خبروں کا گلدستہ…(2)

آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے ہفتہ بھی کالم کا یہی عنوان تھا۔ وہ مکمل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ابھی بہت سے پھول بکھرے پڑے ہیں اور تقاضا کر رہے ہیں کہ انہیں ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک گلدستہ کی شکل دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ پہلے کی طرح آج بھی مناسب ہوگا کہ ہر خبر کو نمبر لگا کر لکھا جائے تاکہ وہ آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں۔ (1 ): پہلی خبر کا تعلق ہمارے اپنے دیس سے ہے۔ BBC کا ادارہ عالمی تاریخ کے موضوع پر میگزین شائع کرتا ہے۔ فاضل مدیر نے اپنے قارئین کے سامنے ایک سوالنامہ رکھا کہ وہ دنیا کے پانچ بڑے رہنمائوں میں سے اپنا پسندیدہ رہنما نامزد کریں۔ رہنمائوں کے نام تھے:مہاراجہ رنجیت سنگھ (پنجاب میں حکمران -1801-1859)۔Amilcar Cabral(بیسویں صدی میں افریقہ میں تحریک آزادی کا رہنما) ونسٹن چرچل (دوسری جنگِ عظیم کا فاتح اور برطانیہ کا دو بار وزیراعظم) ابراہام لنکن (امریکی صدر1861-1865 )۔ ایلزبیتھ اول۔ (برطانوی ملکہ 1558-1600 )۔ ووٹ دینے والوں کی بڑی اکثریت (38 فیصد) نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حق میں ووٹ دیئے۔ اس نے اپنے آپ کو سب سے کامیاب حکمران یوں بنوایا کہ اُس نے نہ صرف پنجاب بلکہ افغانستان سے لے کر تبّت تک وسیع علاقے کو اپنے ماتحت کیا۔ مسلمان دشمنی کی چند شرمناک اقدامات سے قطع نظر مجموعی طور پر اُس کی حکومت سیکولر تھی۔لاہور کے فقیر سید گھرانے کا ایک فرد رنجیت سنگھ کا وزیراعظم تھا۔ اچھا جرنیل‘ بہترین منتظم۔
(2 ): 90 فٹ لمبے بادبانی جہاز کا نام Mayfowerتھا جو 1620ء میں انگلستان کی بندرگاہ Plymouth سے اٹلانٹک کے پرُ خطر سفر پر روانہ ہوا۔صرف تین پھڑ پھڑاتے ہوئے بادبانوں اور خداوند کریم کے کرم کے انحصار پر کیا جانے والا بحری سفر 66 دنوں میں مکمل ہوا۔ یہ جہاز ایک اَن دیکھی سرزمین (امریکہ) کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوا۔ جب جہاز روانہ ہوا تو مسافروں کی تعداد سو تھی۔ دو ماہ اور چھ دن بعد جہاز منزل پر پہنچا تو تعداد بڑھ کر 101 گئی۔ (دوران سفر دو بچے پیدا ہوئے اور ایک بیمار مسافر وفات پا گیا)۔ اس بحری سفر کو عالمی تاریخ میں خصوصی مقام اس لئے حاصل ہوا کہ یہ Puritans نظریات رکھنے والے کٹر ذہن کے بنیاد پرستوں کی ہجرت تھی۔ ان دنوں انگلستان کا مذہبی رواداری کے اعتبار سے وہی حال تھا جو ان دنوں ہمارا ہے۔ Puritans زیر عتاب تھے اور اُن کیلئے اپنے مسلک کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا تو اُن کیلئے نقل مکانی کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہا۔ اس سال برطانیہ میں 400 سال قبل Mayflowerکے بحری سفر کی یاد منانے اور سو مہاجرین کے عزم و ہمت کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بہت سی تقریبات منعقد کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا جو کورونا وائرس کی سخت پابندیوں کی وجہ سے دھرے کا دھرا رہ گیا۔ 
(3 ): اٹلانٹک کا ذکر آیا تو مجھے اسی سمندر سے جڑی ہوئی دوسری خبر یاد آئی جو 30 اپریل کو روزنامہ ٹائمز میں شائع ہوئی۔ 72 سالہ Graham Winters بادبانوں والے جہاز کی بجائے چپو چلا کر اپنی چھوٹی سی کشتی میں اٹلانٹک عبور کر کے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کرنے نکلا۔ بد قسمتی سے وہ امریکہ سے صرف پانچ میل دور تھا کہ ایک غیر متوقع طوفان نے اُس کیلئے چپو چلانا ناممکن بنا دیا۔ اُس نے ریسکیو جہازوں سے مدد مانگی اور اپنی جان بچائی۔اگر وہ اُردو اشعار جانتا تو وہ شعر گنگناتا جس میں اُس مرحلہ پر کمند ٹوٹنے کا ذکر ہے جب لبِ بام دو چار ہاتھ رہ جاتا ہے۔ آج تک جس سب سے عمر رسیدہ شخص نے چپو چلا کر اٹلانٹک عبور کیا ہے وہ 66 سالہ فرانسیسی Gerad Marie ہے۔ گراہم کے دوستوں اور خیر خواہوں کو زیادہ افسوس اس لئے بھی ہوا کہ یہ اُس کی پانچویں اور آخری کوشش تھی۔ گراہم نے اپنا بحری سفر 25 جنوری کو شروع کیا اور وہ شب و روز چپو چلا کر 29 اپریل کو امریکہ کے بالکل قریب جا پہنچا۔ 
(4): 29 اپریل کو گیارہ بجے صبح ہماری دنیا ایک قیامت سے بال بال بچی۔ آسمان سے زمین کی طرف سفر کرنے والے شہاب ثاقب (جو ڈیڑھ میل چوڑا تھا) خوش قسمتی سے زمین سے نہ ٹکرایا اور 39 لاکھ میلوں کے محفوظ فاصلے سے گزر گیا۔ سائنس دانوں نے اس شہاب ثاقب پر 20 سالوں سے نظر رکھی ہوئی تھی۔ پچھلے سال جولائی میں بھی ایک شہاب ثاقب زمین سے مقابلتاً زیادہ قریب سے گزرا مگر اتنے دبے پائوں کہ خلائی سائنس دانوں کو اس کی آمد کی خبر صرف ایک ہفتہ پہلے ملی جب سوائے خیر خیریت کی دُعا مانگنے کے کچھ بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ ایک زیادہ خطرناک شہاب ثاقب کا نام ہے 1998OR2۔ وہ 2079ء میں زمین کے اتنا قریب پہنچ جائے گا کہ امریکہ کا خلائی ادارہNASA اُسے لاکھوں میلوں کے فاصلہ پر اپنے راکٹ سے تباہ کر کے زمین کو تباہی سے بچانے کی تیاری کر رہا ہے۔
(5): فرانس‘ سپین‘ پرتگال‘ بلجیم اور ہالینڈ کی طرح برطانوی سلطنت بھی اپنی نو آبادیات کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کے فن میں مہارت رکھتی تھی۔ اگر آپ نے فرعونوں کے دور کے مصر اور قبل مسیح دور کی وادیٔ سندھ کی تہذیبوں کا مطالعہ کرنا ہے تو آپ لندن میں برٹش میوزیم میں ایک دو دن گزا رلیں تو آپ کو توقع سے کہیں زیادہ چیزیں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ ہندوستان نہ صرف برطانوی نو آبادیاتی سلطنت کا حصہ تھا بلکہ Jewel in the Crownکہلاتا تھا‘ اس لئے اگر ہمارے مال مسروقہ کا اتنا بڑا ذخیرہ برطانوی عجائب گھروں کی زینت ہے تو اس میں حیرت کا کوئی مقام نہیں۔ باعثِ حیرت یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا کے سونے کے ذخائر بینک آف انگلینڈ کے تہہ خانوں تک کیسے پہنچے؟ برطانوی مؤقف یہ ہے کہ ہم سونے کے ذخائر کے مالک نہیں صرف نگہبان ہیں اور جب بھی مناسب وقت آئے گا تو ہ ذخائر وینزویلا کو منتقل کر دیئے جائیں گے۔ سونے کے ذخائر کا وزن 31 ٹن ہے اور مالیت 1.34 ارب پائونڈ ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ برطانیہ وینزویلا کی موجودہ حکومت جس کے سربراہ صدر Maduroہیں‘ کو تسلیم نہیں کرتی اور امریکی خوشنودی کی خاطر حزبِ اختلاف کے رہنما Juan Guaidoکو اصل اورجائز حکمران مانتی ہے۔ اس طرح برطانوی حکومت کو سونے کے ذخائر اُس کے اصل مالکوں کو واپس نہ کرنے کا بنا بنایا بہانہ ہاتھ آگیا۔
(6): اپریل میں برطانوی حکومت کا ایک اور راز فاش ہوا جو شدید شرمندگی کا باعث بنا۔ دوسری جنگِ عظیم میں اتحادی فوجوں نے فرانس کو جرمنی کی قید سے چھڑانے کیلئے جس بحری حملے کی تیاری کی اُسے D-Day کہتے ہیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ جب اس حملے کی ریہرسل کا اہتمام کیا گیا تو ایک بدترین غلطی کی وجہ سے 700 اتحادی فوجی (جن میں اکثریت انگریزوں کی تھی) برطانیہ کے جنوب مغرب میں Devonکے ساحل پر اپنا جہاز ڈوب جانے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ 28 اپریل 1944ء کو جرمن بحریہ کی آبدوزوں نے تارپیڈوز چلا کر اتحادی جہازوں کو برطانوی ساحلوں کے قریب غرق کر دیا اور اب برطانوی بحریہ نے 150 فٹ کی گہرائی میں سمندر کی تہہ میں گرے پڑے ان جہازوں کی حفاطت اور اُنہیں شکست و ریخت سے بچانے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ اب یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ امریکی اور برطانوی بحریہ کے درمیان مواصلاتی رابطہ منقطع ہو جانے کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا۔ دونوں ممالک کی بحریہ کے زیر استعمال ریڈیو کی مختلف فریکوئنسی تھی۔ جرمن آبدوز کے حملے کی پیشگی اطلاع امریکی بحریہ تک نہ پہنچائی جا سکی‘ لمحہ بھر کی غفلت اور 700 گھرانوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں