کبڑے کی کمر کا خم

آج کے کالم کا عنوان پنجابی کے ایک معروف محاورے سے لیا گیا ہے۔ ایک کبڑا لڑائی کے دوران زمین پر گر پڑا تو اس کے حریف نے زور سے اس کی کمر پر لات ماری تاکہ اسے کاری ضرب لگائی جا سکے۔ نتیجہ توقع کے برعکس نکلا۔ کبڑے کی کمر کا خم نکل گیا اور وہ بھلا چنگا ہو کر اُٹھ بیٹھا اور لڑائی جیت گیا۔ یقین جانیے کہ یہ کوئی من گھڑت یا فرضی یا غیر حقیقی محاورہ نہیں۔ یہ زندگی کی ٹھوس صداقتوں کے عین مطابق ہے۔ بہترین مثال بعد از عالمی جنگ دوم کے مغربی جرمنی کی ہے جو جنگ میں شکست کھانے کے بعد مغربی طاقتوں (امریکہ‘ فرانس اور برطانیہ) کے زیر تسلط تھا۔ فاتح اقوام نے تجزیہ کیا کہ جرمنی ایک عشرے کے اندر ایک شکست خوردہ‘ تباہ حال اور بری طرح ٹوٹی پھوٹی حالت (جیسی ان دنوں ہماری ہے) کی پست سطح سے اُٹھ کر دیکھتے ہی دیکھتے ایک منظم‘ متحد اور طاقتور ملک کس طرح بن گیا؟ جواب تھا ایک مضبوط‘ جاندار اور تمام اختیارات کی مالک مرکزی حکومت کی وجہ سے۔ فاتح اقوام نے اس کا علاج یہ سوچا کہ جرمنی کے پرکاٹ دیے جائیں تاکہ وہ کبھی اڑ نہ سکے؛ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ جرمنی کو طاقتِ پرواز جس مرکزی حکومت کی بدولت ملی اگر اس کے اختیارات میں زیادہ سے زیادہ تخفیف کر دی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ فاتح اقوام کے قانونی ماہرین نے مغربی جرمنی کا جو آئین مرتب کیا اس کے مطابق اختیارات کا سرچشمہ مرکز سے لے کر نچلی اکائیوں کی ملکیت میں دے دیا گیا۔ آنے والے برسوں میں مغربی جرمنی کا وفاقی بندوبست اس کی حیرت انگیز اور زبردست ترقی کا باعث بنا۔ کبڑے کی کمر کا خم نکل گیا تو وہ اس تیز رفتاری سے ترقی کے مراحل طے کرنے لگا کہ اسے دوسری عالمی جنگ میں شکست دینے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔ پاکستان میں بھی اس سے ملتی جلتی صورتحال نظر آتی ہے۔ ایوب خان اور پرویز مشرف نے عوام دوستی کے تحت تو نہیں‘ بددلی سے مقامی جمہوری اداروں کا نظام ضرور قائم کیا۔ ایوب خان نے ہمیں صاف بتا دیا تھاکہ انہوں نے صدرِ مملکت کے انتخاب کا حق مقامی حکومتوں  کے 80 ہزار اراکین (کونسلروں) تک محدود کرکے رکھ دیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ان مقامی حکومتوں سے عامۃ الناس کو کوئی فائدہ پہنچے (جو یقینا پہنچا) تو وہ ضمنی (by-product) اور غیرارادی ہو گا۔ البتہ پرویز مشرف (جن کی کچھ پالیسیوں کی وجہ سے میں ان کا ناقد رہا ہوں) کو دس میں سے دس نمبر ضرور ملنے چاہئیں۔ یہی دیانت داری کا تقاضا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک دستِ راست کو مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے خطوط اور حدودِ اربعہ مرتب کرنے کا کام سونپا جس نے کمال کر دکھایا۔ یہ ثواب آنے والی (نام نہاد جمہوری) عوام کی چنی ہوئی حکومتوں کو جاتا ہے کہ اُنہوں نے جمہوری نظام کے بنیادی ستون کو اکھاڑ پھینکا اور پاکستان کا کاغذی‘ برائے نام اور غیر پائیدار سیاسی نظام پھر خلا میں معلق ہو گیا۔ ایک ایسا نظام کس طرح پائیدار ہو سکتا ہے جس کی زمین میں کوئی جڑ نہ ہو۔ کالم نگار کا علم سیاسیات کا مطالعہ 70 برسوں پر محیط ہے اور یہ مضمون پڑھانے پر زندگی کے پندرہ بہترین سال صرف کیے ہیں۔ اُن کا نچوڑ جن چند الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے وہ ہیں 'جمہوریت کا مطلب ہے مقامی حکومتیں‘۔ دوسرے الفاظ میں جمہوری حکومت تو ہوتی ہی مقامی ہے۔ مقامی حکومتوں کا فقدان قدرتی آفات (زلزلہ‘ سیلاب‘ قحط سالی) کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔ آج اگر ڈیرہ غازی خان میں ضلع‘ تحصیل اور گاؤں کی سطح پر مقامی حکومتیں ہوتیں تو بھوکے پیاسے بچے کھلے آسمان تلے نہ بیٹھے ہوتے۔ اسلام آباد‘ لاہور‘ کوئٹہ‘ پشاور اور کراچی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے افسروں کو کیا خبر کہ بلوچستان پر کتنی بڑی قیامت ٹوٹی۔ ملک کے سیاست دانوں کی ساری توجہ یا تو برسر اقتدار رہنے پر مرکوز ہے یا کسی نہ کسی طرح اقتدار کے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہونے کی سعادت حاصل کرنے پر۔ موجودہ نظام میں کسی ایک بھی صوبے میں حکومت کا نہ ہاتھ باگ پر ہے اور نہ پائوں رکاب میں۔
بڑے سرکاری افسروں‘ وزرا اور اسمبلی کے اراکین کی اکثریت عوام کے دکھ درد سے اول تو بالکل لاعلم ہے اور اگر ان سے آشنا ہو تو بھی اسے نہ اُن کی فکر ہے نہ پروا۔ 22 کروڑعوام اُن کے لیے محض اعداد و شمار ہیں۔ وہ عوام سے بالکل لاتعلق ہیں اور اُن پر بھروسا کرکے ملکی مسائل کو حل کرنے کی طرف ایک قدم بڑھانے سے قاصر بھی ہیں۔ اگر ایک ایسا کرشمہ رونما ہو جائے کہ تحریکِ انصاف بھی PDM میں شامل ہو جائے تب بھی نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔ مکمل ناکامی‘ بڑھتا ہوا مالی خسارہ‘ مہنگائی‘ نہ ٹوٹنے والا کشکولِ گدائی جو واشنگٹن سے لے کر قطر تک کا ہر سال کئی بار سفر کرتا ہے۔ غیر پیداواری اخراجات ہم کم نہیں کر سکتے۔ درآمدات ہم نہیں گھٹاتے۔ برآمدات ہم نہیں بڑھا سکتے۔ لاکھوں ٹیکس نادہندگان سے حکومت ٹیکس وصول نہیں کر سکتی۔ نہ ہم شبر زیدی کی فریاد سنتے ہیں‘ نہ ڈاکٹر اکبر زیدی کی اور نہ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی۔ ہمارے معاشی بحران کا علاج گزرے ہوئے دور کے وزرائے خزانہ (اسحاق ڈار‘ حفیظ شیخ‘ شوکت ترین اور اب مفتاح اسماعیل) کے پاس نہیں۔ کیا یہ ثابت نہیں ہو گیا کہ ہم نے صرف 75 برسوں میں جو معاشی حکمت عملی اختیار کی وہ ہمارے لیے تباہ کن تھی۔ وہ ہمیں دیوالیہ پن کی دہلیز تک لے آئی ہے۔ اب کیا یہی کسر رہ گئی ہے کہ ہم خدانخواستہ سری لنکا بن جائیں؟ اگر پاکستان ایٹمی قوت نہ ہوتا تو شایدیہ مرحلہ بھی آچکا ہوتا۔ ہم نے ان 75 برسوں سے کون سا سبق سیکھا؟ ایک بھی نہیں۔ آج بھی ہماری یہ حالت ہے کہ ایک شہباز گل سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والے لاکھوں دکھی افراد پر حاوی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نہ صرف ہنگامی حالات بلکہ قومی سوگ کا اعلان بھی کریں۔ ایک طرف سیاسی شو کا ایک اور کھڑکی توڑ ہفتہ اور دوسری طرف اتنی بڑی تباہی اوربربادی کی طرف سرسری اور سطحی توجہ۔ رونے اور آہ و بکا کرنے کا مقام ہے۔
ان 75 برسوں میں بیشتر حکومتیں نااہل اور بددیانت ثابت ہوئی ہیں۔ عمران خان نے ان چار ماہ میں اپنی چار سالہ حکومت کی ایک بھی غلطی‘ ایک بھی کوتاہی‘ ایک بھی فرض ناشناسی تسلیم کی ہے؟ کیا دنیا میں ایک بھی ایسا وزیر ہوا بازی نظر آیا جو اپنی پارلیمان کے اجلاس میں خود اعلان کرے کہ اس کی قومی ایئر لائن کے سارے ہوا بازوں کے پاس نقلی اور جعلی لائسنس ہیں؟ اگر وہ سابق وزیر پھر کابینہ میں شامل ہو گئے تو کیا پھر سے ویسے ہی کارنامے سرانجام دیں گے جو پہلے دے چکے ہیں؟ بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافوں نے انہیں عوام کے لیے ناقابل ادائیگی بنا دیا ہے۔ کالم نگار ایک غریب کسان کا پوتا ہے۔ مزدوروں کا ساتھی ہے۔ اپنے آپ کو افتادگانِ خاک میں شمار کرتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔ وہ مراعات یافتہ اور حکمران طبقہ کو مخاطب کرتے ہوئے چھ ہزار میل کے فاصلہ سے کہتا ہے کہ (بقول جالبؔ) چونکہ ابھی جاں باقی ہے‘ اس لیے آپ ایک ستم اور کر لیں۔ ہمارا خون مزید نچوڑ لیں مگر بقول فیضؔ: حذر کرو میرے تن سے یہ سم کا دریا ہے۔
آپ اشیائے ضرورت پر مزید ٹیکس لگا کر دیکھ لیں‘ امریکہ‘ چین اور عربوں سے مزید خیرات مانگ لیں‘ نوشتۂ دیوار یہ ہے کہ اس سے ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ موجودہ سیاسی اور معاشی نظام بسترِ مرگ پر ہے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں گر جائے گا یا منہدم ہو کر رہے گا۔ یہ تقدیر کے قاضی کا ازل سے فتویٰ ہے۔ اس ملبے سے ایک نیا عوام دوست نظام اُبھرے گا۔ بقول اقبالؔ ع
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں