اندھے اور بہرے حکمران

میرے ساتھی کالم نگار انجم فاروق نے گیارہ جنوری کو اپنے کالم میں یہ شکایت کی اور بجا طور پر کی کہ حکمران اُونچا سنتے ہیں تو کیوں ؟ ہر سطح پرا نہیں دکھوں کے شکار عوام کی آہیں اور سسکیاں کیوں سنائی نہیں دیتیں؟ آج کے اس کالم کے مندرجات کا قصہ اس بیانیہ کو آگے بڑھانا ہے۔مذکورہ کالم نگار کو صرف حکمرانوں کی سماعت میں خرابی نظر آئی‘ وہ ذرا غور سے دیکھتے تو انہیں ضرور پتہ چل جاتا کہ جس طبقے کی وہ شکایت کر رہے ہیں وہ صرف سماعت سے نہیں بصارت سے بھی محروم ہے۔کالم نگار نے اپنے موقف کی تائید میں غیر ملکی حکمرانوں‘ حملہ آوروں‘ آمروں‘ بادشاہوں او رمطلق العنان سربراہان مملکت کی مثالیں دیں۔ ان کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر یہ آدھا سچا ہے۔ حقِ حکمرانی کو غصب کرنے اور اسے عوامی مفاد کی خاطر استعمال کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ سچ کی اکائی کا دوسرا حصہ ہے۔ میں بطور مسلمان نہیں بلکہ تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت میں دیانتداری سے کہہ سکتا ہوں کہ چودہ سو برس پہلے ریاست مدینہ میں اور پھر خلفائے راشدین اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے حکمرانی کے جو بے حد شاندار اورقابلِ فخر عملی مظاہرے کئے وہ عوام دوست حکمرانی کے کڑے سے کڑے معیار پر پورا اُترتے ہیں۔ وہ حکمران دیکھتے بھی تھے‘ سنتے بھی تھے اور محسوس بھی کرتے تھے۔ انسان تو انسان وہ اپنے آپ کو دجلہ کے کنارے کتے کی فلاح و بہبود کا ذمہ دار بھی سمجھتے تھے۔ اُن ادوار کو جمع کیا جانے یہ قریب نصف صدی بنتے ہیں‘اور اس کے مقابلے میں چودہ صدیوں پر پھیلا ہوا اندھیرا‘عوام دشمن حکمران‘ ظلم و استبداد‘ استحصال اور لوٹ مار۔ نہ انصاف نہ مساوات‘ نہ شہری آزادیاں نہ قانون کی حکمرانی۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک سلطنت عثمانیہ ‘ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور ان سے پہلی مسلم سلاطین کی سلطنتوں کا طویل سلسلہ۔ دوسری جانب انقلاب فرانس تک یورپ کی جنوبی امریکہ‘ افریقہ اور ایشیا میں نو آبادیات جن پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ انیسویں صدی کے آخر تک کئی لاکھوں افریقی غلاموں کی تجارت اور اُن کی شمالی امریکہ اور جزائر برطانیہ میں بزورِ شمشیر میں آبادکاری اور جبری مشقت۔ روس میں لاکھوں کسانوں کو Serf(کھیت مزدور‘ غلام)کا درجہ دے کر اُن سے کئی صدیاں بیگار میں غیر انسانی محنت مزدوری کا نظام۔ دو ہزار سال پر پھیلی ہوئی تاریخ میں چین کے کاشتکاروں اور مزدوروں کی حالتِ زار۔ ہم ہزاروں سال کی تاریخ کی طرف مڑ کر دیکھیں تو ناقابلِ بیان ظلم و ستم کے اندھیرے میں روشنی کے صرف چند چراغ ٹمٹاتے ہیں۔ انقلاب ِفرانس (1789ء ) نے یورپ کی کایا پلٹ دی۔ روس میں اشتراکی انقلاب (1917ء ) چین میں اشتراکی انقلاب (1969ء ) ویتنام میں جمہوری انقلاب (1945ء ) کیوبا میں اشتراکی انقلاب (956 1ئ) ایران میں اسلامی انقلاب (1979ء )۔
مصر میں فرعونوں کی ڈھائی ہزار سالہ حکومت (3000 ہزار قبل مسیح لے کر 525 قبل مسیح تک) جن چار ستونوں پر قائم تھی وہ تھے ظلم و تشدد‘ بربریت‘ مطلق العنانی اور غلاموں سے بیگار۔بقول غالب نمرود کی خدائی ہو تو بندگی میں بھی انسانوں کا بھلا نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ یورپ میں پہلے تحریکِ اصلاحِ کلیسا‘ پھر نشاۃ ثانیہ (جس میں جدید علوم کی روشنی پھیلی) پھر صنعتی انقلاب نے انیسویں صدی میں سلطانیٔ جمہورکا پودا لگایا اور گزری ہوئی ڈیڑھ صدی میں اس کی جڑیں دور دور تک پھیل چکی ہیں۔ عوام کے نمائندوں کو حقِ حکمرانی ملا تو اُنہوں نے اسے مقدم فرض جانا اور اپنی بصارت اور سماعت دونوں کو اتنا بہتر بنایا کہ اب وہ عوام کی چھوٹی سے چھوٹی شکایت سن سکتے ہیں اور سن لیتے ہیں۔ عوام کی معمولی سے معمولی تکلیف کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں اور جلد از جلد اس کے تدارک کا اہتمام کرتے ہیں۔ یورپ کے ہر ملک میں اور امریکہ کی ہر ریاست (جو وفاقی نظام کے تحت خود مختار ہے) میں عوام کی اکثریت کی تائید کی بدولت حکمرانوں کا ہاتھ ہر وقت عوام کی نبض پر ہوتا ہے۔عوام کی طبیعت میں معمولی سا اونچ نیچ ہو توایوانِ اقتدار میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ برطانیہ میں 54 سالہ قیام کے دوران مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہاں کا نظامِ حکومت اور طرزِ حکمرانی ہے۔ یہاں کے حکمرانوں کی عوام دوستی کی مثالیں بیان کرنے کیلئے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔ انسان تو ایک طرف رہے کہ مغرب کے سیاسی فلسفہ کے مطابق وہ اقتدار کا چشمہ ہیں‘ یو رپ اور امریکہ میں جانوروں ‘ پرندوں‘ درختوں‘ پودوں‘ ہریالی‘ آب و ہوا‘ عمارتوں‘ دریائوں‘ جھیلوں اور سمندروں تک کی اتنی توجہ سے نگہداشت کی جاتی ہے جس طرح ہمارے ملک کے ہر گھرانے میں ماں اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے ۔
ہمارے کالم نگار دوست شکایت کرتے ہیں کہ حکمران کو اونچا سنائی دیتا ہے یا حکمران کا تخت اتنی بلندی پر ہوتا ہے اور اُس کے محل کی دیواریں اتنی اُونچی ہوتی ہیں اور دیواروں میں لگی ہوئی اینٹوں کا حجم اتنا بڑا ہوتا ہے کہ حکمران چاہے بھی تو عوام کی طرف سے بلند کردہ شکوہ و شکایت کے دائرہ سماعت سے باہر ہو جاتا ہے۔ اس بیانیہ کی صداقت سے انکار ممکن نہیں مگرجو حکمران اندھا ہے یا بہرہ وہ تو حکمرانی کے پہلے امتحان میں ہی فیل ہو گیا۔ قابلیت‘ دیانت‘ صداقت‘ امانت‘ شجاعت اور امامت کیلئے موزونیت اورمناسب کڑے امتحانات کی باری تو بعد میں آتی ہے۔ عوامی مفاد کو جزوِ ایمان بنا لینے کی طرح عشق کے اور بھی امتحان ہیں۔ انقلابِ روس اور صرف 32 سال بعد انقلابِ چین نے یورپ کی کایا بھی پلٹ دی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فلاحی مملکت کا خواب جیتی جاگتی حقیقت بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ فلاحی مملکت کے افق اور وسیع ہوئے۔ اس کے معانی میں زیادہ وسعت اور زیادہ گہرائی آئی۔ بقول اقبالؔ دنیا کے غریبوں اور افتادِ گان خاک کے جاگنے سے کاخِ اُمرا کے درو دیوار ہلنے لگے۔ طبقاتی جدوجہد نے غلاموں کا لہو سر زمین پر گرمایا تو یہ معجزہ رونما ہوا کہ کنجشک( مظلوم‘ کچلا ہوا‘ بے وسیلہ‘ بے آواز‘ پسماندہ‘ خاک ِراہ میں رزق ڈھونڈنے والا محنت کش طبقہ )میدانِ جنگ میں اُترا تاکہ شاہین (استحصالی طبقے) سے لڑ کر اپنا حق چھین سکے۔پھر سلطانیٔ جمہور کا زمانہ آیا تو یہ استحصالی طبقہ نقشِ کہن لگنے لگا۔ اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دینے کا عمل شروع ہو گیاجو دہقان کو روزی میسر نہیں کرتا تھا۔ پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دیا گیا تو خالق و مخلوق میں حائل پردے بھی اُٹھ گئے۔ اقبال نے خواجہ (حکمران طبقے) کی بلند بامی (مراعات کی فراوانی) اور عام آدمی کی کوچہ گردی دیکھی تو خدا سے دعا مانگی کہ وہ فرشتوں کے نام وہ فرمان جاری کرے جو نظم کی سطور میں بشر کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ کالم نگار کو یہ سچائی بیان کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ 74 سال پہلے اس سرزمین سے برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد جب کالے صاحب کا دورِ حکومت شروع ہوا تو پتا چلا کہ وہ تو گورے اور غیر ملکی حکمرانوں سے بھی زیادہ اُونچا سنتا ہے۔ دماغ میں زیادہ ر عونت ہے۔ لوٹ مار (اور وہ بھی اربوں کی) کے فن میں طاق ہے۔ نہ لیاقت نہ دیانت (جو برطانوی راج میں انڈین سول سروس کا طرہّ امتیاز تھا۔) سانحہ بلدیہ ٹائون ہو یا سانحہ ماڈل ٹائون یا سانحہ ساہیوال ‘ حکمرانوں کی بلا سے۔ اُن کی ایک ہی مصروفیت اور دلچسپی ہے اور وہ ہے اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ایک دوسرے سے الجھنا اور اتنی دیر اور اتنی قوت سے لڑنا کہ وقتاً فوقتاًان سب کو پیچھے دھکیل کر‘ جیلوں میں قید کر کے‘ سزائیں دے کر یا ملک بدر کرکے منظر سے ہٹانا ضروری ہو جائے۔سو باتوں کی ایک بات‘ حکمران اور عوام کے درمیان فاصلہ جتنا زیادہ ہوگا سماعت اتنی ہی متاثر ہوگی‘ اس لئے گائوں‘ شہر‘تحصیل اورضلع کی سطح پر مقامی حکومتیں بنائیں جو زمین سے گھاس کی طرح جڑی ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں