تریاق کی تلاش…(2)

ہمیں در پیش بحرانوں کی تعداد اور ہر بحران کی سنگینی اتنی زیادہ ہے کہ درجنوں کالم بھی لکھے جائیں تو ان سب کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم‘علاج‘ صفائی اور امن و امان‘ قانون کی حکمرانی‘ آئین کے تحت ہر سطح پر بااختیار مقامی حکومتوں کا قیام‘افراطِ زر‘ بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ‘ خسارے اور قرض لیے بغیر قومی بجٹ بنانا‘ احتساب‘شفافیت‘ سلطانیٔ جمہور‘ جوابدہی کے چار ستونوں پر نظامِ حکومت کی عمارت کی تعمیر ‘ عوام دوست اور خدمت گزار سرکاری مشینری کا خواب پورا کرنا‘ انسانی حقوق (سیاسی‘ سماجی اور معاشی‘ آئین جن کی ضمانت دیتا ہے) کی بحالی۔ کسی دوسرے ملک کی بالادستی تسلیم کئے بغیر اپنی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرنا اور کروانا۔ کالم نگار کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی تحریر کو وہ عقل مند پڑھتے ہیں جنہیں اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا فہرست کا اشاروں پر مشتمل ہونا مناسب سمجھا جائے تو بجا ہوگا۔
آج کے کالم کا موضوع اُس تریاق کی تلاش ہے جو ہمارا توانائی کا بحران ختم کر سکتا ہو۔ اگر پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں سارا سال چمکدار دھوپ نکلتی ہے تو ہم شمسی توانائی کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں دریا بہتے ہیں تو ہم پن بجلی پیدا کر سکتے ہیں‘ اگر ہمارے ساحلوں پر تیز رفتار ہوائیں چلتی ہیں تو ہم Wind Turbines لگا ئیں۔ اگر ہمارے پاس پہاڑ ہیں تو ہم زمین دوزThermal Energyسے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہمیں جوہری توانائی کے استعمال پر عبور ہے تو ہم ری ایکٹر لگا کر بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ اب آپ بتایئے کہ جب نہ سورج کی روشنی کا صحیح استعمال ہو رہا ہے‘نہ دریائی بہاؤ کا‘نہ ساحلی ہواؤں کا‘ نہ صحرا کا‘ نہ پہاڑوں کا اور نہ جوہری توانائی کا تو ہم کریں تو کیا کریں؟ برائے مہربانی آپ ہمیں اپنے جوہری سائنسدانوں سے مشورہ کرنے کا راستہ نہ دکھائیں۔ اُنہوں نے آپ کو کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی قوت بنا دیا۔ اور کیا چاہیے؟ کالم نگار مایوسی اور دل گرفتگی کے اُس عالم میں تھا جو ہمیں پہلے میر تقی میر اور عصرِ حاضر میں ناصر کاظمی کی شاعری میں نظر آتی ہے کہ 18 جون کے برطانوی اخبار The Timesمیں شائع ہونے والی ایک خبر نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ خبر تھی کہ عراق کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 40 ارب ڈالر خرچ کر کے روس میں بنائے گئے آٹھ جوہری ری ایکٹروں کے طفیل بڑھتے ہوئے توانائی بحران پر قابو پالے گی۔ عراقی حکومت نے امریکہ اور فرانس سے بھی رجوع کیا تھا مگر وہ اتنی اچھی شرائط پر معاہدہ نہ کر سکے جو روسی کمپنی نے بڑی خوش اسلوبی سے کیا۔ دنیا بھر میں تیل کی کل پیداوار کا 8.4 فیصد حصہ عراق سے نکلتا ہے ‘ مگر مواصلاتی نظام کا بُرا حال ہے‘ بدانتظامی‘ کرپشن اور بدعنوانی کے عذاب اس کے علاوہ۔ صورتحال مزید یوں بگڑی کہ دسمبر2002 ء میں ایران نے عراق کو قدرتی گیس کی برآمد (بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے) بہت کم کر دی۔ عراقی حکومت نے تخمینہ لگایا ہے کہ اگلے آٹھ دس برس میں بجلی کی طلب میں 50 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ عراق میں توانائی کے شعبہ کے سربراہ کے بیان کے مطابق آٹھ جوہری ری ایکٹر گیارہ گیگا واٹ بجلی پیدا کر سکیں گے۔تیل کی بڑے پیمانے پر پیداوار عالمی ماحول کیلئے شدید نقصان کی ذمہ دار ہے کیونکہ تیل کے چشموں سے جو بلند و بالا شعلے نکلتے ہیں وہ ہر سال بہت بڑی مقدار میں زہریلی گیسیں فضا میں شامل کر دیتے ہیں جو عالمی درجہ حرارت کو بڑھانے (گلوبل وارمنگ) کی ذمہ دار ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے تین اور ممالک (ایران‘ متحدہ عرب امارات اور ترکی) بھی بجلی کی پیداوار کیلئے ایٹمی ری ایکٹر لگانے کی حکمت عملی کو اپناچکے ہیں۔
آج کا کالم آدھا سفر طے کر چکا تھا کہ مجھے پاکستان کے ایک اخبار کا 10 اپریل2005ء کو شائع ہونے والا اداریہ مل گیا (اب میرے قارئین کو اندازہوگیا ہوگا کہ کالم نگار کا مطالعہ کا کمرہ کتنے زیادہ کاٹھ کباڑ سے بھرا ہوا ہے)۔ یہ اداریہ نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کے خوش آئند منصوبے کے موضوع پر جس پیرایہ میں لکھا گیا اُس کے ہر لفظ سے اُمید کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے اُس وقت کے سربراہ ڈاکٹر پرویز بٹ اور اُس وقت کے وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے توانائی ڈاکٹر اشفاق احمد نے چین کے تعاون سے تعمیر کئے جانے والے ایٹمی بجلی گھر (چشمہ ) کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان اس ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کے بعد مزید نئے بجلی گھر بنائے گا تاکہ وہ 2020ء تک 8800 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا ہدف حاصل کر سکے۔ چشمہ ایٹمی پاور پلانٹ کی پیداواری صلاحیت 340 میگاواٹ بتائی گئی تھی اورتعمیر پر 51 ارب روپے صرف ہوئے تھے۔ بتایا گیا کہ یہ پاکستان میں ایٹمی توانائی سے چلنے والا تیسرا ایٹمی بجلی گھر ہوگا۔ 1974ء میں بھارت نے پوکھران کے مقام پر پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کا ارادہ ظاہر کیا تو (امریکی دبائو کے تحت) کینیڈا نے کراچی کے 137 میگاواٹ کے ایٹمی بجلی گھر کیلئے ایندھن کی فراہمی بند کر دی۔ یہ پابندی بالکل اچانک اور ناگہانی تھی مگر ہمارے سائنس دان قطعاً نہ گھبرائے اور کمال ذہانت سے اپنے ایٹمی بجلی گھروں کیلئے اپنا ایندھن تیار کرنے میں کامیاب رہے۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت محتاجِ بیان نہیں۔ بجلی کی سب سے سستی پیداوار کا ذریعہ Hydel Powerہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں چاہے نام نہاد جمہوری حکومتیں ہوں یا آمریتیں‘ نہ بڑے ڈیم بنائے گئے اور نہ چھوٹے۔ مون سون بارشوں سے قدرت ہمیں ہر سال جو ہزاروں ایکڑ فٹ تازہ پانی کا بے حد قیمتی تحفہ دیتی ہے بڑے بڑے تالاب بنا کر اسے سنبھالنے کا ہنر ہم نے آج تک نہیں سیکھا او رنہ اس کے آثار نظر آتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار کا متبادل ذریعہ ایک اور بھی ہے جو سب سے مہنگا ہونے کے باوجود ہمارے تمام حکمرانوں کا سب سے پسندیدہ ہے اور وہ ہے تھرمل۔ اگر تیل کی بجائے گیس کو بجلی بنانے کے کارخانوں میں استعمال کیا جائے تو وہ فی یونٹ بہت مہنگی اور عوام کی پہنچ سے دور ہوگی۔ نہ ہم تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہیں اور نہ ہی قدرتی گیس میں‘ یہی وجہ ہے کہ موسم سرما میں ہمارے گھروں اور باورچی خانوں میں گیس کی رسد میں کمی کی وجہ سے چولہے ٹھنڈے رہتے ہیں۔ اگر افغانستان خصوصاً اس کے شمالی علاقوں میں امن ہو توپاکستان بڑی آسانی سے وسط ایشیا کی ریاستوں سے بہت سستی گیس خرید سکتاہے۔ ایران پر لگائی گئی امریکی پابندیوں نے ہمیں ایران سے گیس درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی۔ آپ جانتے ہوں گے کہ یورپی ممالک نے زمین کی گہرائیوں میں کھولتے ہوئے لاوے اور سمندری لہروں کے مدوجزر سے توانائی حاصل کرنے کے کامیاب اور قابل عمل تجربات کئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس سینکڑوں میل کے پہاڑی سلسلے ہیں اور سینکڑوں میل لمبی ساحلی پٹی بھی ہے مگر کسی پر اسرار وجہ سے یہ دونوں ہمیں آج تک نظر نہیں آئے۔ اس لیے ہمیں معاف رکھا جائے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ دوسری معقول وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم نیب آرڈیننس اور اس طرح کے دوسرے معاملات میں اس بری طرح اُلجھے ہوئے ہیں کہ قومی مفاد کے کسی مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ہمیں فرصت ہی نہیں ملتی۔مناسب ہوگاکہ آج کا کالم پاکستان کے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کیلئے دعائے مغفرت پر ختم کیا جائے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں