کیا یہ ایسے ہی چلے گا؟

جواب ہے‘ ہر گز نہیں۔ اگر موجودہ نظام تبدیل نہ کیا گیا تو بالکل نہیں چلے گا۔یہ برُی طرح لڑکھڑا رہا ہے‘ اُفتاں و خیزاں یعنی گرتے اُٹھتے‘بار بار گرتے اور پھر بمشکل اُٹھتے آگے بڑھ رہا ہے۔ مریض انتہائی نگہداشت کے کمرے میں ہے۔ سانس لے رہا ہے مگر مصنوعی تنفس کے ذریعے۔ نیم مردہ جسم کو برائے نام خوراک مل رہی ہے مگر ٹیوب سے۔ آسان مثال دے کر اپنا موقف واضح کرتا ہوں‘ اگر کسی شخص کے پائوں نہ ہوں اور اُسے بیساکھیاں دے کر اُمید رکھی جائے کہ وہ اولمپک کھیلوں میں دوڑ کا مقابلہ جیت کر طلائی تمغہ حاصل کرے گا تو اس خوش امیدی کے مریض کو دماغی امراض کے معالج سے رابطہ کرنا چاہئے۔یہ بات فیض صاحب سے منسوب کی جاتی ہے کہ اُنہوں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھا کہ یہ نظام اسی طرح ہی چلتا رہے گا۔ اگر یہ واقعی ان کا سوچا سمجھا نظریہ تھا تو پھر مقام حیرت ہے کہ اُنہوں نے اتنی کمال کی انقلابی شاعری کیوں کی اور بار بار اتنے سالوں کیلئے جیلوں میں کیوں قیدی بنے رہے؟ کیا لینن امن انعام ایک ایسے دانشور کو دیا گیا جو نظام کہنہ میں کسی تبدیلی کا امکان نہ دیکھتے ہوئے بھی اس کی درازیٔ عمر کی توقع رکھتا تھا؟ اور آخری دم تک یہ کہتے کہتے دنیا سے رخصت ہوا کہ ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ کیا دیکھیں گے؟ وہ مبارک دن جس کا خالق دو جہاں نے اپنی مخلوق سے وعدہ کیا ہے۔ جب سب بت (مراعات یافتہ طبقہ کے تراشے ہوئے بت) گرائے جائیں گے‘ تمام پرانے شوالے پاش پاش کئے جائیں گے۔ اس زمین (صدیوں سے لوٹی گئی اور استحصال شدہ زمین) پر ہل چلانے والے اس کے مالک بنیں گے۔ افتادگان ِخاک مسند پر بٹھائے جائیں گے۔ اگر فیض صاحب کو اس کا یقین نہ ہوتا تو وہ یہ کیسے لکھتے ؟
اُنہوں نے سرِ دادیٔ سینا کے نام سے اپنی نظموں کا مجموعہ مرتب کیا تو اس کی پہلی نظم کا نام انتساب رکھا۔ اپنی عمر بھر کی عوام دوست تخلیقی کاوش کو کس کے نام کیا؟ کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام‘کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام‘ پوسٹ مینوں کے نام‘ تانگے والوں کے نام‘ریل بانوں کے نام‘ کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام‘ دہقاں کے نام‘ دکھی مائوں کے نام‘ بیوائوں کے نام‘ پڑھنے والوں کے نام‘ آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام‘ وہی آنے والا دن جس کا خواب شاہ ولی اللہ‘ عبید اللہ سندھی اور علامہ اقبال سے لے کر حبیب جالب‘ کیفی عظمی احمد فراز اور فیض نے دیکھا تھا۔ آج یہی خواب ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ہسپانوی زبان کا محاورہ ہے کہ آپ دیوار کو چاہے کتنا اونچا کر لیں آپ سورج کی روشنی کو گھر کے صحن کو منور کرنے سے نہیں روک سکتے۔ سماجی علوم کی ابجد سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ انسانی تاریخ کی ندی ہمہ وقت بہہ رہی ہے۔ پیداواری قوتیں ہمہ وقت بدل رہی ہیں۔ سماجی رشتے بھی مستقل طور پر تغیر پذیر ہیں۔ تاریخ عالم کو رہنے دیں‘ آپ صرف ہندو پاک کی حالیہ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں‘ 74 سال پہلے تک انگریزوں کا راج تھا جو دو صدیاں جاری رہا‘ اُن سے پہلے مغلیہ دور‘ اُن سے پہلے سلاطینِ دہلی‘ یہ تو چھ سو سال بھی نہیں بنتے۔ ظاہر ہے کہ دریائے سندھ‘ دریائے گنگا اور جمنا کے کنارے رہنے والوں نے پانچ ہزار سال میں بڑا لمبا سفر طے کیا ہے۔ا گرچہ ٹیکسلا‘ ہڑپہ اور موہنجودڑو کے شہروں کا تعلق قبل از مسیح دور سے تھا مگر انسانی تاریخ کے کیلنڈر میں اُن کے عروج کی داستان کل کی بات لگتی ہے۔ ہم 61 سال (یعنی 1960 ء میں) واپس جائیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایوب خان نے اپنے نامزد کردہ لوگوں کی سفارش پر اپنے اوپر فیلڈ مارشل کا لیبل بھی لگا لیا تو کروڑوں پاکستانیوں میں سے ایک کی پیشانی پر ایک لکیر بھی نہ اُبھری۔ ہندوستان کے ہاتھ تین دریا فروخت کر کے مسئلہ کشمیر کو گہرائی میں دفن کر دیا کہ اب سید علی گیلانی مرحوم اور مقبول بٹ مرحوم اور اُن جیسے بہت سے بہادر لوگوں کی قربانی اور عمر بھر کی جدوجہد بھی آزادی کی منزل کو قریب نہیں لا سکی مگر نہ وکیل بولے نہ صحافی۔ دس برس آگے چلیں تو 1970 ء میں رونما ہونے والا عظیم سانحہ نظر آتا ہے۔ قائداعظم اور اُن کی زیر قیادت چلائی جانے والی عوامی تحریک (بنگالی جس کا ہر اول دستہ تھے) کا بنایا ہوا ملک ٹوٹ گیا۔ ٹوٹا بھی ایسا کہ مشرقی پاکستان کے دریا بے گناہ ہموطنوں کے خون سے سرخ ہو گئے۔ مغربی پاکستان سے احتجاج کی آواز گنتی کے چند افراد نے بلند کی۔ وارث میر‘آئی اے رحمن اور اُن کے مٹھی بھر ہم خیالوں نے۔ برطانیہ میں فریاد کرنے والوں کی کل تعداد تین تھی طارق علی‘ احمد شجاع اور یہ کالم نگار جسے اپنے بال بچوں کے تحفظ اور گھر سے بی بی سی کے نشریاتی مرکز تک دو طرفہ سفر کرنے کیلئے پولیس کی مدد مانگنا پڑی۔ گزشتہ صدی کے چالیسویں عشرے کے وسط میں کانگریس کے رہنمائوں کی تنگ نظری‘ فرقہ واریت‘ ہٹ دھرمی‘ کم ظرفی اور ناعاقبت اندیشی نے اُنہیں قائداعظم کی نہایت دانشمندانہ تجویز (وفاقی نظام یعنی کمزور مرکز اور بااختیار صوبے) قبول نہ کرنے دی۔ 23 برس گزرے تو مشرقی پاکستان کی ترجمان سیاسی جماعت (عوامی لیگ) نے وفاق کے قیام کیلئے چھ نکاتی تجاویز پیش کیں جو کسی کیلئے قابل قبول نہ تھیں۔
دنیا کے دوسرے ممالک کو ایک طرف رکھ کر صرف اپنے وطن عزیز کو دیکھیں۔ یہاں کتنے بڑے بڑے سیاسی زلزلے آئے ہیں اور یہ دیکھ کر بھی آپ کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی چلتا رہے گا؟ صرف یہ علم سیاست کی نہیںعام معاملہ فہمی ( Common Sense) کی بھی توہین ہے۔ ہم نے ان 74 برسوں میں جو فصل بوئی ہے اب اُسے کاٹ رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جو پہلے گیارہ برس گزرے اُن کا موجودہ دور سے مقابلہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ اب قانون کی حکمرانی‘ امن و امان اور تحفظ سے لے کر مہنگائی‘ افراطِ زر‘بے روزگاری‘ غیر ملکی اربوں کھربوں ڈالروں کے بوجھ تک ہر معاملے میں ہماری کارکردگی 1947-58 ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہے۔ اتنی خراب کہ لگتا ہے کہ ناقابلِ اصلاح ہے۔ خوش قسمتی سے ابھی پانی ہمارے دکھوں سے چھلنی سروں کے اُوپر سے نہیں گزرا۔ ابھی وقت ہے‘ جسے انگریزی میں Eleventh Hour کہتے ہیں‘ کہ ہم مقامی حکومتوں کا بااختیار اور جاندار نظام قائم کر کے بہتر حکمرانی کی سیڑھی پر قدم رکھیں‘ ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دیں‘ سٹیل مل اور ریلوے اور دوسرے بڑے قومی صنعتی اداروں کو اربوں روپے کے گھاٹے کا سودا بنانے کی بجائے کارکنوں کو اُن کا مالک بنا کر نفع بخش بنا دیں۔ لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین لاکھوں بے زمین کاشتکاروں میں مفت تقسیم کر دیں۔ اُردو کو سرکاری زبان بنا کر اپنے آئین کے احترام کا ثبوت دیں۔ ساری سرکاری مشینری کو عوام دوست‘ جوابدہ اور شفاف بنائیں۔ سلطانیٔ جمہور اور انسانی حقوق کے احترام‘خصوصاً خواتین اور اقلیتوں کے حقوق‘ کے سنہری اصولوں کو عملی شکل دیں۔ قوت ِاخوتِ عوام کو بروئے کار لا کر اُس دلدل سے باہر نکلیں جو ہمارے وجود کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ قوتِ اخوت عوام اور قومی اتفاق رائے کے بل بوتے پر آنے والے زیادہ سنگین بحرانوں کے مقابلہ کیلئے تیار ہو جائیں۔ اگر آپ کو اس کالم نگار کی بات سے اتفاق کرنے میں تامل ہو تو اقبال کی نظم ''زمانہ‘‘ پڑھ لیں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی اصلاح‘اور وہ بھی جو انقلابی ہو‘ نہ کی گئی اورموجودہ نظام‘ماسوائے نمائشی اور سطحی تبدیلیوں کے‘ جوں کا توں رہا تو یہ گر پڑے گایہ ایسا ہی رہا توہر گز نہ چلے گا۔ یہی اٹل صداقت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں