کوہ ہمالیہ سے کوہ قاف تک

آپ جانتے ہیں کہ پختونخوا کے شمال میں وادیٔ چترال ہے اور اُس کے شمال میں وادیٔ کیلاش۔ پاکستانی اور غیر ملکی سیاحوں کے پسندیدہ مقامات میں سرفہرست۔ ہندو کش کے برف پوش پہاڑوں میں گھری ہوئی‘ پھلدار درختوں اور پھولوں سے بھری ہوئی‘ سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ بلند‘ تہذیبی طور پر دو جداگانہ وحدتوں میں تقسیم‘ ایک میں Rumburاور Bumburet کی دو وادیاں ہیں اور دوسری میں Birirنام کی ایک وادی۔ ان تین وادیوں میں رہنے والوں کی اپنی اپنی زبانیں ہیں مگر ان کی مشترک ایک ایسی قدیم تہذیب اور ثقافت ہے جو فقید المثال ہے اور جو یقینا صدیوں قبل مسیح معرض وجود میں آئی۔ یہاں رہنے والوں کے عقائد کی جڑیں اس قدیم ہندودھرم میں ہیں جس کے پیرو کار دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں ملتے۔ وہ سال میں تین میلے بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں‘ وسط مئی میں Zhoshi(موسم بہار کی آمد پر دیوتائوں کے شکریہ کی ادائیگی) وسط اگست میںUchaw(انگور اور دوسرے پھلوں کے پک جانے پر دیوتائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ان کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنے کیلئے) اور وسط دسمبر میں Chawmos ۔ یہ پندہ روزہ میلہ سات سے 22 دسمبر تک جاری رہتا ہے۔ یہ نئے سال کے استقبال کیلئے منایا جاتا ہے۔ رقص و سرود کی محفلیں سجائی جاتی ہیں جن میں بچے‘ بوڑھے‘ جوان ‘ مرد اور عورتیں بھرپور طریقے سے حصہ لیتے ہیں۔ کیلاش وادی شمالی پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے مگر سرحد کے پار چین کی سرزمین پر ایک پہاڑی سلسلے میں سب سے اُونچی پہاڑی کا نام کیلاش ہے جس کا مطلب ہے بہت بلند۔راستہ اتنا دشوار کہ آج تک کوئی کوہ پیما اس کی چوٹی تک نہیں پہنچ سکا۔
گزرے ہوئے سال کی آخری دوپہر کے وقت برفانی بارش تھمی‘ بادل چھٹے اور دھوپ نکلی تو کالم نگار نے اسے غنیمت جانا اور جھٹ پٹ سیر کے لیے نکلا۔ دریائے ٹیمنر کے کنارےGreenwichکے خوبصورت پارکوں میں گھومنے سے پہلے میں نے راستے میں آنے والی دکانوں میں تانک جھانک کی۔ آپ میری حیرت اور خوشی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک اخبار فروش کی دکان کے باہر (مگر شیشوں کے اندر) جو اخبار سب سے نمایاں تھا اُس کا نام تھا نیویارک ٹائمز اور اُس کے سر ورق پر جلی حروف میں پاکستان اور کیلاش کے الفاظ نے مجھے اپنی طرف مقناطیسی کشش سے کھینچ لیا۔ اخبار ایک دن پرانا تھا مگر وہ میرا حوصلہ پست نہ کر سکا۔ میں دکان کے اندر گیا اور ڈھائی پائونڈادا کر کے اخبار خرید لیا۔ یاد نہیں پڑتا کہ میں نے زندگی میں کبھی اس سے مہنگا اخبار خریدا ہو۔ وادی ٔ کیلاش میں سالِ نو کے جشن ‘جو Bal an Curuنامی گائوں میں منایا جا رہا تھا‘ کی تصویریں اور جشن کی مسحور کن تفصیلات پہلے صفحے سے ہوتی ہوئی دوسرے صفحہ کے چوتھائی حصے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ 
نیویارک ٹائمز کی نامہ نگار کیلاش قبیلے کے سالِ نو کے شاندار جشن میں خود شریک ہوئی۔ اُس نے نوجوانوں کے رقص کو اتنے ذوق و شوق سے دیکھا کہ ساری رات ایک پل نہ سوئی۔ اس نے رقص کی جوتصویر اُتاری وہی نیویارک ٹائمز کے صفحہ اول کی زینت بنی۔ اس اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اب وادیٔ کافرستان میں آباد کیلاش قبیلہ کے افراد کی تعداد گھٹتے گھٹتے صرف چار ہزار رہ گئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق کیلاش کے لوگ اُن سپاہیوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو قبل مسیح سکندراعظم کی فوج کا حصہ تھے اور آج کے شمالی پاکستان پر حملہ آور ہوئے تھے۔ فوج کا بڑا حصہ تو اپنے سپہ سالار کی ساتھ واپس چلا گیا (اگرچہ سکندر کو اپنے آبائی وطن مقدونیہ دوبارہ جانا نصیب نہ ہوا) کیلاش کے مذہبی عقائد کے ماہرین نے بغور جائزہ لینے کے بعد ہمیں بتایا ہے کہ وہ ہندو مت کے اولین اور قدیم ترین عقائد سے مرتب ہوئے ہیں۔
کیلاش لوگوں کی جو قابل ذکرخصوصیات ہیں اُن میں سب سے نمایاں صفائی اور طہارت کی طرف غیر معمولی توجہ دینا ہے۔ سالِ نو کا تہوار شروع ہونے سے پہلے سب بالغ خواتین کو ایک خصوصی عبادت گاہ (Estekan) میں جا کر برفانی پانی سے نہانا پڑتا ہے۔ اس غسل کے بعد خواتین وہ روٹی کھاتی ہیں جو اُن کے گھرانے کے مردوں نے پکائی ہوتی ہیں۔ رقص جلتی ہوئی آگ کے الائو کے گرد کیا جاتا ہے۔ جوں جوں رات گزرتی ہے رقص کرنے والوں کا دائرہ بڑا ہوتا جاتا ہے۔ رقص کرنے والوں کی رفتار تیز تر اور گیت گانے والوں کی آواز بلند تر ہوتی جاتی ہے۔
آیئے! اب ہم اس 14 روزہ جشن میں شرکت کا خواب دیکھتے ہوئے شمال کی طرف اپنا سفر جاری رکھیں اور Caspian Sea کے کنارے کوہ قاف پہنچ جائیں اور داغستان (جس کے قومی شاعر رسول حمزا توف کے افکار کو فیض صاحب نے اُردو اشعار کے سانچے میں ڈھالا اور اپنے ایک مجموعہ کلام ''سرِوادی سینا‘‘ کا حصہ بنایا) پہنچ جائیں۔ داغستان کے مشرق میں ریاست چیچنیا روس کا حصہ ہے‘سرکاری نام کے مطابق یہ Republic کہلاتی ہے اور آئینی اعتبار سے خود مختار ہے۔ دارالحکومت کا نام گروزنی ہے۔ 1934ء میں اس خطۂ زمین پر سوویت یونین کے آمر مطلق جوزف سٹالن کا عتاب نازل ہوا۔ اُس نے اس ریاست کا قانونی تشخص ختم کر دیا اور اس کی ساری آبادی کو وہاں سے زبردستی نکال کر روس کے دوسرے حصوں میں آباد کر دیا۔ 1957 ء میں موسم خزاں بہار میں تبدیل ہوا تو اس ریاست کے باشندوں کے دن پھرے اور یہ ریاست پھر معرضِ وجود میں آئی۔ 1997 ء میں اس ریاست نے روس سے آزادی کااعلان کر کے روس کے خلاف فوجی مزاحمت شروع کر دی۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ ایک خون ریز اور خو فناک خانہ جنگی کی صورت میں نکلا جو تقریباً آٹھ سال تک جاری رہی۔ چیچنیا کے لوگوں کی بے مثال بہادری ضرب المثل بن گئی مگر وہ اپنے سے ہزاروں گنا بڑے اور زیادہ باوسائل Super Power کو شکست نہ دے سکے اور باعزت امن معاہدے کی شرائط طے کر کے روس کا حصہ بن جانے پر رضا مند ہو گئے۔ موجودہ حکمران کے نام کا پہلا حصہ تو جانا پہچانا ہے اور وہ ہے رمضان۔ دوسرا لفظ Kadroy(لگتا ہے کہ یہ لفظ قادر کی کوئی شکل ہے)۔ آپ یہ پڑھ کر ضرور حیران ہوں گے کہ اس خطے میں 346سڑکوں کو Kadroyگھرانے کے افراد کے ناموں سے منسوب کیا گیا ہے۔ صرف سڑکوں پر موقوف نہیں سرکاری عمارتوں کے نام رکھتے وقت صدرِ مملکت کے والد محرم (جو 2000 ء میں صدر بنے اور دو سال بعد قتل کر دیے گئے) کے نام کو ترجیح دی جاتی ہے۔ روس کی مالی امداد اور سرپرستی سے نئی عمارتیں تیزی سے بن رہی ہیں مگر جب اُن کے نام رکھنے کی باری آتی ہے تو حکومت کو Kadroy کے علاوہ اور کوئی نام نہیں سوجھتا۔ صدرِمملکت بارہ بچوں کے باپ ہیں۔ کھیلوںکا ایک نیا سٹیڈیم بنا تو صدر کے پندرہ سالہ بیٹے کا نام کام آیا۔ ابھی اور بہت سی عمارتیں بنیں گی تو باقی ماندہ گیارہ بچوں کی بھی باری ضرور آجائے گی۔ یہ سطور پڑھنے والے اس لطیفے پر محظوظ ہونے کا حق رکھتے ہیں مگر یہ نہ بھولیں کہ طویل خانہ جنگی نے کوہ قاف کے رکھوالوں کو جہاد کرتے ہوئے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کمال بہادری سے لڑنے کا گُر سکھا دیاہے۔ صدیوں قبل اندلس کے میدان میں طارق نے جو دعا مانگی تھی اُسے اقبال نے بال جبریل میں منظوم کر دیا۔ آج کے کالم کے آخر میں اس نظم کے پہلے دو اشعار کی صورت میں چیچنیا کے مجاہدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ؎ 
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں