ریاست کا کچا نظام

جس طرح کسی شخض کی زندگی کا چراغ گل ہونے کی منزل تک جا پہنچے تو ہم (ڈاکٹر نہ ہونے کے باوجود) جانتے ہیں کہ مریض کے اعضائے رئیسہ آہستہ آہستہ (یا کبھی تیز رفتاری سے) کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا مریض کا ذہن مفلوج ہو جاتا ہے۔ بلڈ پریشر درہم برہم ہو جاتا ہے۔ نبض ڈوب جاتی ہے اور سانس اکھڑ جاتی ہے۔ یقین جانیے کہ جب کسی ملک کی انتظامیہ نالائقی یا کرپشن یا دونوں کی وجہ سے اتنی نااہل اور غیر فعال ہو جائے کہ نہ اُس کا ہاتھ باگ پر ہواور نہ پائوں رکاب میں تو اس کا بھی بالکل یہی حال ہوتا ہے۔ جو حکومت اپنی شہریوں کو پاگل کتوں سے نہیں بچا سکتی اور اگر اُنہیں پاگل کتا کاٹ لے تو وہ اُس کا علاج نہیں کر سکتی‘نہ صاف پانی مہیا کر سکتی ہو اور نہ صاف ہوا‘ سڑکوں سے کوڑا کرکٹ نہ اُٹھا سکتی ہو‘ مختصر کہ سوائے فضول باتیں کرنے‘ نعرے لگوانے‘جھوٹ بولنے‘ غلط دعوے کرنے‘ الزام لگانے‘ مکھی پر مکھی مارنے‘اپنے سے طاقتور کے آگے سر جھکانے اور اپنے سے کمزور کو ذلیل وخوارکرنے‘ چڑھتے سورج کو سلام کرنے اور گلے میں پڑا ہوا ڈھول بجانے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ ہے وہ منظر نامہ جس میں اسلام آباد‘ لاہور اور کوئٹہ میں لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ا ساتذہ اور کم آمدنی والے سرکاری ملازمین مظاہرے کر تے ہیں‘ دھرنے دیتے ہیں اوربلند آواز سے فریاد کرتے ہیں کہ اُن کے جائز مطالبات تسلیم کئے جائیں مگر وہ سرکاری افسران اور سیاست دان جو فلاحی مملکت کی ابجد بھی نہیں جانتے وہ ان پر لاٹھی چارج کرواتے ہیں۔ اشک آور گیس یا پانی کی زور دار پھوار یا دونوں کی بارش کر دینے کا حکم دیتے ہیں۔ مظاہرین کو ہتھکڑی لگا کر حوالات میں بند کر دیتے ہیں۔ حکومت کے وجود کا ایک ہی جواز ہے اور وہ ہے عوام کی خدمت اور حفاظت مگر وہ غریب کمزور طبقے سے بدترین سلوک روا رکھتے ہیں۔ لیکن سکے کا دوسرا رخ بھی ہے اور وہ ہے سرکاری مشینری پر مچھروں اور ٹڈی دل سے لے کر معیشت پر مافیا کے قبضہ تک۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں‘قومی خزانہ سے اربوں روپے چرانے والوں اور عوام دشمنوں (اگر وہ اشرافیہ میں شامل ہونے کے معیار پر پورا اتریں) تک۔ ان سب کے سامنے حکومت بالکل بے بس اور لاچار ہوتی ہے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کراچی میں ایک دو سال نہیں برس ہا برس تک کیا ہوتا رہا۔امن و امان اور قانون کی حکمرانی کی دھجیاں خون کی بو میں بسی ہوئی ہوا میں کس طرح اُرائی گئیں‘ آپ تھوڑا سا بھی غورکریں تو آپ دیکھیں گے کہ جہاں جہاں سے کمزوری کی لکیر (پنجابی میں تریڑ اور انگریزی میں Fault line) گزرے گی وہاں سے فساد اُبھرے گا۔ بدامنی جنم لے گی۔ ریاستی نظام درہم برہم ہوگا۔قانون کے (اور اُس کو نافذ کرنے والوں کے بھی) پرخچے اُڑیں گے۔ اُنیسویں صدی کے وسط میں شہر آشوب جیسی کمال کی نظم لکھی گئی۔ میر تقی میر کا بھلا ہو کہ انہوں نے برُے حالات میں ہمیں اپنی دستار سنبھالنے کا دوستانہ مشورہ دیا تھا۔ انگریزی راج کا عروج تھا تو پنجاب سے آواز اُٹھی'' پگڑی سنبھال جٹا‘‘۔ کاشتکار کا جو حال ہوا وہ فیض صاحب کی لکھی ہوئی پنجابی نظم میں پڑھ لیں۔ اب رہ گئی ہماری پگڑی تو وہ ہم سنبھالیں تو کیونکر؟ وہ پہلے گرد آلود تھی اب خون آلود ہو چکی ہے۔ زمانہ ہوا کہ ہمارے سر کی زینت تھی‘ اب وہ ہمارے پائوں میں گری پڑی ہے۔ ہماری کمر ٹوٹ چکی ہے‘ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ اُسے جھک کر اُٹھالیں۔ جھاڑ کر صاف کر لیں اور پھر سر پر رکھ لیں۔ سر بھی زخموں سے چور ہے۔ وہ پگڑی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ ہماری فگار انگلیاں کب تک پگڑی کو پکڑے رکھیں گی۔ کب تک؟
ریاست کا ڈھانچہ کچا ہوجائے تو پھر وہ سندھ کے کچے کے علاقہ میں ڈاکوئوں کی سرکوبی نہیں کر سکتی۔ وہ غریب دیہاتیوں کو اغوا ہو جانے (اور تاوان ادا کر کے رہائی حاصل کرنے سے) نہیں بچا سکتی۔ وہ اپنے شہریوں کے جان و مال اور عزت کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ پولیس اور دوسرے سرکاری محکموں کی روش عوام دشمن ہے۔ وہ وطن عزیز میں رہنے والوں کو عوام نہیں رعایا سمجھتے ہیں۔ رعایا کا مطلب جانوروں کا ریوڑ جسے ڈنڈے کے زور پر ہانکا جا سکتا ہے۔ کالم نگار نصف صدی سے یورپ میں مقیم ہے جہاں عوام اور شہری رہتے ہیں۔ وہ جب بھی اپنے آبائی وطن جائے (جو اکثر جاتا ہے) تو اُسے ہوائی اڈے پر اُترتے اور پھر چند ہفتوں بعد ہوائی اڈے سے روانہ ہوتے وقت رعایا کے لاکھوں کروڑوں افراد نظر آتے ہیں۔ آزاد اور غلام ملک میں بعُد المشرقین ہے۔ 74 سال گزر جانے کو ہیں اور یہ فرق کم ہو جانے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ انگریزوں نے‘ اُن سے پہلے مغلوں نے‘اُن سے پہلے پٹھانوں نے‘ اُن سے پہلے ہندو مہاراجوں اوربادشاہوں نے کل ملا کر ایک ڈیڑھ ہزار سال اس خطے پر آمرانہ اور جابرانہ حکومت کی۔کیا اُنہوں نے بڑے اعلیٰ معیار کا نظم و نسق برقرار رکھا یا نہیں؟اُس وقت بھی دریا بہتے تھے۔ دریائوں کے کنارے کچے کے علاقے بھی تھے۔ سینکڑوں ہزاروں میلوں پر پھیلے ہوئے چار سُو گھنے جنگلات بھی تھے۔ پولیس کے سپاہی پیدل چلتے تھے۔ پولیس کپتان شہر کے اندر سائیکل چلاتا تھا اور ضلع کا دورہ گھوڑے پر سوار ہو کر کرتا تھا۔ نہ تیز رفتار سواری‘ نہ فون‘ نہ کوئی جدید مواصلاتی ذریعہ‘ نہ کمپیوٹر‘ پرانی بندوقیں (ورنہ لاٹھیاں) ہندوستان میں ایک ہزار سال تک سرکار کی بے سرو سامانی کا یہی عالم رہا مگر نہ ڈاکو تھے اور نہ لٹیرے۔ ہندوستان میں انگریز آئے تو اُنہوں نے ایک عجیب و غریب مخلوق دیکھی جو ٹھگ کہلاتی تھی۔ یہ جرائم پیشہ لوگ شاہراہوں پر سفر کرنے والے مسافروں کو بڑی مہارت سے گلا گھونٹ کر مار ڈالتے تھے اور اُن کا سامان لوٹ لیتے تھے۔ انگریز گورنر جنرل نے William Henry Sleeman کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ ٹھگوں کا نام ونشان مٹا دے اور یقین جانیئے کہ چھ سالوں کے اندر ایسا ہی ہوا۔ چار ہزار ٹھگ گرفتار ہوئے۔ دو ہزار کو لمبی قید کی سزا دی گئی۔ دو ہزار کو پھانسی لگائی گئی یا کالا پانی (جزائر انڈیمان) بھیج دیا گیا۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان ٹھگوں نے کتنا عرصہ کتنے بڑے علاقے میں کتنی بڑی قیامت برپا کی ہوئی تھی۔ انگریز پولیس افسر (بہت تھوڑے وسائل کے باوجود) ان قاتل ٹھگوں پربے جگری سے بجلی بن کر گرے اور اُنہیں راکھ بنا دیا۔
بدقسمتی سے ہماری کسی بھی حکومت (چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو یاآمریت ہو) کو نہ (اقبال کے الفاظ میں) کلیمی کا ہنر آتا ہے اور نہ ''عصا‘‘ کے استعمال کا فن اور نہ عصا کے بغیر کلیمی کے کار بے بنیاد ہونے کا شعور ہے۔ حکومت سندھ کے کچے کے علاقے میں بھاری اسلحے سے لیس ڈاکوئوں کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتی (جبکہ پولیس کے سپاہی اور افسران ان کی فائرنگ سے شہید ہو رہے ہیں) ہم اُس سے یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ امریکی دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے امریکہ کو نہ زمینی راستہ دے گی اور نہ فضائی اڈہ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان کی اصل طاقت نہ جوہری ہتھیاروں کی بدولت ہے اور نہ ہی امریکہ سے لئے گئے ہتھیاروں کے طفیل بلکہ صرف اور صرف اُخوتِ عوام ہے۔ قوتِ اُخوتِ عوام (جو صرف فلاحی مملکت کی برکت سے پیدا ہوتی ہے) ہمیں اتنا مضبوط اور توانا بنا سکتی ہے کہ ہم گھر سے باہر امریکہ اور گھر کے اندر ڈاکوئوں اور مافیا کا مقابلہ کر سکیں گے۔ ان کو شکست دے سکیں گے۔ کامیابی کی صرف دو شرائط ہیں: ہم متاع غرور کا سودا نہ کریں اور عوام دوست بن کر کاشتکاروں‘ مزدوروں اور دھرتی کے بیٹے بیٹیوں کی خدمت گزار ہوں۔ چند سال پہلے طارق کھوسہ صاحب نے ایک اچھی کتاب لکھی اوراُس کا نام رکھا: The Faltering State۔ وہ جب بھی لکھتے اپنی کتاب کا نام یہی رکھتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں