ٹوپی اور سمجھ کا رشتہ

بہت پرانی بات ہے مگر ہے ناقابلِ فراموش۔ پچاس کی دہائی کے وسط میں جب کالم نگار مَرے کالج سیالکوٹ (جہاں وارث میر‘ خالد حسن اور ارشاد کاظمی مرحومین اور سابق سفیر مجاہد حسین میرے ہم عصر تھے) میں بی اے کا امتحان پاس کرنے کی دوسری (اور کامیاب) کوشش کر رہا تھا۔ اُسے موسم گرما میں سیالکوٹ سے بس پر سوار ہو کر لاہور آنا تھا تاکہ وہاں امتحان دے سکے۔ بس اڈہ پر ایک شخص تنکوں کی بنی ہوئی خوبصورت ٹوپیاں فروخت کرنے کیلئے ہر ممکن جتن کر رہا تھا۔ اُس نے اپنی ٹوپیوں کے فوائد گنوانے میں اس حد تک مبالغہ آرائی کی کہ یوں لگتا تھا کہ وہ میدان جنگ میں آہنی خود کا کام بھی دیں گی اور حالتِ امن میں وہ ہمیں تیز دھوپ سے بچائیں گی۔ بدقسمتی سے وہ مسافروں سے بھری بس کے کسی ایک مسافر (جو پسینہ سے شرابور تھا اور بس کے چلنے کا شدت سے منتظر تھا) کو بھی ٹوپی خریدنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ اب ٹوپی فروش کا صبر جواب دے گیا۔ وہ ہم سے سے مخاطب ہو کر بلند آواز سے پوچھنے لگا کہ کیا آپ کو میری ٹوپی کی سمجھ نہیں آئی؟ یہ بتائو کہ کیوں نہیں آئی؟ کیا تم اندھے ہو کہ اتنی اچھی اور سستی (یہ بھی درست نہ تھا) ٹوپی کی خوبیاں نہیں دیکھ سکتے؟ بس چل پڑی تو ٹوپی فروش کو ہمارے بارے میں مزید سخت لفظ استعمال کرنے کا موقع مل گیا۔ معذرت خواہ ہوں کہ آج کا کالم اتنے باسی لطیفے سے شروع کیا گیا۔ مصیبت یہ ہے کہ کالم نگار گھر میں آتش دان کے پاس بیٹھ کر اچھی کتاب پڑھے یا اپنے طبی معالجین کے ظالمانہ مشورہ پر عمل کرتے ہوئے برفانی ہوائوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گھر سے باہر سیر کو نکلے۔ اُسے مندرجہ بالا واقعہ ان دنوں بار بار یاد آتا ہے اور وہ بھی 67 سالوں کے بعد۔ سوچا کہ اسے ایک بار لکھ دوں تو شاید اس سے میری جان چھوٹ جائے اور ذہن سے بوجھ اُتر جائے۔ اب آپ سے کیا پردہ‘ کالم نگار کی حالت زار بھی اُس ٹوپی فروش سے مختلف نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میرے پاس مفید‘ قابلِ عمل‘ مثبت‘آزمودہ مشورہ کا ایک انبار ہے اور میں اپنے 22 کروڑ ہم وطنوں کو بالعموم اور اُن کے دانشور ماہرین کو بالخصوص مخاطب کر کے اُنہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ میرے دیے گئے مشوروں پر سنجیدگی سے غور کریں اور اگر وہ انہیں پسند آئیں تو اُن کی حمایت میں آواز بلند کریں۔ صد افسوس کہ نہ ٹوپی فروش کی ایک ٹوپی فروخت ہوئی اور نہ کالم نگار کے کسی ایک مشورہ کو در خورِ اعتنا سمجھا گیا۔ کبھی وزیراعظم کو خط لکھتا ہوں(جو ساٹھ کی دہائی میں ایچیسن کالج میں پڑھتے تھے اور میں وہاں اعلیٰ ترین درجہ کے طالب علموں کو پڑھاتا تھا اور شام کو اُن کے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا)۔ میں چھ ہزار میل دور نہ ہوتا تو اپنے پیارے برادرِ نسبتی غلام فرید صاحب سے رعایتی نرخ پر کبوتر خرید لیتا اور اُن کے پروں کے ساتھ رقعے باندھ کر اُنہیں لاہور سے اپنے گھر کی چھت سے اسلام آباد کی طرف اُڑا دیتا اور اُن سے بنی گالہ کے ایک گھر کی منڈیر پر جا بیٹھنے کی منت سماجت کرتا۔ کبھی ماہرین معیشت کو فون کرتا ہوں اورہر تین ماہ بعد اپنی فریاد کو ایک مضمون کی شکل دے کر ہزاروں کی تعداد میں شائع کروا کے اُنہیں ملک بھر کے وکلا اور اساتذہ میں بھی تقسیم کراتا ہوں مگر مجال ہے کہ ماسوائے صرف سو افراد‘ کسی نے بھی میری گزارشات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لے کر مجھے بتایا کہ اگر وہ میرے ساتھ اتفاق کرتے ہیں تو تحریک تبدیلی ٔ نظام و شرکت عوام کے لکھے ہوئے منشور ہم وطنوں تک پہنچانے میں میری مدد کیوں نہیں کرتے اور اگر اتفاق نہیں کرتے (جس کا اُنہیں پورا حق ہے) تو کیوں نہیں؟ یوں لگتا ہے کہ میرے پاس جو ٹوپی ہے وہ بھی بس میں سوار مسافروں کو سمجھ نہیں آئی۔ سوچتا ہوں کہ شاید میری ٹوپی میں بھی کوئی ایسی خوبی نہیں کہ وہ قابل فروخت ہو۔ یہ تو میرا بوڑھا دماغ کہتا ہے۔ اب دل کی سُنیں (جو اب بھی بلند ہمت ہے اور اُس میں اُمیدوں کے چراغ جلتے ہیں ) اُس کا موقف یہ ہے کہ اگر میری ٹوپی اتنی غیر مفید‘ بے قعت اور ناقابل عمل ہوتی تو اتنے بلند پایہ‘دانشوراس کی حمایت میں نہ اپنا علم بلند کرتے اور نہ اپنا ہاتھ اُٹھاتے۔ میں دل کی بات مان لیتا ہوں اور نئے عزم و ولولہ کے ساتھ تحریر و تقریر کے ذریعہ اپنی ٹوپی کا تعارف کرانے کی مہم شروع کر دیتا ہوں۔ برطانیہ سے پاکستان تک‘ پاکستان کے تقریباً ہر شہر تک‘ فرانس اور ڈنمارک سے لے کر مشرق وسطیٰ کے ممالک تک۔
یہ سطور لکھی جا چکی تھیں تو مجھے پتا چلا کہ کالم کی زیادہ جگہ تو تمہید لے گئی۔ کام کی بات رہ گئی۔ آیئے اب اُس طرف چلتے ہیں۔ آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ شاید ہی کوئی ایسا ہفتہ گزرتا ہو جب پاکستان کسی نئے بحران اور دردِ سر کی زد میں نہ آتا ہو۔ آج میرے مرحوم دوست منیر نیازی زندہ ہوتے تو میں اُنہیں داد دیتا کہ برسوں قبل اُنہوں نے ایک کمال کی پیش گوئی کی تھی جس کی رُو سے ایک شخص بصد مشکل ایک تلاطم خیز دریا کو عبور کر کے کنارے پر پہنچا اور ابھی اس کارنامے پر اپنے آپ کو مبارک دینے ہی والا تھا کہ اُس نے دیکھا کہ اُس کے سامنے ایک اور دریا ہے۔ آخری سکینڈل رانا شمیم صاحب کے حلفیہ بیان سے شروع ہوا اور چلتا چلتا آڈیو ٹیپ تک جا پہنچا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے سب سے اہم اور کلیدی ادارہ کی شہرت اور نیک نامی داغدار نہ ہو تو جلد از جلدتحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جسے اس معاملہ کی چھان بین کرنے کے مکمل اختیارات دیے جائیں۔ یہ تو تھا اس وقت کا سب سے توجہ طلب مسئلہ۔ اب دوسرے مسائل کی باری آتی ہے۔ اگر ہماری قومی اسمبلی کے معزز اراکین کو ایوان میں شور شرابہ کرنے‘ ایک دوسرے کی تقریروں میں ہنگامہ آرائی کرنے اور اپنی موجودہ مراعات کو بڑھانے سے فرصت ملے تو وہ ایک قانون منظور کریں جس سے موجودہ یا آنے والی حکومت زرعی اشیا اورغیر ضروری سامانِ آسائش کی درآمد‘ خوردنی تیل درآمد کرنے‘کسی بین الاقوامی ادارہ سے قرض لینے‘ انگریزی کو سرکاری زبان بنائے رکھنے اورغیر پیداواری اخراجات پر اربوں روپے خرچ کرنے کو ممنوع قرار دے۔
قیام پاکستان کی کئی وجوہات تھیں مگر ان میں ایک بڑی یہ بھی تھی کہ کانگریس کے منشور میں زرعی اصلاحات شامل تھیں (جو آزادی کے بعد کانگریس نے عملاً کر دکھائیں) اور مسلمان جاگیرداروں کو کانگریس کا یہ ارادہ برُی طرح کھٹکتا تھا۔ اُنہوں نے مسلم لیگ میں شامل ہو کر بھی اپنی جاگیروں کا تحفظ کر لیا اور آپ نے دیکھا کہ وہ کتنے زیرک اور دور اندیش تھے کہ 74 برس گزر گئے مگر ہم آج تک بامعنی اور حقیقی زرعی اصلاحات کے پل صراط سے نہیں گزر سکے۔ ہمارے پاس درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ماہرین معیشت ہیں۔ کالم نگار نے اُن سے انفرادی رابطہ قائم کرنے کے علاوہ اس کالم کے توسط سے کھلا خط بھی لکھا مگر وہ ماسوائے ڈاکٹر شاہد صدیقی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت اور ڈاکٹر اکمل حسین‘ کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ کیا یہ اُن کا فرضِ منصبی نہیں کہ وہ ہمیں ہمارے سنگین معاشی مسائل کا حل بتائیں؟ حاصلِ کلام یہ ہے کہ کالم نگار کے بوڑھے ہاتھوں میں صرف ایک خستہ حال ٹوپی ہے اور وہ ہے فلاحی مملکت کا خواب۔آپ یہ مفت ملنے والی ٹوپی اوڑھ لیں۔آپ سکھی ہو جائیں گے اور کالم نگار بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں