چند تازہ خبریں

آج کے کالم کی تمہید لکھنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ نہ کالم لکھنے والے کے پاس مطلوبہ ہمت ہے اور نہ پڑھنے والوں کے پاس قوت برداشت۔ ہم سیدھے خبروں کی طرف چلتے ہیں۔
(1): فرانس کے جنوب میں Bordeausانگور کے میلوں تک پھیلے ہوئے باغات کیلئے مشہور ہے ۔ وسط نومبر میں ان باغات پر ژالہ باری ہونے لگی تو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ انگوروں کی ساری فصل تباہ ہو جائے گی۔ کاشتکاروں نے مؤثر تدارک سوچا اور اس پر فوری عمل کیا کہ بادلوں پر توپوں سے گولہ باری کر کے اُنہیں تتّر بتّر کر دیا جائے۔ بادلوں سے گرنے والے برفانی گولے جسامت میں کبوتروں کے انڈوں کے برابر تھے۔ ژالہ باری اتنی شدید تھی کہ توپیں بھی زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوئیں۔ یہ پڑھ کر کالم نگار تاریخ کی کتابوں کی طرف لپکا۔ معلوم ہوا کہ سولہویں صدی میں برطانیہ میں جب بادل گرج چمک کا زیادہ مظاہرہ کرتے تھے اور جب نوبت ژالہ باری تک پہنچ جاتی تھی تو طوفانی ہوائوں اور تند و تیز بارشوں کے عذاب کو روکنے کیلئے سارے ملک کے گرجا گھروں میں گھنٹیاں بجائی جاتی تھیں تاکہ '' ان کے مقدس شور سے طوفان لانے والی بدروحیں اور شیطانی قوتیں ڈر کر بھاگ جائیں‘‘۔ ایک پوپ Urban Tai نے دفعٔ شر کیلئے ایک خصوصی دعا تیار کرکے سارے یورپ میں تقسیم کی تھی۔
(2):البانیہ جنوبی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جہاں مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے باوجود نصف صدی تک اشتراکی نظام نافذ رہا۔ برطانوی جیلوں کے بارے میں نومبرمیں جو رپورٹ شائع کی گئی‘ جس کے مطابق ان جیلوں میں غیر ملکی قیدیوں کی کل تعداد 9823 ہے اور ان میں سے 999 ( 10 فیصد) کا تعلق البانیہ سے ہے۔ دوسرے نمبر پر پولش (835) ہیں تیسرے نمبرپر رومانیہ سے آئے ہوئے (805 )۔ چوتھے نمبر پر جزائر الغرب الہند کے ملک جمیکا (660 ) کے باشندے ہیں۔ قید کی سزا ختم ہو جانے پر ان مجرموں کو برطانوی حکومت اپنے ملک زبردستی بھیج دیتی ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں ملک بدر کئے جانے والوں کی تعداد 52 ہزار تھی۔ اس ضمن میں ایک بات کو لکھنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر اُس کے باشندے دوسرے ملک میں جرم کا ارتکاب کرکے جیل میں جا پہنچیں تو وہ یہ درخواست کر سکتا ہے کہ اُسے اس کے اپنے ملک کی پولیس کے حوالہ کیا جائے تاکہ وہ اُسے اپنے ملک کی جیل میں پس دیوار زنداں رکھ کر اُسے یہ موقع فراہم کرے کہ وہ اپنی باقی ماندہ سزا اپنے ملک کی سرزمین پر پوری کرے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی جیلوں میں جو پاکستانی قید ہیں اُن کی تعداد غالباً ہزاروں میں ہے اور اگر سینکڑوں میں بھی ہے تو بھی ہماری حکومت کا فرض ہے کہ اُن کی حالتِ زار اور قیدیوں سے زیادہ ان کے اہل و عیال کی حالت ِ زار پر توجہ دے اور اُن کی بازیابی کیلئے عملی قدم اٹھائے۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی ایک بے گناہ بیٹی (ڈاکٹر عافیہ صدیقی) کو ایک ناکردہ جرم کے ارتکاب کے جھوٹے مقدمے میں 86 سالوں کی سزا دی گئی۔ وہ 2010ء سے قید ہیں۔ وہ پاکستانی شہری ہے اور ہماری حکومت کو قانونی طور پر حکومت امریکہ سے عافیہ صدیقی کی پاکستان واپسی (جہاں وہ باقی ماندہ سزا بھگتنے کی پابند ہوں گی) کی درخواست کرنی چاہئے۔ معتبر ذرائع سے پتا چلا ہے کہ قید ِتنہائی کی وجہ سے عافیہ کی صحت بہت خراب ہے۔اگر میاں نواز شریف علاج کرانے کے بہانے ضمانت پر رہا ہو کر برطانیہ آسکتے ہیں اور یہاں غیر معینہ عرصہ تک رہ سکتے ہیں توجناب عمران خان عافیہ صدیقی کے بارے میں کئے گئے اپنے وعدوں کویاد کریں اور عافیہ کو پاکستان بلانے کیلئے سفارتی کوشش شروع کریں اورپاکستان کی اس مظلوم بیٹی کو جلد از جلد واپس لانے کا اہتمام کریں۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کو قدرت نے ایک بڑی نیکی کرنے کا موقع دیا ہے‘ وہ اسے ضائع نہ کریں۔ صرف عافیہ کے اہل خانہ نہیں بلکہ لاکھوں پاکستانی بھی وزیراعظم کو دعائیں دیں گے۔ بہت سی دعائیں۔اس سلسلے میں حکومت کو جلد کوئی قدم اٹھانا چاہیے‘ کیونکہ ایک مظلوم جان کو بچانے کے لیے یہ کام کوئی اور نئی صرف حکومت پاکستان ہی کر سکتی ہے۔ 
(3) :مجھے مغربی افریقہ کا ایک ملک نائیجریا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کرپشن ہو یا نالائقی وہ ان دونوں میدانوں کا عالمی چیمپئن ہے۔ اس کی آخری مثال نومبرکے آخری دن دیکھنے میں آئی۔ نائیجریا کے 77 سالہ صدر Buhari نے ایک ایسے شخص کو اونچے سرکاری عہدے پر تعینات کرنے کاحکم نامہ جاری کیا جو ایک سال پہلے وفات پاچکا تھا۔ صدر مملکت کے سٹاف کی شرمندگی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس نے شدیدکھسیانا پن کے عالم میں عذرِگناہ یہ پیش کیا ہے کہ جب دو سال پہلے صدرِ مملکت کے سامنے تعیناتی کی فائل پیش کی گئی تھی تو وفات پا جانے والا شخص زندہ تھا۔ جتنی دیر میں صدارتی حکم نامہ جاری ہوا (اور اس عمل میں دو سال گزر گئے) فرشتہ ٔاجل نے اپنا کام کر دکھایا۔ آپ یہ سطور پڑھ کر زیادہ اونچی آواز میں نہ ہنسیں کیونکہ ہمارے ہاں ماضی قریب میں قتل کے ایک ملزم کی رہائی کا عدالتی حکم جب جیل حکام تک پہنچا تو اس وقت تک مذکورہ قیدی کو وفات پائے ایک سال گزر چکا تھا۔
(4): یو ں تو انسانی صحت سے بڑی اور کوئی نعمت نہیں اور انسانی جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جس کا غیر صحت مند ہونا سب سے بڑے عذاب کی شکل اختیار نہیں کرتا مگر جو خصوصی اہمیت بصارت اور بینائی کی ہے وہ سرفہرست ہے۔ اچھی خبریہ ہے کہ برطانوی اور امریکی سائنس دانوں نے نصف صدی کی شبانہ روز محنت کے بعد نابینا افراد کو جس انوکھی اور غیر معمولی ایجاد کی بدولت بینائی کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کے عمل میں بڑی مثبت پیش رفت کر چکے ہیں وہ ایک معجزہ سے کم نہیں اور وہ تکنیک ہے انسانی دماغ میں ایک ایسا برقی Implant لگانے کی جو اسے دیکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت دے سکتا ہے۔ مذکورہ بالا بہت چھوٹا سا Implantنابینا شخص کے دماغ کے جس پچھلے حصہ میں لگا کر تجربات کئے گئے اُسے Visual Control کہتے ہیں۔ جب Implants میں برقی رو دوڑائی گئی تو اتنی Phosphene پیدا ہوئی کہ بینائی سے محروم فرد کوحروف تہجی صاف نظر آنے لگے۔ ظاہر ہے کہ مکمل بینائی کی منزل ابھی دور ہے‘ مگر اس ایجاد کی بدولت سائنس دانوں کی اپنی آنکھوں میں اُمید کے چراغ جل اُٹھے ہیں۔ مجھے اس مرحلہ پر قارئین کو یہ بتانا چاہئے کہ پاکستان میں نابینا افراد بینائی کی عظیم ترین نعمت سے محرومی کے علاج کیلئے آنکھوں کے جس بینک سے استفادہ کرتے ہیں وہ سارے کا سارا سری لنکا کے نیک دل اور فرشتہ صفت افراد کے cornea کی شکل میں دیے گئے عطیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہمارے دلوں میں بھی یہ نیک جذبہ پیدا ہو کہ ہم بعد از وفات اپنی آنکھیں اور اپنے جسم کے دوسرے کار آمد حصے بطور عطیہ دینے کی وصیت کر کے دنیا سے رخصت ہوں۔ہمارے ہاں اس حوالے سے آگاہی کی ضرورت ہے‘ اور ایک بار لوگوں کو اگر اس عطیے کی اہمیت کا یقین دلا دیا جائے تو یقیناعوام نیکی کے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ لاکھوں برطانوی شہریوں کی طرح کالم نگار بھی جب بھی گھر سے باہر جاتا ہے تو آنکھیں اور تمام کارآمد جسمانی اعضا کو (قبل از تدفین) بطور عطیہ نکال کر محفوظ کر لینے کا اجازت نامہ (Donor Card) ہمیشہ اُس کی جیب میں ہوتا ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ یہی عطیہ میری بخشش کا باعث بن جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں