آج کے دن کیا ہوا؟

وسط جنوری کی ایک صبح کالم نگار برفباری میں سیر کرنے نکلا تو اس کے دماغ میں ایک اچھوتا خیال بجلی کی طرح کوندا۔ کیوں نہ کالم نگاری میں ایک نیا تجربہ کیا جائے ا ور وہ ہے انسانی تاریخ کے ایک منتخب دن نظر آنے والے سنگ میل کا مختصر تذکرہ۔ بسم اللہ ہم دو فروری سے کرتے ہیں۔ حسن اتفاق سے انسانی تاریخ کے دو سب سے عہد ساز واقعات دو فروری کو ایک ہی ملک میں رونما ہوئے اور وہ ملک تھا سوویت یونین (روس کا پیش رو) پہلا واقعہ دوفروری 1943ء کو اور دوسرا دو فروری 1989 ء کو پیش آیا۔ چشم فلک نے دوسری جنگ عظیم کا سب سے بڑا جنگی معرکہ روس کے جس شہر میں دیکھا اُس کا نام تھا سٹالن گراڈ۔ جرمن فوج نے اپنے جارحانہ حملے اور سٹالن گراڈ پر قبضہ کی کوشش میں برُی طرح ناکام ہو کر ہتھیار ڈال دینے کی پیشکش کی تو ساری جنگ کا رُخ بدل گیا۔سٹالن گراڈ کی جنگ میں پانسہ پلٹ جانے سے جرمنی کی شکست اور اتحادیوں (جن میں سوویت یونین سرفہرست تھا) کی کامیابی نوشتہ دیوار بن گئی۔ سٹالن گراڈ کی تاریخی جنگ تقریباً ایک سال (1942-43ء)جاری رہی۔ جرمنی کی Gth Army (جنرل Paulus کی قیادت میں) یوکرائن اور روس کے وسیع علاقوں پر قابض ہوتی ہوئی دریائے Rulgaکے کنارے کلیدی اہمیت کے شہر سٹالن گراڈ پہنچ گئی اور شہر کا محاصرہ کر کے اس پر دن رات اندھا دھند بمباری اور توپوں سے گولہ باری شروع کر دی۔ سوویت یونین کے حکمران سٹالن نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ شہر کے ہر محلہ اور ہر محلہ کے ہر مکان کی حفاظت کیلئے جان لڑا دے۔روسی فوج نے یہی کیا۔ جرمن فوج کے تین لاکھ تیس ہزار فوجی ہلاک ہوئے اور روسی فوج کے اس سے تین گنا زیادہ۔ خوراک ختم ہوگئی تو روسی فوج نے مردہ جانوروں کا گوشت کھالیا مگر مزاحمت جاری رکھی۔ کالم نگار کو فخر ہے کہ وہ برسوں قبل سوویت یونین گیا تو اُس نے سٹالن گراڈ کی حفاظت کرنے والوں اور جان کی قربانی دینے والوں اور ایک بدترین فسطائی قوت کو شکست دینے والوں کی یادگار پر حاضری دی‘ پھول رکھے اور شہدا کی بہادری کو سلام کیا۔ مگر 46 سال بعد دو فروری 1989 ء کو روسی فوج کا آخری سپاہی (روس کی جنگی شکست تسلیم کرتے ہوئے) افغانستان سے نکلا تواس پسپائی پر روسی فوج نے سکھ کا سانس لیا کہ جان ہے تو جہان ہے۔ جیسے مئی/ جون1940 ء میں Dunkirkکی بندرگاہ سے برطانوی فوج کمانڈر اپنے تین لاکھ تین ہزار فوجیوں کو خیرخیریت سے برطانیہ لے آنے پر خوش ہوئی اور وہ بھی کئی ہزاروں چھوٹی کشتیوں کو استعمال کر کے جو اہل ِبرطانیہ رود بارِانگلستان میں سیر کرنے یا شوقیہ مچھلیاں پکڑنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
افغانستان میں روسی فوج دسمبر1979 ء کو داخل ہوئی اور دو فروری 1989 ء (دس سال بعد) باہر نکل گئی۔ مناسب ہوگا کہ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو خراج عقیدت پیش کیا جائے جنہوں نے قومی اتفاق رائے (جس کے بغیر کوئی بڑا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا) پیدا کرنے کیلئے پہلے گول میز کانفرنس بلائی اور اپنے باس صدر مملکت جنرل ضیاء الحق کی شدید ناراضی کی پروا نہ کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی اور پھر ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف جنرل ضیا الحق کی پرُزور مخالفت کے باوجود مئی 1988ء میں جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیا اور روس کے ساتھ وہ تاریخی معاہدہ کیا جس کی رُوسے روس اپنی فوج کو افغانستان سے نکالنے پر رضامند ہو گیا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق سے ان دو بڑے صدمات کو برداشت کرنا کتنا مشکل کام ہوگا کہ رہی سہی کسر جونیجو صاحب کے اس اعلان نے پوری کر دی کہ وہ اوجھڑی کیمپ دھماکہ (جس میں سینکڑوں قیمتی جانیں گئیں اور کروڑوں ڈالرز کا اسلحہ ضائع ہوا) کی انکوائری کرائیں گے (غالباً جوڈیشنل کمیشن کے ذریعہ) ایک طرف روسی فوج افغانستان سے نکلی اور دوسری طرف جونیجو صاحب ایوانِ اقتدار سے فرق یہ تھا کہ روسی فوج کا سرجھکا ہوا تھا اور جونیجو صاحب کا سر بلند تھا۔
دو فروری1665 ء تقریباً345 سال پہلے شمالی امریکہ میں ولندیزی (Dutch)حکومت کی زیر تسلط بندرگاہNew Amsterdam میں لنگرانداز اور ولندیزی بحریہ اور بیرکوں میں آرام کرتی ہوئی ولندیزی فوج پر برطانوی بحریہ نے بلاجواز اور بلا اشتعال شدید گولہ باری کی جس سے ولندیزی گورنر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گیا۔ فاتح برطانوی بحریہ نے اس بندرگاہ کا نام بدل کر برطانوی شہزادے ڈیوک آف یارک کے اعزاز میں نیو یارک رکھ دیا۔ ڈیوک آف یارک برطانیہ کے بادشاہ کا چھوٹا بھائی تھا۔ 1626 ء میں ولندیزی حکومت کے نمائندوں نے یہ بندرگاہ وہاں رہنے والے مقامی باشندوں (عرف عام میں Indians ) سے دس ڈالروں کی حقیر رقم کے عوض خریدی تھی۔ دو فروری 1972ء کو آئر لینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں غضبناک مظاہرین نے برطانوی سفارت خانہ کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ وہ ایک ہفتہ پہلے شمالی آئر لینڈ (جو برطانیہ کا حصہ ہے) کے شہرLondonderryمیں احتجاج کرنے والے کیتھولک مظاہرین پر برطانوی فوج کے گولی چلا کر 13 نوجوانوں کو ہلاک اور 17 کو شدید زخمی کرنے کی کارروائی پر اپنا غم و غصہ ظاہر کر رہے تھے۔ آگ لگانے والوں نے فائر بریگیڈ کو شعلوں میں لپٹی ہوئی سفارت خانے کی عمارت تک پہنچنے سے رکاوٹیں لگا کر روک دیا۔
جنوبی (لاطینی) امریکہ کے ایک چھوٹے ملک کا نام پیراگوائے (Paraguay) ہے۔ دو فروری 1989 ء کو ایک افسر Gen. Rodriguesنے اُس ملک پر 35 سال سے حکومت کرنے والے اور مسلسل آٹھ صدارتی انتخابات جیتنے والے آمر مطلق Gen. Stroeessnerکا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ ساری کارروائی میں کوئی خون خرابہ نہ ہوا۔ معزول کر دیئے جانے والے حکمران کی شہرت اس وجہ سے بڑی داغدار تھی کہ اُس نے ہٹلر کے کئی نازی ساتھیوں کو (جو جان بچانے کیلئے جرمنی سے فرار ہو گئے تھے) اپنے ملک میں پناہ دے رکھی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب پناہ دینے والا خود زیر عتاب آیا تو اُس کے پروں کے نیچے چھپے ہوئے جرمن کسی اور محفوظ ملک میں پناہ کی تلاش میں ایک بار پھر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے۔ اُن کا مسئلہ یہ ہوگا کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ زمین سخت ہے اور آسمان دُور۔ یہ بات تو صرف 32 سال پرانی ہے۔ آیئے ہم دو فروری 1468ء(552 سال پہلے) کو شائع ہونے والا خبرنامہ پڑھیں۔ اُس دن Gutenbragفوت ہوا۔ نہ صرف مفلوک الحال بلکہ بینائی جیسی سب سے بڑی نعمت سے محروم اور بالکل گمنام۔ ایک جرمن شہر Mainz کا رہنے والا‘ پیشے کے اعتبار سے سُنار۔ عصر حاضر میں اشاعت کے دور کو شروع کرنے کا سہرا اُس کے سر باندھا جاتا ہے چونکہ اُس نے Letter Pressکے ذریعہ پرنٹنگ اور Oil- basedسیاہی ایجاد کی۔ اُس نے اپنے ایک دوست ( Fust) سے رقم ادھار مانگی تاکہ وہ Movable Typeکو Lead میں ڈھال کر اپنی ایجاد کردہ مشین کو کارآمد بنا سکے۔ بدقسمتی سے وہ ادھار کی رقم واپس نہ کر سکا اور اپنی ساری جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ Fust کی لاٹری نکل آئی۔ اُس نے انجیل مقدس کو بڑے پیمانے پر چھاپ کر بڑی دولت کمائی۔ بے چارےGutenbragکا نہ کہیں جنازہ اُٹھا اور نہ کہیں مزار بنا۔ گمنامی اور بے کسی کی حالت میں وفات پانے کے بعد غرقِ دریا ہونا ہر گز ضروری نہیں۔ یہ دعا غالب نے مانگی تھی مگر پوری اس جرمن موجد کی ہوئی۔ دو فروری 1969 ء کو یاسر عرفات فلسطینی تنظیم ( PLO ) کے پہلی بار صدر بن کر مشرق وسطیٰ کے سیاسی اُفق پر اُبھرے۔ بدقسمتی سے یاسر عرفات فلسطینیوں کیلئے وہی ثابت ہوئے جو کشمیریوں کیلئے شیخ عبداللہ۔ بقول اقبال:ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں