Family Silver

اس کالم نگار کی آنکھیں (جو 1945 ء میں پہلی بار برطانوی راج کی پولیس کی پھینکی گئی اشک آور گیس سے متعارف ہوئی تھیں) 75 سال گزر جانے کے بعد بھی اشکبار ہیں۔ وجوہات البتہ بدل گئی ہیں۔ اب آنکھوں کی حالتِ زار کی ذمہ داری کیمیاوی عناصر کی کارستانی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ چھ ہزار میل دور وطنِ عزیز سے آنے والی خبریں ہیں کہ رُلاتی چلی جاتی ہیں۔ پہلی خبر کا تعلق ہمارے (بار بار توڑے جانے والے) آئین سے ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ہم نے پاکستان کو اُس کے آئین کے مطابق وفاقی بنانے اور صوبوں کو زیادہ بااختیار بنانے کی طرف ایک بڑا قدم اُٹھایا ‘ اب خبر ہے کہ یہ ترمیم ختم کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے منشور کے مطابق اختیارات کی مرکزیت کو ختم کر کے مقامی حکومتوں کا عوام دوست نظام قائم کیا جانا تھا۔ یہ خواب بھی حقیقت نہ بن سکا اور نہ اس کے آثار نظر آتے ہیں۔ دوسری خبر ٹڈی دَل کے حملے کی ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک اَن دیکھا پرُ اسرار وائرس ہے‘ مگر ٹڈی دَل کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہ ایک دن میں سو میل کے قریب سفر کرتا ہے اور راستے میں آنے والاسبزہ چٹ کرجاتا ہے۔ سائنس دان ہوئے بغیر ہم اپنی معمول کی سوجھ بوجھ کو برُوئے کار لاتے ہوئے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پاک سرزمین پر حملہ آور ہونے والی ٹڈی دَل نہ مقامی ہے اور نہ ہی خود ر۔ ہمارے اُوپر ٹڈی دَل کا یہ کوئی پہلا حملہ نہیں‘ غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ہمارے پاس ساٹھ سال پہلے بھی ایک ایسا ہوائی جہاز تھا جو ٹڈی دَل پر کیمیائی سپرے کر کے اسے نیست و نابود کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ کدھر گیا؟ اب ہماری اطلاعات کے مطابق ہمیں اگست میں درکار دو ہوائی جہاز مل جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عراق سے تریاق آتے آتے سانپ کا کاٹا مر جائے گا۔ آخری اور غالباً سب سے برُی خبر ہمارے اکلوتی سٹیل مل کے بارے میں ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نوہزار مزدوروں کو 25 سے لے کر 50 لاکھ روپے فی کس دے کر اُن کی مل میں ملازمت ختم کرنا چاہتی ہے۔
کراچی سٹیل مل (جو گزشتہ پانچ سالوں سے بند پڑی ہے) ہمارے معاشی اور فکری (Intellectural)دیوالیہ پن کا مزار ہے اور مرثیہ بھی۔پچھلے سال یہ کالم نگار اپنے دوست ممریز خان (جو سٹیل مل کے Stake Holder Group کے ترجمان ہیں) کے ساتھ مقفل سٹیل مل دیکھنے اور وہاں سالہا سال کام کرنے والے مزدوروں کو ملنے گیاتو اُسے بتایا گیا کہ پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار کے آخری دنوں میں سٹیل مل 9 ارب روپے سالانہ منافع کما رہی تھی۔ کالم نگاراُن قانونی دلائل سے واقف ہے‘ جن کی بنیاد پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سٹیل کی نجکاری روک دی تھی‘ مگرجناب عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کہا تھا کہ وہ سٹیل مل کی نجکاری ہر گز نہ کریں گے‘ مطلب یہ تھا کہ وہ کوئی اور نسخہ اور لائحہ عمل اختیار کر کے مردہ سٹیل مل میں زندگی کی روح پھونک دیں گے۔ بدقسمتی سے اب انہیں یہ وعدہ بھی یاد نہیں رہا ۔ جب سابق حکومتوں کی جانب سے بھرتیوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر گئی تو سٹیل مل کی کشتی سوراخوں سے چھلنی ہو کر ڈوب گئی۔ پانی سر سے گزر گیا تو اُس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 2015 ء میں سٹیل مل بند کر دی۔ اب جب ہم اُن تین دیوہیکل سفید ہاتھیوں کو دیکھتے ہیں جو ہمارے خزانے پر سو ارب روپے سالانہ کا بوجھ بنتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ وہ کون ہیں؟ جواب سیدھا سادہ ہے پی آئی اے ‘ریلوے اور سٹیل مل۔ ہمارے تمام اور اگر تمام نہیں تو زیادہ تر معاشی ماہرین لکیر کے فقیر ہیں ۔ وہ گھسی پٹی تجاویز پیش کرتے ہیں‘ ہمیں بلا توقف اُنہیں مسترد کر دینا چاہئے۔ ہمارے سب سے بڑی دشمن ہماری آستین کے سانپ ہیں۔ اُنہوں نے 72 سالوں میں ہمارا معاشی نظام ان تباہ کن خطوط پر چلایا ہے کہ ہم اربوں روپوں کے نہیں بلکہ ہزاروں ارب روپوں کے مقروض ہو گئے ہیں۔ مذکورہ بالا ماہرین Blinkered(غلاف چڑھی ہوئی آنکھوں والے) ہیں‘ اُن کے مفلوج اور منجمد ذہنوں میں صرف دو Options ہوتے ہیں‘ قومی صنعتی اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر چلانا یا اسے اونے پونے داموں اپنے کسی عزیز یا خفیہ پارٹنرکے ہاتھوں فروخت کر دینا اور اُسے نجکاری کا گمراہ کن نام دے کر جان چھڑالینا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نقار خانہ میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ 
کالم نگار پی آئی اے اور ریلوے کی طرح سٹیل مل کی نئی زندگی دینے اور ان تینوں بڑے قومی اداروں کو پہلے کی طرح منافع بخش بنانے کا ایک بڑا آسان اور قابل عملِ حل تجویز کرتا ہے اور وہ ہے کہ ان تینوں کو ان کے کارکنوں اور مزدوروں اور محنت کشوں کے حوالے کر دیں۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کا ہو اور وہی انتظامیہ کو نامزد کرے اور یہ انتظامیہ پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کے سامنے جواب دہ بنا دی جائے۔یہ کالم نگار اپنے ذہین اور محب وطن قارئین سے اپنی تجویز کی حمایت کی اپیل کرتا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم جماعت سلامی‘ پاکستان عوامی تحریک‘ جمعیت علمائے اسلام‘ نیشنل عوامی پارٹی‘ایاز لطیف پلیجو‘ سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد صاحب‘ انصار برنی‘ جاوید جبار‘ جواد احمد‘ حامد خان‘ علی احمد کرد‘ سلمان اکرم راجہ جیسے عوام دوست رہنمائوں اوروکلا اور ڈاکٹر فرخ سلیم‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ڈاکٹر اکمل حسین‘ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور ڈاکٹر شاہدہ وزارت جیسے ماہرین معیشت اور اخبارات کے مدیروں‘ دانشوروں اور کالم نگاروں سے بھی تائید کی توقع نہ رکھوں۔ ریلوے اور پی آئی اے کی طرح سٹیل مل اُسی طرح ہمارا قومی سرمایہ ہے جس طرح ایک گھرانے کیلئے اُس کی جمع پونجی (انگریزی محاورہ کے مطابق Family Silver )۔ انگریز معاملہ فہمی‘ سلیقہ مندی اور کفایت شعاری میں کمال کا درجہ رکھتے ہیں۔ انگریز بڑی بوڑھیاں نئی نسل کو اپنی صدیوں پرانی اور آزمودہ دانش کا نچوڑ صرف پانچ الفاظ میں ذہن نشین کراتی ہیں اور وہ پانچ الفاظ ہیں: Don't Sell your Family Silver ۔ آیئے ہم بھی اس نصیحت پر کان دھریں اور اپنے قومی اداروں کی حفاظت جدید طریقوں اور افکار تازہ سے کریں۔
پس تحریر:اپنے حساب سے کالم مکمل کیا جا چکا تھا کہ کالم نگار کو سٹیل مل کے حوالے سے تین باتیں یاد آئیں اور میرے لئے یہ ممکن نہ رہا کہ میں اُنہیں قارئین کی خدمت میں پیش نہ کروں۔ اوّل: جنرل عبدالقیوم صاحب اس سٹیل مل کے سربراہ بنے تو یہ ملبے کی صورت تھی۔ اُن کی سربراہی میں یہ آٹھ ارب سالانہ منافع دینے لگی۔ وہ سربراہ نہ رہے تو یہ پھر ملبہ بن گئی۔ کیا ہماری حکومت نے جنرل صاحب سے مشورہ کیا؟ اگر ہاں تو بتایا جائے کہ اُنہوں نے کیا رائے دی؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ دوم: انگریزوں نے امدادِ باہمی کے نام سے ایک فعال اور قابل صد تعریف محکمہ بنایا تھا۔ جب انگریز روانہ ہوئے تو وہ امداد باہمی کا زریں اُصول تو اپنے سامان میں باندھ کر اپنے ساتھ یقینا نہیں لے گئے ہمیں امداد باہمی کے اُصول کے مطالعہ اور اُس پر عمل کرتے ہوئے سٹیل مل کی اس اُصول کے تحت تنظیم نو کریں۔ سوم: برطانیہ میں ایک بہت بڑے کاروباری ادارے کا نام ہے John Lewis Partnership ۔ آخری لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والے ہزاروں کارکن ہی اس کے مالک ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے حصہ دار ہیں اور اسی وجہ سے یہ ادارہ بڑا منافع بخش ہے اور بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ ہم اس سے سبق سیکھیں۔ قومی ملکیت اور نجکاری کے ناکام فارمولے اپنانے کی بجائے ایک ایسے معاشی ماڈل کو معرضِ وجود میں لائیں جو قائداعظم‘اقبال‘شاہ ولی اللہ اور عبیداللہ سندھی کی تجاویز کی زندہ اور کامیاب اور قابل تقلید مثال ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں