قومی ضمیر کی آواز

چھ ہزار میل کے فاصلے کے باوجود وطنِ عزیز سے بلند ہونے والی تمام چھوٹی بڑی اورلطیف یا کثیف آوازیں اس کالم نگار تک پہنچ جاتی ہیں جو جلاوطنی کے 52 سالوں میں سارا وقت ہمہ تن گوش رہا۔ کوئٹہ میں احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج کی آواز ہو یا کوئٹہ سے باہر کوئلے کی کانوں میں دب کر مر جانے والے مزدوروں کے پسماندگان کی آہ و بُکا۔ سانحۂ کراچی (12 مئی والا) ہو یا سانحۂ ساہیوال یا سانحۂ ماڈل ٹائون۔اس کالم نگار کو اپنے قارئین کی ذہانت اور سوجھ بوجھ پر اعتماد ہے‘ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ جب سلطانیٔ جمہور کا سورج طلوع ہوا تو سیاسی جماعتیں بھی معرض وجود میں آئیں‘ دوسرے الفاظ میں جمہوری نظام اور سیاسی جماعتیں لازم و ملزوم ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہی عوام اور اُن کے مفادات کی ترجمان ہوتی ہیں اور اُن کی اُمنگوں کو بیانیہ کی شکل دیتی ہیں۔ اس معاملے میں ہماری بدقسمتی کا اندازہ فرمایئے کہ پاکستان بنتے ہی مسلم لیگ بطور ایک سیاسی جماعت کے صفحہ ہستی سے ہٹ گئی ‘جو باقی بچا وہ صرف اس کا نام تھا اور اس کے پرُانے رہنما جو عوام سے اس حد تک کٹ چکے تھے کہ آنے والے وقت میں incubator کا استعمال کر کے اس کے بطن سے ری پبلکن پارٹی کو جنم دلوایا گیا۔ پہلا مارشل لا لگاتو مسلم لیگ کنونشن اور کونسل میں تقسیم ہوگئی۔ اب اس کا جو حال ہے وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ نہ کوئی نظریہ ‘ نہ منشور‘ نہ اصول‘ نہ آدرش‘ نہ کوئی منزل نہ سمت۔ کالم نگار اُس شخص کو منہ مانگا انعام دینے کی پیش کش کا اعلان کرنے کی جسارت کرتا رہا جو مسلم لیگ (ن)‘ مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (پگاڑا) کے درمیان کوئی نظریاتی یا اصولی اختلاف (ایک بھی اختلاف) کی نشاندہی کر سکے۔ تحریک انصاف برسر اقتدار آکر اپنے منشور پر کس حد تک عمل پیرا ہے اور عوام سے کیا گیا اپنا کون کون سا وعدہ پورا کر رہی ہے‘ اس کا آپ مجھ سے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ کالم نگار آپ کو بلا کم و کاست بتا دے کہ وہ جب 1964 ء میں ایچیسن کالج میں پڑھاتا تھا تو اُس وقت جناب عمران خان وہاں پڑھتے تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ میں تحریکِ انصاف کے پہلے پانچ دس اراکین میں سے ایک ہوں۔ میں اس جماعت میں اُس دن شامل ہوا جس دن یہ معرضِ وجود میں آئی۔ ان دو وجوہات کی وجہ سے اگر میرے دل میں تحریک انصاف اور اس کے مرکزی رہنما کیلئے نرم گوشہ ہے تو میں قابلِ معافی ہوں‘ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میری ذاتی ترجیحات قومی یا عوامی مفاد پر غالب آجائیں۔ ہر ہفتے ایک کالم لکھنے کا مقصد نہ موجودہ حکومت کی مداح سرائی ہے اور نہ حکومت کی غلطیوں کی پردہ پوشی اور نہ بطور Apologistناقابلِ رشک کردار کی ادائیگی۔ اب رہی مذہبی جماعتیں تو وہ عوامی مسائل سے لاتعلقی میں سیاسی جماعتوں سے بھی کئی قدم آگے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کی بڑی تعداد ہمارے معاشی بحران کا حل کس طرح قوم کے سامنے رکھ سکتی ہے‘ جبکہ وہ بذاتِ خود اس بحران کے ذمہ دار ہیں۔ ذخیرہ اندوزی‘ سرکاری وسائل کی اندھا دھند لوٹ مار‘ قومی خزانے سے اربوں کھربوں کی چوری‘ ہر قسم کے استحصال اور بدنامِ زمانہ اطالوی مافیا کی طرح اختیارات پر قابض ہو کر ذاتی دولت میں اضافے کا کوئی ایک بھی موقع ہاتھ سے نہ گنوانا۔ مافیا تو صرف ایک ''اسمِ صفت‘‘ ہے‘آکاس بیل اور جونکوں جیسے الفاظ کا استعمال بھی اُتنا ہی مناسب اور موزوں رہے گا جتنا لفظ مافیا کا۔ 
اب آپ بتایئے کہ کروڑوں افتادگانِ خاک اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی بات کون کرے گا؟ کسانوں‘ مزدوروں‘ محنت کشوں اور نچلے متوسط طبقے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کون آواز بلند کرے گا؟ متوسط طبقہ کا ترجمان کون ہوگا؟ ڈاکٹروں‘ نرسوں‘ اساتذہ‘ طلبااور طالبات کے مفادات کی حفاظت کی ذمہ داری کون سنبھالے گا؟ دیہاڑی داروں کے دُکھوں سے کن کے دل زخمی ہوں گے؟ کون اپنی کمال کی تخلیق تندور پر روٹیاں لگانے والوں‘ تانگا چلانے والوں‘ گوبر اکٹھا کر کے اُپلے بنانے والوں اور (فیض ؔصاحب کی طرح) پوسٹ مینوں کے نام کرے گا اور جسمانی محنت مشقت کرنے والوں کی عظمت کے گیت گائے گا کہ (بقول انجیل مقدس) وہی زمین کا نمک ہیں۔ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے کہ کوئی بھی نہیں۔ کوئی ایک بھی نہیں۔ خدا کی خلق تو ہے‘ مگر بے زباں ہے‘ زبانِ خلق کا نقارہ بجے تو کیونکر؟ قومی ترانہ کے مطابق پاک سرزمین شاد باد کی بنیاد قوتِ اخوت ِعوام پر ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں عوام تو ہیں مگر نہ قوت ہے اور نہ اخوت۔ بے بس اور لاچار اور غلاموں کی زندگی گزارنے والوں کو عوام کی بجائے رعایا کہا جائے تومناسب ہوگا۔ رعایا میں شامل کروڑوں لوگوں کی زبانوں پر تالے‘ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ہیں‘ اُنہیں ڈاکوئوں سے زیادہ اپنی محافظ پولیس سے ڈر لگتا ہے۔ اُنہیں نہ بے روزگاری الائونس ملتا ہے اور نہ بیماری کا‘ نہ تعلیم کی سہولت اور نہ علاج کی۔ وہ کسی جھوٹے مقدمے میں گرفتار ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جائے تو مقدمے کا فیصلہ ہونے تک ضمانت نہیں ہو سکتی۔ 
اس کالم کی اشاعت سے تین روز قبل گندم اور چینی کی ذخیرہ اندوزی اوراربوں روپوں کی لوٹ کھسوٹ کی رپورٹ کی تفصیلات شائع ہونی تھیں مگر وہ بھی کم از کم دو ہفتوں کیلئے مؤخر ہو گئی ہے۔توقع تو یہ کی جا رہی ہے کہ یہ رپورٹ ہمارے عوام دشمن نظام کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہو سکتی ہے اور موجودہ نظام کیلئے عوام کے دلوں میں عزت و احترام کا جذبہ کئی گنا گھٹ جائے گا۔اسلام آباد اور لاہور میں اقتدار کے ایوانوں سے نظرہٹا کر ہم پاکستان کے جنوب مغرب میں کوئٹہ جائیں تو وہاں دیکھتے ہیں کہ کس طرح ڈاکٹروں کی حفاظت کرنے والی پولیس اُن پر ہی لاٹھیاں برسا رہی تھی۔ کراچی جائیں تو وہاں ہمیں پیدل چلنے والوں کو کاٹنے والے پاگل کتے اور ہوا میں ڈینگی کا مرض پھیلانے والے مچھروں کی بہتات ملتی ہے۔ بارشوں کا موسم شروع ہوا تو جنوبی پنجاب میں سیلاب وسیع پیمانے پر تباہی مچا دیتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں‘ ہر سال اسی طرح ہوتا ہے‘ جبکہ دس سال پہلے کے سیلاب اور پندرہ سال پہلے کے زلزلہ کے متاثرین ابھی تک دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ عذابوں اور آفتوں میں سے کسی ایک کا مداوا نہیں کیا جا سکا کہ کورونا وائرس کی وبا نازل ہو گئی ہے۔ نہ ٹھہر سکتے ہیں اور نہ بھاگ سکتے ہیں۔ جائیں تو جائیں کہاں؟ زمین سخت ہے اور آسمان دُور۔
اب‘ ہم کریں تو کیا کریں؟ہمارے سامنے دو راستے ہیں‘ ایک ہے مسلسل گریہ زاری اور نہ ختم ہونے والے ماتم کا۔ یقینا یہ منفی ہے اور بے نتیجہ ثابت ہوگا۔ دوسرا مثبت ہے ‘ ہمت کر کے آگے بڑھنے کا راستہ۔ اندھیرے سے روشنی کا یہ سفر کرنے کیلئے ہم بقول اقبال ایک نیا شوالہ بنائیں‘جدید سیاسی زبان میں ہم ایک نیاعمرانی معاہدہ کریں۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے موجودہ چار صوبوں کی بجائے ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دیں۔ Decentralizationکے نسخہ پر عمل کر کے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کریں۔ متناسب نمائندگی کے ذریعے عوام کو بااختیار بنائیں۔ قانون کی حکمرانی‘ احتساب‘ شفافیت اور عوام دوستی کے ستونوں پر ایک نئے نظام کی عمارت تعمیر کریں جو ہمارے قومی ترانے کی عکاس ہو۔ یہ تاریخ ساز مرحلہ تب طے ہوگا جب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی سطح سے اُوپر اُٹھ کر بااصول‘ روشن دماغ اور عوام دوست لوگوں کا ایک ایسا گروپ ہمارے قومی اُفق پر اُبھرے جو قومی ضمیر کی آواز ہو‘ جو ہمارے درمیان قومی اتفاق ِرائے قائم کر سکے‘ جو ہمارے لئے روشنی کا مینار ہو‘ جو ہمیں طرزِ کہن پر اُڑنے اور آئینِ نو سے ڈرنے کی روش سے دُور لے جائے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ اب وہ لوگ آگے بڑھیں جو ہمارے قومی ضمیر کی آواز بن سکیں‘ جو اجتماعی دانش سے ہماری رہنمائی کر سکیں۔ یہی کالم نگار کی درخواست ہے اور یہی فریاد ۔کتنا ہی اچھا ہو کہ اسی صدائے عام کو یارانِ نکتہ داں سُن لیں اور میرے خواب کو حقیقت میں بدل دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں