ہمیں بچانے کوئی نہ آیا

عوامی شاعر حبیب جالب نے تقریباً نصف صدی پہلے ایک نظم لکھی تھی‘ آج کے کالم کا عنوان اس نظم کے دوسرے شعر کے آخری اُن پانچ الفاظ پر مشتمل ہے جو آج لاکھوں سیلاب متاثرین کی فریاد بن کر نوشہرہ سے راجن پور اور راجن پور سے سندھ اور بلوچستان کے سینکڑوں دیہات سے بلند ہو رہی ہے۔ یہ فریاد وہ دیہاتی کر رہے ہیں جن کے دیہات کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ مذکورہ بالا علاقوں پر سیلابِ بلا کی قیامت ٹوٹے دومہینے ہونے کو ہیں۔ مصیبت زدہ افراد کے لیے ایک ایک لمحہ سال کے برابر ہوتا ہے اور سال کا عرصہ صدیوں کے برابر۔ ہماری 75 سالہ تاریخ کا بدترین سیلاب نہ صرف چودہ سو سے زائد قیمتی انسانی جانوں‘سات لاکھ 75ہزار سے زائد مویشیوں‘ دس لاکھ 50ہزار سے زائد مکانوں‘ لاکھوں پھلدار درختوں اور لاکھوں ایکڑ پر محیط خریف کی فصلوں جن میں گنا‘ چاول‘ کپاس سر فہرست ہیں‘ کو بہا کر بحیرۂ عرب کا حصہ بنا گیا بلکہ وہ حکومت اور برسر اقتدار طبقے اور غریب و غیرمراعات یافتہ عوام کے درمیان قائم اُس رشتے کو بھی ملیا میٹ کر گیا ہے جو قومی وحدت اور حب الوطنی کے جذبے کی بنیاد ہوتا ہے۔
میرے نوجوان اور کم عمر قارئین تو یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک بڑا سمندری طوفان (Cyclone) آیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے اُ س وقت کے گورنر جنرل اعظم خان نے کمال کر دیا کہ وہ لنگی باندھ کر سیلابی کیچڑ میں اُترے اور متاثرین کو امدادی سامان پہنچانے میں رضا کاروں کا ہاتھ بٹایا۔ اس بے مثال کاوش کے باوجود بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومتِ پاکستان انہیں قیامتِ صغریٰ سے بچانے اور بروقت مؤثر امداد پہنچانے میں بری طرح ناکام رہی۔ اس کے بعد بد امنی کی آگ تیزی سے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں بھڑک اٹھی۔ بھارتی فوج کی جارحانہ مداخلت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔ بات دور نکل گئی۔ کالم نگار کا یہ مؤقف ہے کہ جس طرح ہم یہ اکثر کہتے ہیں اور بجا کہتے ہیں کہ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے‘ بالکل یہی منطق ریاست اور اس کے شہریوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ نہیں معلوم یہ الزام سچ ہے یا جھوٹ کہ سندھ میں کئی بڑے زمینداروں نے اپنی جاگیروں کو حالیہ سیلاب سے بچانے کے لیے جان بوجھ کر نہروں میں شگاف ڈال کر اور حفاظتی بند توڑ کر سیلاب کا رخ غریب کاشتکاروں کے کھیتوں اور آباد یوں کی طرف موڑ دیا۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ عدالتِ عالیہ اس سنگین الزام کی تحقیقات کے لیے کمیشن مقرر کرے تاکہ اگر یہ الزام سچ ثابت ہو تو ملزموں کو مناسب سزا دی جا سکے۔
چھ ہزار میل کے فاصلے سے اس کالم نگار کی آنکھوں کے سامنے جو بے حد المناک اور تکلیف دہ منظر نامہ ہے وہ میرے دل و دماغ میں ایک ڈراؤنے خواب سے بھی کئی گنا زیادہ دہشت اور خوف پیدا کرتا ہے۔ ٹیلی وژن پر نظر آنے والی تصویروں اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق سیلاب زدگان کو خوراک‘ دوائیاں‘ خیمے اور دوسری اشد ضرورتوں کو پورا کرنے والی اشیا کی فراہمی کا دو تہائی کام عوام نے انفرادی سطح پر یا فلاحی تنظیموں کے توسط سے کیا ہے۔ میں نے سرکاری اداروں کو‘ شک کا فائدہ دیتے ہوئے ایک تہائی ثواب کمانے کا حق دار ٹھہرایا ہے مگر سچ یہ ہے کہ میں نے یہ سطریں دل پر جبر کرکے لکھی ہیں۔ غالباً سرکاری امداد زیادہ سے زیادہ ایک چوتھائی تھی اور ممکن ہے کہ اس سے بھی کم۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہ تھا کہ وہ لوگوں کو آنے والے سیلاب سے ایک ماہ نہیں تو ایک ہفتہ قبل اور اگر یہ بھی ممکن نہ تھا تو ایک دن پہلے خبردار کر دیتی۔ اپنے تمام تر وسائل استعمال کرکے اُنہیں وہاں سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرتی۔ اگر یہ کارنامہ نوشہرہ کی ایک فرض شناس اور احساسِ ذمہ داری رکھنے والی خاتون افسر انجام دے سکتی ہے تو یہ کام سیلاب سے متاثرہ باقی اضلاع میں کیوں نہ کیا جا سکا؟ میری معلومات کے مطابق وفاقی کابینہ کا کوئی بھی رکن راجن پور نہیں گیا۔ میں جانتا ہوں کہ راجن پور اسلام آباد اور لاہور‘ دنوں شہروں سے کافی دور ہے۔ یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ جو رکنِ اسمبلی یا وزیر سندھ کے کسی سیلاب زدہ علاقہ میں گیا (بلوچستان کے برسرِ اقتدار سیاست دانوں نے یہ غلطی بھی نہیں کی) اسے سیلاب زدگان نے گھیر لیا۔ اس کے خلاف نعرے بازی کی جس سے یہی لگتا ہے کہ اگلے برس جب عام انتخابات منعقد ہوں گے تو ان لوگوں کے لیے اپنے حلقے سے الیکشن جیتنا پہلے کے مقابلے میں کئی گنا مشکل ہو گا۔ ڈاکٹر صوفیہ یوسف‘ اسد طاہر جپہ اور ڈاکٹر منور صابر شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اور کئی دوسرے روشن دماغ کالم نگاروں نے حالیہ تباہی کے اسباب اور روک تھام کی تدابیر اور سیکھے جانے والے اسباق بڑی اچھی طرح بیان کیے۔ لیکن کیا وہ ہماری بند آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں؟ اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگست 2022ء میں آنے والا سیلاب ہمیں آئندہ برسوں میں آنے والے سیلابوں سے خبر دار کر رہا ہے۔ خطرے کی گھنٹی زور زور سے بجا رہا ہے۔ فوج کے پاس نقل و حمل اور مواصلات کا بڑا اچھا نظام موجود ہے جسے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری محب وطن اور عوام کے جان و مال کی محافظ فوج عوام کو اس مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ مقامِ صد افسوس کہ ہمارا قومی بجٹ گزرے ہوئے برسوں کی طرح اس برس بھی خسارے میں ہی تھا اور ہمیں اپنے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ایک بار پھرآئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کی مدد مانگنا پڑی۔ پیارے مفتاح اسماعیل صاحب! آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پر آپ کو مبارک ہو مگر میں آپ کو زیادہ خوشی منانے سے اس لیے روکوں گا کہ ممکن ہے آپ کو اگلے سال بھی کشکولِ گدائی لے کر آئی ایم ایف اور دوست ممالک کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے۔ چلیے آج آپ کی محنت کام آئی اور روزِ بد (دیوالیہ پن) ٹل گیا۔ اب سیلاب یا زلزلہ آجانے کی صورت میں کیا لاکھوں افراد کو ریسکیو کرنے‘ انہیں اور ان کے مویشیوں کی جان بچانے کے لیے بھی ہم کسی اور ملک سے رجوع کریں گے کہ وہ اپنے امدادی دستے ہمارے آفت زدہ علاقوں میں بھیجے؟
2005ء میں جب زلزلہ آیا تو کیوبا نے سینکڑوں ڈاکٹر زلزلہ متاثرین کی دیکھ بھال کے لیے پاکستان بھیجے ‘مگر یہ ممکن نہیں کہ وہ اب بھی اپنے رضاکاروں کو ہمارے ملک میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بھیجے۔ چین جیسا جگری دوست بھی اس درخواست کو قبول کرنے سے معذرت کرے گا۔ یہ کام تو ہمیں اور ہمارے اداروں کو خود ہی کرنا پڑے گا۔ تمام فلاحی تنظیموں کا بھلا ہو ‘میں اُنہیں صبح شام دعائیں دیتا ہوں‘ کہ وہ اس کڑے وقت میں سیلاب متاثرین کے بہت کام آئیں لیکن یہ پتھر بہت زیادہ بھاری ہے وہ اسے اکیلے نہیں اٹھا سکتیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں