خبروں کا گلدستہ

آج کا کالم ایک قسم کا گلدستہ ہے۔ کئی رنگا رنگ پھولوں سے گندھا ہوا۔ پھولوں سے مُراد ہے حال ہی میں رونما ہونے والے واقعات۔ کالم کی جگہ کی کمی کا وہی علاج ہے جو تنگی ٔداماں کا۔ آج میرے قارئین کو چند کلیوں (جو یقینا خوشبودار ہیں) پر ہی قناعت کرنا ہوگی۔ سہولت کی خاطر خبروں کو نمبر لگا کر لکھوں تو غالباًمناسب رہے گا۔ مجھے لکھنے میں آسانی ہوگی اور آپ کو پڑھنے میں: 
(1):28 اپریل کو بڑے برطانوی اخبار The Times (جس کا امریکی ہفت روزہ ٹائم سے دور کا بھی واسطہ نہیں) کے سر ورق پر Bedford(لندن سے پچاس میل دور شمال مغرب میں) کے ایک سکول ہال کی تصویر شائع ہوئی جس کا چپہ چپہ جنم دن مبارک کے کارڈوں سے اس طرح بھرا ہوا ہے کہ تِل دھرنے کی گنجائش نہیں۔ برتھ ڈے کارڈوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔ یہ وہ کارڈ ہیں جو دوسری جنگِ عظیم میں دادِ شجاعت دینے والے کیپٹنTom Moore کو اُن کی زندگی کے سو سال مکمل ہو جانے پر سارے برطانیہ سے پوسٹ کئے گئے۔ وجہ ؟ کپتان صاحب نے ضعیف العمری کے باوجود اپنے گھر کے پائیں باغ (جو وسیع و عریض ہے) کے آہستہ آہستہ دوڑ کر سو چکر لگائے اور برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کیلئے 29 ملین (دو کروڑ نوے لاکھ) پائونڈ کے عطیات اکٹھے کر کے تاریخ میں اپنا نام لکھوایا۔ اور ملکہ برطانیہ سے سر کا خطاب حاصل کیا۔
(2): اسی دن کے اخبار میں ایک اور بوڑھے کا ذکر تھا جس نے 108 سال کی عمرمیں وفات پائی۔ وہ بڑھاپے میں بھی اتنے کرتبوں کا مظاہرہ کر سکتا تھا کہ اُس کیلئے اخبار میں Daredevilکا اسمِ صفت استعمال کیا گیا۔ نام ہے Jack Reynolds۔جیک نے ایک نہیں بلکہ چار بار Guinness کے ریکارڈ میں اپنا نام لکھوایا۔ چاروں کے چاروں کارنامے اُس وقت سرانجام دیئے تھے جب عمر سو سال سے اُوپر تھی (پاکستان میں ہوتا تو اپنی عمر کے آخری40 بر س قبر میں پائوں لٹکا کر بیٹھا رہتا)۔ جیک نے ان کرتبوں کے ذریعے خیراتی اداروں کیلئے لاکھوں پائونڈ اکٹھے کئے۔ اس نے 104 سال کی عمر میں رولر کوسٹر پر سواری کی۔ بازو پر Jack کا لفظ Tattoo سے کنندہ کروایا۔ 106 سال میں Zip Wire سے لٹکا۔ 107 سال کی عمر میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ظاہر ہے کہ ان کے بیٹے بیٹیوں‘ پوتے‘ پوتیوں‘ پڑپوتے‘ پڑپوتیوں کی تعداد کافی بڑی تھی۔ اُن سب نے اپنے متفقہ بیان میں موصوف کو اپنا سب سے بڑا ہیرو قرار دیا ہے۔ 
(3 ): وسطی یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک کا نام ہے Czech Republic وہاں کی حکومت نے 12 مارچ کو ہی لاک ڈائون نافذ کر دیا۔ وہ کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ وہاں اس بیماری سے وفات پا نے والوں کی تعداد صرف 222 ہے جو اس کے پڑوسی ملک (آبادی دونوں کی تقریبا ً برابر ہے) سے نصف ہے۔اب چیک ری پبلک لاک ڈائون کی سختیاں آہستہ آہستہ نرم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق لاک ڈائون میں انسانوں کو جو بھی مشکلات پیش آئیں وہ اپنی جگہ مگر دارالحکومت (پراگ) کے چڑیا گھر میں جانوروں نے چھ ہفتے سکھ کا سانس لیا۔ نہ اُنہیں اغیار نے گھور گھور کر دیکھا اور نہ کوئی ان کے آرام میں مخل ہوا۔ ان جانوروں کا بس چلے تو لاک ڈائون کو کبھی ختم نہ ہونے دیں۔ 
(4 ): انگلستان کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع کائونٹی (ضلع) کا نام Suffolk ہے۔ برطانوی حکومت وہاں ایٹمی طاقت سے چلنے والا بجلی گھر بنانا چاہتی ہے۔ لاک ڈائون کے باوجود وہاں 27 اپریل کو بڑا مظاہرہ ہوا۔ (ہزاروں مظاہرین ایک دوسرے سے چھ فٹ دور رہے)۔ جس میں برطانیہ کے چند بڑے اداکاروں اور فنکاروں نے بھی حصہ لیا۔ مظاہرین کے بڑے اعتراضات یہ تھے کہ جس جگہ ایٹمی بجلی گھر ( Sizewell)بنایا جائے گا وہ قدرتی حسن کو تہس نہس کر دے گا۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اس ایٹمی بجلی گھر کو بنانے پر جوکثیر رقم خرچ آئے گی وہ شمسی توانائی یا تیز ہوائوں سے چلنے والی ٹربائنزبنانے پر صرف کی جاتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ جب میں یہ سطور لکھ رہا تھا تو مجھے اچانک یاد آیا کہ ہم نے بھی کراچی کے ساحل پر (شہری آبادی سے تھوڑے فاصلہ پر) ایٹمی ری ایکٹر بنایا ہے ‘ مگر اس پر ماسوائے Public Interest Litigation Association(میں بھی اُس کا ایک رکن ہوں) کسی تنظیم نے صدائے احتجاج بلند نہ کی اور بدقسمتی سے یہ احتجاج بھی اُتنا ہی بے اثر ثابت ہوا جتنا نقار خانہ میں طوطی کی چیخ و پکار۔
(5):14اپریل کے روزنامہ ٹائمز کے صفحہ نمبر29 (کل صفحات60 ہوتے ہیں) پر ایک ایسی کمال کی تصویر شائع ہوئی کہ میری نظر اُس پر جم کر رہی گئی۔ رُبع صفحہ پر پھیلی ہوئی تصویر لاہور کے ایک مضافاتی گائوں میں دس بارہ سال کے ایک خوش شکل‘ خوش لباس‘ صحت مند‘ مسکراتے ہوئے لڑکے کی تھی۔ ایک کندھے پر گندم کی بالیاں اور دوسرے کندھے پر درانتی۔ تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ یہ لڑکا گندم کی کٹائی میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ حصہ لے رہا ہے۔ نہ صرف یہ لڑکا اور اُس کے والدین اور اُس کے بہن بھائی بلکہ شمالی پنجاب کے ہر گائوں (جس میں تحصیل پسرور میں میرا آبائی گائوں تلونڈی عنایت خان بھی شامل ہے) میں لاکھوں لڑکے اور اُن کے والدین اور بہن بھائی ہمارے زرعی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ 73 سالوں میں ہر حکومت کی کرپشن اور نالائقی کے باوجودیہی مضبوط ریڑھ کی ہڈی ہمارے نحیف و ناتواں جسم کو گرنے نہیں دیتی۔ گندم‘ چاول‘ کپاس‘ گنا اور دوسری فصلیں (چاہے خوراک کیلئے یا نقد فروخت کیلئے) اُگانے والے کروڑوں افراد آج بھی اُفتاد گان ِخاک ہیں اور شہروں میں ملنے والی تمام سہولیات سے محروم ہیں۔ بدقسمتی سے کاشتکار (اقبال کی زبان میں دہقان) آج بھی سویا پڑا ہے۔ سو سال پہلے اقبال اُس سے یوں مخاطب ہوئے: 
سحر کی اذاں ہو گئی اب تو جاگ
(6): اگلی خبر پڑھنے کیلئے آپ کو میرے ساتھ جاپان جاناہو گا۔ جاپان اس لحاظ سے فقید المثال ہے کہ وہ ایک طرف جدید ترین صنعت و حرفت (Technology) استعمال کرنے والے ممالک کے قافلہ کے ہر اوّل دستے میں شامل ہے‘دوسری طرف اُس کی تہذیب و تمدن اور ثقافت پر قدیم رسومات کا اتنا گہرا اثر ہے کہ یقین نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ہر شہری اپنی جیب میں اپنے دستخطوں کی مہریں اُٹھا کر سارا دن ادھر اُدھر گھومتا ہے اور روزمرہ کے تمام کام اس طرح کرتا ہے کہ اُسے جہاں دستخط کرنے کی ضرورت پیش آئے وہ اپنے دستخط کی مہر ثبت کر دیتا ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ مہریں بھی کئی قسم کی ہیں۔ اٹھارہ برس قبل کالم نگار اپنے دوست اصغر اور اُس کی مہمان نواز جاپانی بیوی کی دعوت پر جاپان گیا تاکہ اپنی خدمت گزار بیوی کو موسم بہار میں حد نگاہ تک چیری کے پھولوں سے بھرے ہوئے جنگلات کا دلفریب منظر دکھاسکوں۔ ہم نے ایک ہفتہ کے قیام کے درمیان بہت کچھ دیکھا مگر افسوس کہ دستخطوں کی ایک بھی مہر نہ دیکھی اور نہ اُس کا استعمال ہوتے ہوئے۔ اگر چیری کے پھولوں کی بہاردیکھنے کیلئے ہمیں دوبارہ جاپان جانے کا موقع ملا توشاید یہ منظر بھی دیکھ سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں