علی گڑھ کی خالہ جان

15 مارچ1899ء کی صبح علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک بورڈنگ ہائوس کے سامنے یکے (تانگہ کی ایک قسم) سے جو نوجوان اُترا اُس کا عجیب و غریب حلیہ دیکھنے والوں کیلئے ''خالہ جان‘‘ کی پھبتی کہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ چھوٹا سا قد‘ لاغر بدن‘ گندی رنگت پر چیچک کے داغ‘ چہرہ پر داڑھی‘ سر پر کلا بتونی ٹوپی‘ پرانی وضع کے چار خانے کا انگرکھا‘ تنگ پاجامہ جس کے پائنچے ٹخنوں سے اُونچے تھے‘ آنکھوں پر عینک‘ ایک ہاتھ میں چھڑی اور ایک ہاتھ میں پاندان۔ اس ہیئت کذائی کو دیکھ کر نووارد کو خالہ جان کا خطاب ملنا مقامِ حیرت نہیں مگر صرف ایک سال گزرا اور اُسی '' خالہ جان‘‘ کو طلبہ اور اساتذہ مولانا کہنے لگے۔ یہ تھے حسرت موہانی۔
حسرتؔ تو اُن کا تخلص تھا ‘نام سید فضل الحسن تھا۔ تین بھائی اور تین بہنیں تھیں جنہوں نے اُتر پردیش میں خاموشی اور گمنامی میںپرُ سکون روایتی زندگیاں گزاریں حیرت ہے کہ اس متوسط طبقے کے گھرانے میں حسرت جیسا کمال کا شخص پیدا ہوا جو اپنی عظمت کے اعتبار سے بیسویں صدی کی ہندوستانی سیاست میں قائد اعظم محمد علی جناح ‘گاندھی جی‘ نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ہم پلہ تھا ۔ 1903 ء میں اُنہوں نے بی اے کا امتحان بڑے اچھے نمبروں میں پاس کیا۔ نہ وکالت کی تعلیم حاصل کی (جو ابتدائی منصوبہ تھا) اور نہ سرکاری افسر بنے؛ اگرچہ آج کل کے اسسٹنٹ کمشنر کے برابرڈپٹی کلکٹر کے عہدے کی پیشکش ہوئی تھی ۔ حسرت نے اُردو معلی کے نام سے اپنا اخبار نکالا اور برٹش راج کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور اگلے 43 سال اس پرچم کو سربلند رکھا۔ باسٹھ بار جیل گئے‘ قیدبامشقت کا عذاب خندہ پیشانی سے سہا اور اعلیٰ درجہ کی شاعری کی۔کالم نگار اپنے محدود مطالعہ کو وسیع بنانے کیلئے اُن شخصیات پر کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا ہے جو اس کے دل و دماغ میں روشنی پھیلاتی ہیں اور خوشبو بھی۔ ان شخصیات میں جو بڑے لوگ شامل ہیں ان کے نام ہیں :محمد علی جناح‘ حسرت موہانی‘ سبھاش چندر بوس‘ سروجنی نائیڈو‘ جمال الدین افغانی‘ عبید اللہ سندھی‘ شاہ ولی اللہ ‘ مسعود کھدر پوش‘ حیدر بخش جتوئی‘ بلھے شاہ‘ علامہ اقبال‘ لینن‘مائوزئے تنگ‘ Rosa Luxumburg ۔ میرے پاس حسرت پر صرف دو کتابیں ہیں‘ ایک نفیس احمد صدیقی جو دہلی ہائی کورٹ میں وکالت کرتے ہیں‘نے لکھی اور دوسری جناب احمد سلیم نے مرتب کی۔ڈاکٹر جعفر احمد صاحب کا بھلا ہو کہ اُن کے ادارئہ مطالعہ پاکستان نے شائع کی۔
حسرت یکم جنوری 1875 ء کو پیدا ہوئے اور 13 مئی 1951 ء کو لکھنؤ میں وفات پائی۔ اپنے روحانی پیر و مرشد جمال میاں فرنگی محلی(جن پر کیمبرج کے عالمی شہرت کے پروفیسر Robinson نے بڑی اچھی کتاب لکھی ہے) کے خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔ احرار کا لفظ حریت سے نکلا ہے جس کا معنی آزادی ہے‘ حسرت کو اُن کی زندگی میں ماسوائے ناقابلِ بیان مشکلات‘ مصائب‘ تکالیف اور آزمائشوں کے کچھ نہ ملا مگر رئیس الاحرار کا خطاب لے کر وہ خالق حقیقی کے پاس گئے۔ اُن سے پوچھا جائے گاکہ ماسوائے انقلاب کا نعرہ بلند کرنے کے آپ نے زندگی میں کیا کمایا؟ جواب ملے گا کہ وہ صرف ایک نعرہ نہیں بت شکن اندازِ فکر بھی ہے‘ زنجیریں توڑنے کا عزم بھی ہے‘ نیا چراغ جلانے کا اعلان بھی ہے‘ اُفق پر عوام دوست روشن ستاروں کی دلیل بھی ہے‘سلطانی جمہور کے زمانہ کی آمد کی گھنٹی بجنے کی پہلی آواز بھی ہے‘ نقشِ کہن مٹانے کی منزل کی طرف پہلا قدم بھی ہے‘ افتادگانِ خاک کے پھٹے پرانے کپڑوں پر صدیوں سے جَمی ہوئی دھول اُتارنے کا آغاز بھی ہے‘ پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھانے کی بسم اللہ بھی ہے‘ کنجشک فرومایہ (مسکین کبوتر) کو بالا دست شاہین سے لڑانے کیلئے طبلِ جنگ پر پہلی ضرب بھی ہے۔ میں یہاں رُک کر اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ مندرجہ بالا سطور کالم نگار کے اپنے ذہن کی پیداوار نہیں‘ حسرت نے پہلے پہل انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا اور کہا کہ یہ ایک نعرہ ہی میرا سرمایہ حیات ہے۔
حسرت فقط ہندوستان کی آزادی نہیں چاہتے تھے بلکہ اتنی بڑی سماجی ‘ اقتصادی اور سیاسی تبدیلی کا خواب دیکھتے تھے جسے بجا طور پر انقلاب کہا جا سکے۔ حسرت بیک وقت تین سیاسی جماعتوں کے رہنما تھے‘ کانگریس‘ کیمونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ۔ حسرت نے کانگرس کے الٰہ آباد میں ہونے والے اجلاس میں ہندوستان کی آزادی کی قرار داد پیش کی تو مہاتما گاندھی کی پریشانی اور شدید اختلاف اور اضطراب جناب سلیمان ندوی نے اپنی کتاب'' یادِ رفتگان‘‘ میں لکھ کر ہمارے فہم و شعور میں اضافہ کیا۔ حسرت کی زندگی کے بہترین سال انگریز کی جیلوں میں گزرگئے۔ 1925 ء میں پہلی کیمونسٹ کانفرنس کا نپور میں ہوئی تو اُس کی صدارت حسرت موہانی نے کی۔ حسرت نے دوبار انگلستان کا دورہ کیا مگر آپ کو بمشکل اعتبار آئے گا کہ حسرت نے روزنامہ زمیندار میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ وہ صرف چار سو روپے خرچ کر کے دہلی سے لندن پہنچ جاتے تھے۔ حسرت جس سادگی اور کفایت شعاری سے سفر کرتے تھے وہ اُن کی درویشانہ زندگی کا طرئہ امتیاز تھا۔ حسرت مقدمات کی سماعت میں بطور ملزم بارہا عدالتوں میںپیش ہوئے۔ جیل سے اُنہیں عدالت اس حالت میں لایا جاتا تھا کہ اُنہوں نے سی کلاس کے قیدیوں کے کپڑے پہنے ہوتے تھے۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں مگر قیدی کے چہرے پر مسکراہٹ۔ حسرت نے حج کی سعادت بھی کئی بار حاصل کی۔پہلی بار گئے تو نہ صرف اپنی بیوی بلکہ شیر خوار بچی کو بھی ساتھ لے گئے۔ ایم این رائے کے لفظوں میں: اگر ہندوستان کی کیمونسٹ پارٹی حسرت کواپنامضبوط لیڈر تسلیم کر لیتی تو مولانا میں بھی ہندوستان کا مائو اور ہوچی منہ بننے کی صلاحیت موجود تھی۔حسرت ہندوستان کو کیمونزم کی وہ صورت عطا کر سکتے تھے جو ہندوستانی قوم کو قابلِ قبول ہوتی۔ حسرت نے اپنے بارے میں ایک شعر لکھ کر گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔
درویشی انقلاب ہے مسلک میرا
صوفی مومن ہوں اشتراکی مسلم
سیاست میں اور شاعری میں تو حسرت نے اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑے مگر وہ زاہد خشک ہر گز نہ تھے بانسری اور ستار بہت عمدہ بجاتے تھے‘ شطرنج بہت اچھی کھیلتے تھے اور بنوٹ (ہندوستان کے ایک قدیم عسکری فن) کے ماہر تھے۔ اصول پسندی‘ روشن ضمیری‘ اپنے سیاسی اور مذہبی عقائد میں پختگی میں دنیا کا کوئی سیاست دان حسرت سے بلند مقام نہیں رکھتا۔
حسرت نے 1950 ء میں آخری حج ادا کیا۔ اس دوران اُنہیں خیال آیا کہ پاکستان ہوتے ہوئے واپس جائیں۔ شاید اُنہیں احساس ہو گیا تھا کہ اپنے خالق کے پاس جانے کا وقت دور نہیں۔ وہ کراچی میں اپنے قریبی اور دور کے تمام رشتہ داروں اور لاہور میں میاں افتخار الدین اور مولانا ظفر علی خان سے ملنے گئے۔ حسرت نے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے پلیٹ فارم سے مکمل آزادی کانعرہ1921 ء میں بلند کیا جو صدا بصحرا ثابت ہوا مگر حسرت پر برطانوی راج کے خلاف بغاوت کے اعلان کا ایک اور مقدمہ درج ہو گیا۔ حسرت جتنی بھی عظیم شخصیت تھے‘ بہرحال انسان تھے۔ ان کی ایک غلطی اُن کے دامن پر واحد داغ ہے۔ 1929 ء میں شاردا بل منظور ہوا تو اُس نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کر دی‘ بدقسمتی سے ہمارے قدامت پسند علما نے اس کی سخت مخالفت کی اور سینکڑوں کی تعداد میں بارہ بارہ برس کی بچیوں کے نکاح پڑھوائے گئے۔ حسرت نے اُن کی حمایت کی اور ایک قابلِ تعریف قانون کی خلاف ورزی کی مہم کے حصہ کے طور پر کم عمربچیوں کے نکاحوں میں خود شرکت کی۔یہ سطور اٹھارہ مئی کو شائع ہورہی ہیں‘ پانچ دن پہلے مولانا حسرت موہانی کا یوم وفات تھا‘ ہم اگر اُنہیں سارا سال نہیں تو کم از کم برسی پر تو یاد کرسکتے ہیں اور جنت میں اُن کے درجات کی بلندی کی دعا مانگ سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں