خبروں کا گلدستہ …(4)

ایک طرف میری مطالعہ کی میز پر خبروں کے تراشوں کا بڑھتا ہوا انبار ہے اور دوسری طرف یہ اندیشہ کہ کالم نگار کے قارئین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے والا ہوگا۔ ایک ہی عنوان کے تحت لکھے جانے والے کالموں کی آج چوتھی قسط آپ کے نظروں سے گزرے گی تو آپ سُکھ کا سانس لیں گے۔ تمہید کو مزید طول دینے کی بجائے کیوں نہ ہم مطلب کی بات کی طرف رُخ کریں۔ (1 ): آکسفورڈ اور کیمبرج کی دونوں شہرہ آفاق یونیورسٹیاں لندن سے پچاس میل کے فاصلے پر ہیں۔ ایک شمال مغرب میں اور دوسری شمال مشرق میں۔ خوش قسمتی سے مجھے ہر سال کسی نہ کسی بہانے آکسفورڈ جانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ عدالتی کارروائی دوپہر تک مکمل ہو جائے (جو اکثر ہوتا ہے) تو دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھنے والی Bodleianلائبریری کی زیارت کرنے اور علم کے ایک بہت بڑے ذخیرے کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو تراوت پہنچانے کیلئے اُس کا رُخ کرتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس لائبریری میں قدم رکھتے ہی اقبال کی ایک کمال کی نظم کے اشعار میرے کانوں میں گونجیں گے۔ ؎
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی 
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی ‘کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
حسنِ اتفاق ہے مغلیہ دُورکی بنائی ہوئی تصاویر ایک ایسے علم دوست امیر فرانسیسی ( Francis Douce) کے ہاتھ لگیں تو اُس نے 1834 ء میں وہ بڑی قیمتی تصاویر اپنے ورثا کو دینے کی بجائے آکسفورڈ کی مذکورہ لائبریری کو بطور عطیہ دے دیں۔ اِن تصاویر پر مشتمل البم 41 تصاویر پر مشتمل ہے ۔ 370 سال گزر جانے کے بعد یہ تصاویر اتنی خستہ ہو چکی ہیں کہ یہ خدشہ ہے کہ صفحہ اُلٹتے وقت مبادا تصاویر پھٹ نہ جائیں۔ تاریخی روایات کے مطابق مغل بادشاہ شاہ جہاں نے یہ تصاویر اپنے دوسرے بیٹے شاہ شجاع اور اپنی بیوی ممتاز محل کیلئے بنوائی تھیں۔ ان تصاویر کو قابلِ دید بنانے کیلئے کم از کم چالیس ہزار پائونڈ درکار ہیں۔ یونیورسٹی نے عطیات کی اپیل کی ہے اور یقینا بہت جلد مطلوبہ رقم اکٹھی ہو جائے گی تو میں اولین فرصت میں مشتاقان دید کی قطار میں جا کر کھڑا ہو جائوں گا۔ ( 2 ): Max Hasting کا برطانوی صحافیوں میں بلند مقام ہے۔ انہوں نے میری طرح کے کورونا وائرس سے خوفزدہ افراد کی ڈھارس بندھانے کیلئے 1665 ء میں برطانیہ میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے عذابِ عظیم پر بہت اچھا مضمون لکھا ہے۔ طاعون کی وبا صرف لندن میں ستر ہزار افراد کی ہلاکت کا موجب بنی تھی۔ اُس دور میں برطانیہ میں ایک بلند مرتبت سرکاری افسر ‘ جس کانام Samuel Pepysتھا‘ ہر روز سرکاری کام کی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اپنی ڈائری میں چند سطور ضرور لکھ لیتا تھا۔ اب اُس کی ڈائری انگریزی ادب میں خصوصی مقام رکھتی ہے۔ سترہویں صدی کا نصف بڑا ہنگامہ خیز تھا‘ پہلے خانہ جنگی اور پھر بادشاہ چارلس اول کو 1649 ء میں موت کی سزا دی گئی اور چارلس دوئم کو فرانس سے بلا کر تخت پر بٹھایا گیا۔ خیر خیریت کے صرف پانچ سال گزرے‘ 1665 ء آیا تو اپنے ساتھ طاعون کی ہلاکت خیزی لایا۔ ہم اُس دور کے وقائع نگار Pepys کی ڈائری پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کے دوسرے افراد کی طرح اُس کی زندگی پرموت کے اُس رقص کو کوئی عکس نہ پڑا اور وہ حسبِ معمول اپنی زندگی گزارتا رہا۔ (3): اہرامِ مصر4650 سال پہلے مکمل ہوئے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ مصر کے بادشاہوں ‘جو فرعون کہلاتے تھے‘کے مزار ہیں۔ ایک سو سال قبل اُن میں سے ایک بادشاہ کا مزار اس قدر خستہ حال ہو گیا کہ 1930 ء میں اُسے مقفل کر دیا گیا کیونکہ خطرہ تھا کہ وہ کسی وقت سیاحوں کے اُوپر گر کر اُنہیں بھی وہاں دفن کر دے گا۔ یاد رکھیں کہ مزار کی عمارت جن پتھروں سے بنائی گئی تھی اُن کا کل وزن پانچ لاکھ ٹن ہے۔ پندرہ سالوں پر پھیلا ہوا اس کی مرمت کا منصوبہ اب پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ یہ کارنامہ ایک برطانوی انجینئر Peter James اور اُس کے ساتھیوں نے انجام دیا ہے۔ مرمت کے بعد اہرام کو محفوظ قرار دے دیا گیامگر کالم نگار کی بزدلی اُسے کبھی اس میں داخلے کی اجازت نہ دے گی۔ (4) محمد اظہار الحق اور ڈاکٹر رسول بخش رئیس صاحبان کا بھلا ہو کہ وہ ہمیں اپنے کالموں میں اُن گزرے ہوئے اچھے دنوں کی یاد دلاتے رہتے ہیں جب ہمارے خطہ زمین پر فی مربع میل خوشحالی کی کمی تھی مگر آج کے مقابلے میں خوشی‘ ذہنی سکون‘ قناعت‘اطمینانِ قلب اوربھائی چارہ بہت زیادہ تھا۔ اتنا زیادہ کہ وافر کا اسم صفت بجا طو رپر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آثارِ قدیمہ کو سنبھالنے ‘ نکھارنے اور سنوارنے میں شاید کوئی اور قوم انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ میں صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا اور وہ بھی بھاپ سے چلنے والے انجن کی۔ بارہ سال پہلے ایک کارنامہ یوں سرانجام دیا گیا کہ برس ہا برس کی محنت ‘جسے انگریزی میں Labour of Love کہتے ہیں‘ اور تیس لاکھ پائونڈ کے عطیات کی بدولت درجنوں شائقین نے اپنے کاروبارِ زندگی سے وقت نکال کر خود ہی ایک شاندار ریلوے انجن بنا لیا۔ دوڑتا بھاگتا اور بھاپ کے بادل اُڑاتا ہوا۔ انگریزوں نے برصغیر میں ریلوے کا جال بچھایا تو بھاپ کے انجن ہی کے بل بوتے پر۔ اب ایک نئے سٹیم انجن کو بنانے کیلئے رضا کار اپنی آستینیں چڑھا رہے ہیں۔ برطانیہ کے کئی خوبصورت مقامات پر آج بھی سٹیم انجن ٹرین کو کھینچتے ہیں اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اگر سیاح ایک سال پہلے بکنگ نہ کروائیں تو ٹرین میں جگہ نہیں ملتی۔ کتنا اچھا ہو کہ ہم بھی انگریزوں کی پیروی کرتے ہوئے تمام گم شدہ سٹیم انجنوں کو تلاش کر کے اُن کی مرمت کروائیں اور پھر غیر ملکی سیاحوں کیلئے اُسی طرح کی خصوصی ٹرینیں چلائیں جیسے بھارت میں دہلی سے ایک ٹرین روزانہ ایک تکونی سفر پر روانہ ہوتی ہے۔ دہلی سے آگرہ‘ آگرہ سے جے پور اور جے پور سے دہلی۔ کالم نگار کی طرح ہر وہ شخص جس نے اس ٹرین پر ‘جسے سٹیم انجن کھینچتا ہے‘ سفر کیا ہے اس بے حد خوشگوار تجربہ کو ہر گز بھلا نہیں سکتا۔ (5): برطانیہ میں ساٹھ سال کے طویل وقفے کے بعد آسمان پر سفید دھوئیں سے لکھنے یا تصویر بنانے کا دور پھر شروع ہونے لگا ہے۔ 1922 ء میں جو لوگ Epsom کے مقام پر دنیا میں گھوڑوں کی سب سے مشہور دوڑ (Derby ) دیکھنے گئے تو اُن کی نگاہوں کا مرکز دوڑ میں حصہ لینے والے گھوڑوں کی بجائے آسمان پر لکھے ہوئے یہ دو الفاظ تھے۔ Daily Mail ۔ ایک برطانوی اخبار نے اپنی پبلسٹی کیلئے Sky Writing کی نئی اور انوکھی اور جاذبِ نظر تکنیک کا سہارا لیا اور یہ ٹوٹکا توقع سے زیادہ کامیاب رہا۔ بعد ازاں صحت اور حفاظتی تحفظ کی وجہ سے آسمانوں پر لکھنا ممنوع قرار دیا گیا۔ 60 سالوں کے بعد برطانوی آسمان اظہارِ محبت سے لے کر مصنوعات کا اشتہار دینے تک کیلئے پھر استعمال کئے جانے والے ہیں۔ ایک غیر مصدقہ روایت کے مطابق جب 1953ء میں دو کوہ پیمائوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر تاریخ میں پہلی بار ہمالیہ کی سب سے اُونچی چوٹی مائونٹ ایورسٹ سر کی تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُنہوں نے برفانی چوٹی کے اُوپر اُس زمانے کی ایک مشہور و مقبول چہرے کی کریم کا اشتہار لکھا ہوا دیکھا جو آسمانوں پر لکھائی کرنے سے کہیں زیادہ جان جوکھوں کا کام تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں