میرے مستقل مہمان

تعداد چار سے چھ تک ۔نر اور مادہ۔ سردی ہو یا گرمی۔ بارش ہو یا دھوپ۔ بہار ہو یا خزاں۔ لاک ڈائون میں چار سُو پابندی مگر میرے مستقل مہمانوں کی صبح سویرے آمد کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ میزبان رات دیر تک لکھنے پڑھنے کی وجہ سے دیر سے اُٹھے تو مہمانوں کو اپنا منتظر پاتا ہے۔ اتنے سالوں کے بعد اب میرے مہمان میرے گھر کو بجا طور پر اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ غیر حاضر دماغی سے (جو بڑھاپے کے نقصانات میں سرفہرست ہے) مہمانوں کی خدمت میں پیش کی جانے والی خوراک خریدنا بھول جائوں اور ان سے سامنا ہو جائے تو میری شرمندگی کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ میزبان بڑی تیز رفتاری سے بازار (شکر ہے کہ وہ دور نہیں) کی طرف بھاگتا ہے اور خوراک خرید کر اتنی ہی تیزی سے گھر لوٹتا ہے اور دل میں یہ فکر ہوتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہمان ناراض ہو کرچلے گئے ہوں اور کیا معلوم کہ وہ کل آئیں یا نہ آئیں اور روٹھ جائیں۔
کچھ عجب نہیں کہ مذکورہ بالا سطور پڑھ کر میرے ذہین قارئین اس وقت تک جان چکے ہوں کہ ہو نہ ہو میرے مستقل مہمان پرندے ہوں گے اور پرندے بھی وہ جو سب سے زیادہ خوبصورت اور چاہے جانے کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ کبوتروں کے سوا اور کون ہے جو اس معیار پر پورا اُتر سکتا ہے؟ جب میری خدمت گزار اور وفا شعار بیوی کو میرے اُوپر لاٹھی چارج کرنے کیلئے کوئی نیا جواز نہیں ملتا تو وہ مجھے کبوتر بازی کی اخلاقی برائی میں ملوث ہونے کا طعنہ دیتی ہیں۔ وکیل ہونے کا کیا فائدہ اگر میں وقتِ ضرورت خود اپنا دفاع بھی نہ کر سکوں۔ میں اپنے گھر میں اکٹھی کی ہوئی کتابوں کے انبار سے جلدی جلدی وہ کتاب ڈھونڈ لیتا ہوں جس میں علامہ اقبال کی کبوتروں میں گہری دلچسپی کو بیان کیا گیا ہے۔
جس دن لندن کے مغربی مضافات میں ونڈسر کے تاریخی شہر میں شاہی گھرانے کے ذاتی گرجا گھر میں ملکہ برطانیہ کے شوہر Prince Philip (جن کا سرکاری خطاب ڈیوک آف ایڈنبرا تھا) کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں اور سب سے بڑے پادری صاحبان شاہی گھرانے کے 30افراد (قانون کے تحت اُن دنوں برطانیہ میں ہر جنازے میں شرکا کی تعداد پر کڑی پابندی تھی) کے ساتھ آنجہانی فلپ کی روح کے سکون کیلئے رقت آمیز دعائیں مانگ رہے تھے‘ آسمان پر رائل ایئر فورس کی 65طیارے (65اس لیے کہ ملکہ کے شوہر نے 65برس تک اپنے سرکاری فرائض سرانجام دیئے جن میں دوسری جنگِ عظیم میں کئی بحری جنگیں لڑنا بھی شامل تھا) نیچی پرواز کر کے گرجا گھر میں رکھے ہوئے شاہ بلوط کے تابوت میں ابدی نیند سوئے ہوئے شخص کو سلامی دے رہے تھے۔ تابوت سفید پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا اور اُس کے اوپر دو چیزیں رکھی گئی تھیں ‘ایک تھی Royal Navyکی وہ ٹوپی جو فلپ نے پہن کر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر جرمن بحریہ کے خلاف بہادری سے چار سال جنگ لڑی اور دوسری چیز وہ تلوار تھی جو ملکہ کے باپ نے (جو برطانیہ کا بادشاہ تھا) اپنے داماد کو بطور تحفہ دی تھی۔
یہ تو تھا مختصرذکر اُن آخری رسومات کا جو سرکاری طور پر ادا کی گئیں‘ مگر اپنے قارئین کو جو اصل بات بتانا چاہتا ہوں اُس کا تعلق ایک غیر سرکاری کارروائی سے ہے۔ جب رائل ایئر فورس کے 65طیارے مغربی لندن میں North Holtکے ہوائی اڈے سے اُڑے تو برطانیہ کے 65 شہروں کے گھروں سے 650کبوتر بھی ہوا میں اُڑائے گئے (اور یقینا ایئر فورس کے طیاروں سے زیادہ بلندی پر اُڑے)۔ ہر شہر سے دس کبوتروں کے حساب سے یعنی 650سفید براق کبوتر۔ یہ فلائی پاسٹ طیاروں پر بازی لے گیا اور اس نے ثابت کر دیا کہ برطانیہ کے شاہی خاندان کی اتنی گہری جڑیں نہ قانون میں ہیں اور نہ آئین (جو دنیا کا واحد غیر تحریری آئین ہے) میں جتنی برطانوی عوام کے دلوں میں ہیں۔ ماتمی تقریبات میں 650کبوتروں کی شرکت کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ پرنس فلپ نے (اپنی بیوی ملکہ برطانیہ کی طرح)خود بھی کبوتر پال رکھے تھے جنہیں Sandrimghamکے شاہی محل میں رکھا جاتا تھا۔ پرنس فلپ کی روح یہ جان کر خوش ہوئی ہو گی کہ اُن کے ذاتی دس کبوتروں نے دوسرے 640 کبوتروں کی قیادت کی۔ وہی سب سے پہلے اُڑائے گئے اور پرواز کے اختتام پر سب سے آخر میں اپنے شاہی مسکن کی طرف لوٹے۔ شاہی خاندان کے پاس یقینا سارے کبوتر بہت عمدہ نسل کے ہیں مگر سب سے ممتاز کبوتر کا نام Royal Blueہے۔ دوسری جنگ ِعظیم میں ہزار وں کبوتروں کو بھرتی کیا گیا تاکہ وہ میدانِ جنگ میں پیغام رسانی کا بے حد ضروری فریضہ سرانجام دے سکیں۔ ایک کبوترنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں اتنی احسن کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ اُسے سپہ سالار نےDicken Medalدیا۔ یہ تمغہ اس کبوتر کی گردن کے گرد ایک سنہرے فیتے سے باندھا گیا تو وہ مجسم انکساری بنا ہوا کیمرے کے بجائے اُس آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا جس میں اُس نے برستی ہوئی گولیوں میں کمالات دکھائے تھے۔ جانوروں اور پرندوں کو دیے جانے والے تمغہ (Dicken Medal) کی وہی اہمیت ہے جو بہادری کے سب سے بڑے اعزاز وکٹوریہ کراس کی۔
برطانوی شاہی خاندان کے محلات میں کبوتروں کا جم غفیر1886ء سے رہتا ہے۔ اس کا سہرا بلجیم کے بادشاہ Leopold II کو جاتا ہے۔ ملکہ برطانیہ (وکٹوریہ) اُس کی چچا زاد بہن تھیں۔ اُس نے جو کبوتر بطورِ تحفہ ملکہ وکٹوریہ کو دیے‘ وہ بہترین نسل کے تھے۔ اُنیسویں صدی میں بلجیم کبوتروں کی تیز پروازی کے مقابلوں میں یورپ میں سب کا سردار تھا۔ کالم نگارنے بڑی تحقیق سے پتا چلایا ہے اس لئے آپ اس کے لکھے ہوئے کو سچ جانیں کہ 1200سال قبل مسیح (آخری دو الفاظ توجہ طلب ہیں) میں ایک کبوتر نے اُس وقت کے فرعون (Ramses III)کو دریائے نیل میں آنے والے سیلاب کی تفصیل کا رقعہ بحفاظت پہنچایا۔ قدیم عربی ادب میں کبوتروں کو 'بادشاہوں کے پیغام رساں‘ کے اسم صفت سے بیان کیا گیا۔ ایک برطانوی بادشاہ (ایڈورڈ ہفتم) نہ صرف کبوتر پالتا تھا بلکہ ان کی پروازوں کے مقابلے میں سنجیدگی سے حصہ لیتا تھا۔ کبوتروں کی ایک مشہور پروازمیں شاہی کبوتر کو جو نمبر الاٹ کیا گیا وہ 189تھا۔ یہ کبوتر ریس میں یوں اول آیا کہ اُس نے Lerwickسے Sandringhamتک کا فاصلہ (510میل اور 1705گز طویل) جس رفتار سے طے کیا وہ 1307گز فی منٹ بنتی تھی۔
پہلی جنگ ِعظیم میں کبوتروں کی بڑی تعداد نے دونوں اطراف کے افواج کو پیغام پہنچانے کا اہم اور نازک اور خطرناک فرض سرانجام دیا۔ بہت سے گولیوں کا نشانہ بنے اور میدانِ جنگ میں کام آئے۔ امریکی فوجیوں کے ہاتھ جو جرمن کبوتر آیا اُس کا نام قیصر رکھا گیا (جو جرمن بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا)۔ وہ 23برس کی عمر پاکر 1949ء میں مرا تو غالباًدنیا بھر میں سب سے عمر رسیدہ کبوتر تھا۔ اُس نے پہلی اور دوسری‘ دونوں عظیم جنگوں میں حصہ لیا اور مرنے کے بعد حنوط کر لیا گیا تھا۔ جنگی خدمت ادا کرنے والے کبوتروں کی تعداد ہزاروں میں نہ تھی بلکہ تقریباً دو لاکھ تھی اور ان کے مالکوں کو ہر کامیاب پرواز کا معاوضہ چار پنس ادا کیا جاتا تھا جو یقینا برائے نام تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے آخری مرحلے میں جب اتحادی افواج (Normandy کے مقام پر) فرانس کے ساحل پر (جرمن فوج کی گولیوں کی بارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے) اُترنے میں کامیاب رہیں تو یہ خوش خبری بھی ایک کبوتر ہی لایا تھا جس کا نام Gustavتھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں