سامراج کی ایک اور شکست

شرمناک اور عبرت ناک شکست۔ چین میں اور ویتنام میں کمیونسٹ (اشتراکی) پارٹی کی زیر قیادت مسلح جدوجہد کی کامیابی‘ ایران میں امریکی پٹھو شاہ ایران کی معزولی‘ افغانستان میں پہلے انگریزوں پھر سوویت یونین اور اُس کے بعد امریکی سامراج اور اُس کے اتحادیوں کی ناقابلِ یقین شکست۔ طالبان کابل میں جس شان سے داخل ہوئے وہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ دنیا بھر میں سامراجیوں اور اُن کے ترجمانوں‘ حامیوں‘ کاسہ لیسوں اور طفیلیوں کے منہ پر افغان پہاڑوں کے سنگلاخ ذرات‘ صحرائوں کی ریت اور شرمناک شکست کے الائو میں سامراجی عزائم کے جل کر راکھ ہو جانے سے اُڑتی ہوئی راکھ آگری۔ ایک بار پھر گری۔20 برس کی جنگ میں سب وسائل حملہ آوروں کے پاس تھے۔ ہوائی جہاز‘ توپیں اور ٹینک۔ اربوں کھربوں ڈالروں کے خزانے۔نشر و اشاعت پر اجارہ داری۔ آسمانوں پر اُڑتے ہوئے ڈرون۔ بحری بیڑے سے چلائے جانے والے کروز میزائل۔
مگرپندرہ اگست 2021 ء کا سورج طلوع ہوا تو کابل طالبان کے زیر نگیں آ چکا تھا‘اور یوں بھنور کی گرہ کھل گئی۔ ساری دنیا میں کروڑوں اربوں لوگوں نے یہ روح پرور نظارہ دیکھا کہ سروں پر سیاہ دستار باندھے ہوئے‘ باریش چہرے‘ قمیص شلوار میں ملبوس‘ پائوں میں سادہ سے چپل(جو اکثریت کی ٹوٹی ہوئی تھی) آنکھوں میں انکسار اور خدائے بزرگ و برتر کے شکرانہ کے موجزن جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔ ہنسنا اور قہقہے لگانا تو دور کی بات ہے فاتحانہ مسکراہٹ کے بھی کوئی آثار نظر نہ آئے۔ کالم نگار نے ایسے مبارک اور روشن چہروں کو ہزاروں میل کے فاصلے سے دیکھا تو بے ساختہ اُس کے ہونٹوں سے ایک دھیمی سی آواز آنے لگی۔ کان لگا کر سنی تو وہ درود شریف تھا۔ وہی درود جس کے الفاظ اقبال کے منہ سے آبشار بن کر اس وقت ادا ہونے لگے جب وہ مسجد قرطبہ میں داخل ہوئے اور وہاں جتنی دیر سربسجود رہے۔ ڈیڑھ ہزار سال دور کی بڑی طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کو پاش پاش کرنے والے جانفروشوں سے متعارف ہونے کیلئے نسیم حجازی کے ناول پڑھنا ہر گز ضروری نہیں۔ آپ ایک نظر طالبان کے ترجمانوں کو دیکھ لیں تو آپ جان جائیں گے کہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اقبال نے سو سال قبل کمال کی نظم لکھی تھی۔
یہ غازی یہ تیرے پرُاسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ کی ان کی ہیبت سے رائی
اندلس کے میدانِ جنگ میں طارق نے جو تاریخی دعا مانگی تھی وہ اقبال نے دس اشعار میں منظوم کر دی۔ مجبوراً مجھے صرف دو اشعار لکھنے پر اکتفا کرنا پڑا۔ حسنِ اتفاق سے ''بال ِ جبریل‘‘کے جس صفحے پر طارق کی دعا پڑھی جا سکتی ہے اُس سے اگلے چار صفحات پر لینن کی خدا کے حضور مانگی ہوئی دعا بیان کی گئی ہے‘ اس سے اگلے صفحہ پر فرشتوں کاگیت اور اُس سے اگلے صفحے پر ہم وہ فرمانِ خدا پڑھ سکتے ہیں جو فرشتوں کو مخاطب کر کے لکھا گیا۔ اقبال نے ان سات صفحات پر اپنا جو انقلابی منشور پیش کیا ہے وہ سمجھدار جدلیاتی عمل پر ایمان رکھنے والے اشتراکیوں اور اسلام کی عقابی روح کو اپنے سینوں میں بیدار کرنے والے قابلِ تقلید اور قابلِ فخر مسلمانوں کو ایک انقلابی پرچم تلے اکٹھا کر دیتا ہے۔
کالم نگار نے برطانیہ میں نصف صدی بین الاقوامی قانون پڑھا ہے‘ پڑھایا ہے یا اس کی پریکٹس کی ہے۔ میں اپنے عمر بھر کے مطالعہ اور تجربہ کی بنیاد پر سو فیصد دیانتداری سے بلاتوقف لکھ سکتا ہوں کہ امریکہ کے افغانستان اور عراق پر جارحانہ حملے بین الاقوامی قانون کے صریحاً خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر بش اور برطانیہ کا سابق وزیراعظم بلیئر دونوں جنگی مجرم ہیں۔ ان دونوں نے اربوں کھربوں ڈالر اور پائونڈ محض لاکھوں بے گناہ افراد کے قتل عام پر صرف کر دیے۔ میزائلوں اور توپوں کی گولہ باری‘ جہازوں اور ڈرونز سے بے تحاشا بمباری‘ دورانِ تفتیش عقوبت خانوں (مثلاً عراق میں ابوغریب اور کابل میں امریکہ کا گوانتا نامو نمبردو ) میں بے گناہ افراد پر ناقابلِ بیان تشدد۔ 20 برس پہلے امریکہ نے افغانستان پر جارحانہ حملہ کیا اور بین الاقوامی قانون کے ہر صفحہ پر لکھی ہوئی ہر سطر کے ہر لفظ کو فوجی بوٹوں کے نیچے روندا اور پامال کیا‘ اس کی دھجیاں اُڑائیں۔ ہمیں اپنی وفاداری اور فرمانبرداری کے مظاہرے کا اس سے اچھا اور کون سا موقع مل سکتا تھا‘ ہم نے بین الاقوامی قانون کے ایک اور حصے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام آباد میں افغان سفیر ملاضعیف کو گرفتار کر کے امریکی فوجی پولیس کے حوالے کر دیا۔ سابق سفیر کو اُسی شہر میں تشدد کا نشانہ بنا یا گیا جہاں چند برس قبل اُنہوں نے صدرِ مملکت کو اپنی سفارتی اسناد پیش کی تھیں۔ امریکی اہلکاروں نے اپنے حلیفوں کے مکمل تعاون کے ساتھ سابق سفیر کا کتنا برُاحشر کیاوہ آپ ملا عبدالسلام ضعیف کی خود نوشت میں پڑھ سکتے ہیں۔
کالم نگار (خوش قسمتی سے) امریکہ سے محفوظ فاصلے پر رہتا ہے۔ پندرہ اگست کے بعد امریکی وزارتِ دفاع (Pentagon)‘ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور واشنگٹن کی ملحقہ ریاست ورجینیاکے Langleyنامی شہر میں CIA کے صدر مقام میں صف ماتم بچھ گئی۔ میں آپ کو ان تین عمارتوں میں کام کرنے والوں میں ہزاروں افراد (جو امریکی سامراج کے ستون ہیں) کے بارے میں آنکھوں دیکھا حال بتائوں تو کیونکر؟ لندن میں رہتا ہوں اس لئے آپ کو یہی بتا سکتا ہوں کہ پندرہ اگست کو کابل (اور اس لحاظ سے سارے افغانستان) پر طالبان کے قبضے کے بعد انگریزوں کا غم و غصے سے جو برُا حال ہوا‘ وہ 1956 ء میں نہر سویز پر برطانیہ کے ناکام حملے اور شرمناک پسپائی کے بعد کبھی نہیں ہوا۔ 17 اگست کو برطانوی وزیراعظم کی دعوت پر (کاش ہمارے وزیراعظم بھی اس روش پر چل نکلیں) برطانوی پارلیمان کے ایوانِ زیریں دارالعوام (House of Commons) کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ ماسوائے میرے دیرینہ دوست Jeremy Corbyn (جو لیبر پارٹی کے سابق قائد ہیں) سارے اراکین پارلیمنٹ نے امریکہ پر لعن طعن کی کہ وہ افغانستان کو (طالبان کے رحم و کرم پر چھو ڑ کر) اور 20 سالہ جنگ میں اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے وہاں سے اپنی فوج نکال لینے پر کیوں رضا مند ہوا؟ برطانوی سیاست دانوں کے پاس اتنی جرأت رندانہ تو نہیں کہ وہ ایوان میں گالیوں کی بارش کر کے اپنے زخمی اور دکھی دلوں کی بھڑاس نکالتے مگر وہ بار بار پارلیمانی اقدار اور روایات کو پامال کرتے ہوئے امریکہ کی شرمناک پسپائی‘ جمہوری نظام کی عالمی بالادستی میں نقب زنی اور باطل کی قوتوں کے قدموں پر حق و انصاف کو گرا دینے پر اسے پرلے درجہ کی بے شرمی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے تھے۔ چند گھنٹوں کی یہ پارلیمانی کارروائی صدیوں تک انگریزوں کو شرمندہ رکھنے کیلئے کافی ہے۔
افغانستان میں امریکی اور مغربی طاقتوں کی شکست سے ہماری اُمید کے ٹمٹماتے ہوئے چراغوں میں اُمید کی لوپھر سے روشن ہو گئی ہے کہ جلد یا بدیر سرینگر پر بھارتی قبضہ اور یروشلم پر اسرائیلی قبضہ بھی ضرور ختم ہوگا۔ ہماری توقع سے زیادہ جلدی ختم ہوگا۔ بوڑھا کالم نگار مڑ کر دیکھتا ہے تو اُسے اپنے بچپن کے گیارہ برس یاد آتے ہیں جب وہ کروڑوں ہندوستانیوں کی طرح انگریزوں کا غلام تھا۔ دوسرے غلاموں کی طرح وہ بھی اپنے آقائوں سے ڈرتا تھا۔ میری زندگی کے آخری دن آئے تو انگریز مجھ سے دنیا بھر کے مسلمانوں سے اور خصوصاً طالبان سے ڈرنے لگا۔ سامراج کی شکست نوشتۂ دیوار ہے۔ ویتنام سے ایران تک پے در پے شکستوں کے ہم چشم دید گواہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں