واپس لے لیا گیا تو اینٹیں بنانے والے بھٹوں پر کام کرنے والوں میں پچاس ہزار کے قریب بچوں کا اضافہ ہو گیا۔ ہماری قومی آمدنی (GDP) میں تعلیم کا خرچ ‘جو پہلے ہی بہت کم تھا‘ مزید ایک فیصد کم ہو گیا۔ لاکھوں اساتذہ (جنہیں اپنی تنخواہوں اور پے سکیل کے علاوہ شایدکسی اور چیز میں دلچسپی نہیں) نہ خود احتجاج کرتے ہیں اور نہ کالم نگار کی طرح فریاد کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ آج ہزاروں نہیں لاکھوں اہل ِعلم خاموش ہیں۔ آواز کس کی آتی ہے؟ درس گاہوں کو روشنی کا مینار ہونا چاہیے ‘مگر المیہ یہ ہے کہ وہاں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہے۔ ہم اس صورت ِ حال پر جتنا بھی روئیں کم ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں