Thomas Becket

29دسمبر1170ء کوCanterbury Cathedralمیں بادشاہ ہنری دوئم کے حکم پرچار شاہی منظور نظر نوابوں (Knights)نے آرچ بشپ Thomas Becket کوقتل کر دیا۔ اس قتل نے اُسے نہ صرف برطانوی بلکہ یورپی عوام کی نظروں میں شہادت کا درجہ دے دیا۔ ساڑھے آٹھ سو سال گزر چکے ہیں لیکن لندن سے پچاس میل دور جنوب مشرق میں واقع کنٹربری شہر میں اس گرجا گھر کی زیارت کرنے والوں کی قطار کی لمبائی میں فرق نہیں آیا۔
Thomas Becketکے والدین کا تعلق خوش حال نارمن تارکینِ وطن سے تھا جو لندن میں آباد ہوئے جہاں ٹامس نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ فارغ التحصیل ہو کر وہ Archbishop of Canterbery کے عملے میں شامل ہو گیا۔ اُس نے عبادت گاہوں کے انتظامی اُمور کی نگرانی کے فرائض اتنے اچھے طریقے سے سرانجام دیے کہ بادشاہ ہنری دوم بھی اُس کے مداحوں میں شامل ہو گیا۔سترہویں صدی میں برطانیہ میں جمہوری دور شرو ع ہوا تو شاہی اقتدار کا مرکزِ ثقل بتدریج بادشاہ اور دارالامرا (House of Lords) سے سرکتا ہوا دارالعوام (House of Commons) میں منتقل ہوتا گیا۔ اس ایوان میں جس کو اراکین کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوتی تھی‘ وہی وزیراعظم بن سکتا تھا۔ وزیراعظم کے عہدے کے ظہور سے پہلے چانسلر بادشاہ کا معتبر خصوصی اور ساری انتظامیہ کا سربراہ ہوتا تھا اور اس عہدہ جلیلہ پر بادشاہ نے Thomas Becketکو 1155ء میں فائز کیا تھا۔ رزم ہو یا بزم‘ سفارتی محاذ سے لے کر میدانِ جنگ تک اس نوجوان نے اپنی خداداد اہلیت کا سکہ منوایا۔ یہ وہ دور تھا جب تختِ برطانیہ اور کلیسا کے درمیان بالا دستی کیلئے کشمکش اور سرد جنگ شروع ہو چکی تھی۔ ٹامس اُس حد تک بادشاہ کا وفادار تھا کہ وہ ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس کئے بغیر بے دریغ اور بے دھڑک کلیسا سے ٹکر لینے اور اُسے نکیل ڈالنے کی کارروائیوں میں پیش پیش تھا۔
Archbishop Theobald بادشاہ کے پہلو میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا‘ اُس کی سبکدوشی کا وقت قریب آیا تو بادشاہ نے اسے غنیمت جانا۔ دو جنوری 1162ء کوٹامس کو ایک عام پادری بنانے کی کارروئی مکمل کی گئی اوراگلے برس کلیسا کے سب سے بڑے عہدے کی دستار اس کے سر پر رکھ دی گئی۔ آرچ بشپ بن کر ٹامس نے بادشاہ سے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس بدلحاظی کا مظاہرہ کیا جو ہماری تاریخ میں1956 ء میں ایوب خاں نے اسکندر مرزا سے کیا اور پھر 1977ء میں ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو سے۔ جس شخص کو بادشاہ اپنا دست ِراست سمجھتا تھا وہی اُس کا بدترین دشمن بن گیا۔ کلیسا نے اپنے دائرہ اختیارات میں شاہی مداخلت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی تو نئے آرچ بشپ نے علم بغاوت اُٹھا لیا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آرچ بشپ پر کتنا زیادہ شاہی عتاب نازل ہوا ہوگا۔ بادشاہ اور نئے آرچ بشپ کے درمیان بقائے باہم سمجھوتہ اور جنگ بندی کی بہت سی کوششیں کی گئیں مگر سب ناکام ہوئیں۔ بادشاہ اپنی اس ضد (راج ہٹ) پر سختی سے قائم تھا کہ وہ کلیسا کی بالا دستی ختم کر کے اُسے اپنے ماتحت بنالے۔ دوسری جانب آرچ بشپ نے سر پر کفن باندھ لیا کہ وہ ہر قیمت پر کلیسا کے صدیوں پرانے دائرہ اختیار کی حفاظت کرے گا۔
1164ء میں بادشاہ اور کلیسا کے درمیان ایک معاہدہ (Constitutions of Clarendon) ہو گیا تو لگتا تھا کہ اب اس مملکت کے بڑے ستونوں کے درمیان صلح ہو جائے گی اور دیرپا امن قائم ہو جائے گا۔ ٹامس نے بادل نخواستہ اس معاہدہ کی کڑوی گولی نگل لی مگر وہ اتنا مضطرب اور بدگمان تھا کہ زیادہ عرصہ خاموش نہ رہ سکا۔ اِسی سال اکتوبر میں بادشاہ نے آرچ بشپ پر شاہی احکامات کی نافرمانی اور ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگا کر مقدمہ دائر کر دیا۔ ٹامس کو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ دشواری نہ ہوئی کہ بادشاہ ہر ممکن طریقے سے اُسے سزا دلوانا چاہتا ہے۔ اُس کے سامنے دو راستے تھے‘ ہتھیار ڈال کر بادشاہ کی بالادستی قبول کر لے یا میدان جنگ سے بھاگ جائے۔ ٹامس نے دوسرا راستہ اختیار کیا‘ بھیس بدل کر فرانس بھاگ گیا اور وہاں سے اٹلی۔ وہ روم جا کر پوپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس سے مدد مانگی۔ پوپ کی سفارش سے ٹامس کی برطانیہ واپسی کا راستہ ہموار ہو گیا مگر چند ماہ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک نئی آفت ٹوٹ پڑی۔ جون1170 میں بادشاہ کی تاج پوشی کا مرحلہ آیا تو اُس نے کنٹربری کے باغی آرچ بشپ کے بجائے یارک کے آرچ بشپ کو بادشاہ سلامت کے سرپر تاج رکھنے کا اعزاز بخشا۔ یہ دیکھ کر ٹامس آگ بگولا ہو گیا اور صبر و تحمل کے کڑوے گھونٹ پی کر انگلستان لوٹ آیا تاکہ اُس کی توہین اور کلیسا کے آداب کی خلاف ورزی کرنے والوں کو مناسب سزا دے سکے۔ نومبر میں اُس نے یارک کے آرچ بشپ اور چند بڑے پادریوں کو کلیسا سے بے آبرو کر کے بے دخل کر دیا۔ ان پادریوں نے بادشاہ کے پاس فریاد کی تو اُس نے ٹامس کو ہلاک کرنے کی ہدایات کا حکم جاری کر دیا۔ 26 دسمبر1170ء کو ٹامس اپنے بڑے گرجا گھر میں عبادت کر رہا تھا جب بادشاہ کے بھیجے ہوئے چار جاگیر دار (Knights) اُس پرٹوٹ پڑے اور اُسے قتل کر دیا۔ تین سال گزرے تو پوپ الیگزینڈر iiiنے اُسے سینٹ کا درجہ دیئے جانے کا سرکاری اعلان جاری کیا۔ ہنری ہشتم کا دور آیا تو مذکورہ بالا ٹامس کو پھر سرکاری زبان کے تحت غدار قرار دے دیا گیا۔ 1518ء میں تحریک اصلاحِ کلیسا اپنے عروج پر تھی تو Thomas Becket کے مزار کو مسمار کر دیا گیا۔
Thomas Becket کے قتل کو 365 سال گزرے تو ایک اور ٹامس برطانوی تاریخ کا حصہ بنا‘ اُس کا پورا نام Sir Thomas More تھا۔ آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ یہ شخص شعبہ قانون میں اپنے باپ کے نقش ِقدم پر چل کر اتنے ہی بلند مقام پر پہنچا۔ یہ ٹامس اتنا بڑا دانشور تھا کہ اُس نے 1516 ء میں تصورات اور سفر نامہ کے امتزاج پر ایک کمال کی کتاب لکھی جس کا عنوان Utopia تھا۔ اس تصنیف کی بدولت وہ برطانوی بادشاہ ہنری ہشتم کا ذاتی دوست بن گیا۔ اپنے پیش رو ٹامس کی طرح وہ بھی لارڈ چانسلر کے بلند ترین عہدہ سے ہوتا ہوا تختہ دار تک پہنچا۔ ہنری ہشتم کے سر پر ایک خبط سوار تھا کہ وہ کیتھرائن سے اپنی ناکام شادی کے قانونی خاتمہ پر کلیسا کی مہر تصدیق ثبت کرالے۔ پہلے لارڈ چانسلر راستے میں رکاوٹ بنا تو 1529ء میں اُسے برطرف کر دیا گیا۔ ٹامس مور اُس کا جانشین بنا مگر اُس کا بھی وہی عبرت ناک حشر ہوا۔ اُس نے بادشاہ کے ساتھ مستقل تصادم سے تنگ آکر 1532ء میں استعفیٰ دے دیا مگر چانسلر کا عہدہ چھوڑ کر بھی اُس کی زندگی نہ بچ سکی۔ تین سال بعدTower of London (جو وسطی لندن میں میرے دفتر کے پڑوس میں ہے) میں اس عالی مقام قیدی کا سر قلم کر دیا گیا۔ 
آج کا کالم برطانوی تاریخ کے دو اہم کرداروں کا مختصر تعارف کرانے میں صرف ہو گیا۔ اس تحریر کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ قوموں کی تاریخ کی راہ میں نہ پھول بکھرے ہوتے ہیں اور نہ تاروں کی کہکشاں۔ وہ تیز دھار کانٹوں‘سنگلاح پتھروں‘ گہری دلدلوں اور خوفناک گردابوں سے مرتب ہوتے ہیں۔ 73 سال گزر جانے کے بعد ہمارے قومی اُفق پر اس وقت مایوسی‘ نااُمیدی‘ بددلی اور شکستہ دلی چھائی ہوئی ہے‘ مگر یقین جانیے کہ ہمارا مستقبل بھی روشن ہے۔ تابندہ اور جگمگاتا ہوا۔ آیئے ہم مل کر اپنے فرسودہ اور عوام دشمن نظام میں وہ سب انقلابی تبدیلیاں لائیں جن کا سعد رسول صاحب نے اپنے 29 نومبر کے قابل صد تعریف کالم میں ذکر کیا تھا۔ پاکستان بچائو انقلابی تبدیلیوں کی بدولت ہم روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھا سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں