Yesterday's Men....(2)

غالباً دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی وزیراعظم نے کہا تھا کہ جنگ میں فوج کی قیادت کرنا اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ پیشہ ور عسکری رہنماؤں کو نہیں سونپی جا سکتی۔ جب کسی اخباری رپورٹر نے ہمت کرکے اتنے غیر روایتی بیان میں چھپی ہوئی حکمت کی وضاحت چاہی تو ونسٹن چرچل نے جواب دیا کہ ہر کمانڈر اپنی دوسری جنگ میں اپنی پہلی جنگ کی حکمت عملی کو دہراتا ہے۔ لکیر کا فقیر بن کر نئے زمینی حقائق‘ نئے میدانِ جنگ‘ نئے ہتھیاروں اور نئے سیاسی مقاصد کو یا تو نظر انداز کر دیتا ہے یا وہ وزن نہیں دیتا جس کے ہتھیار اور بدلے ہوئے حقائق مستحق ہوتے ہیں۔ ہر جرنیل اپنی لڑی ہوئی پہلی جنگ‘ بالخصوص جب وہ اس میں فتح یاب رہا ہو‘ کو ایک ایساBinding Precedent بنا لیتا ہے کہ وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتا اور پہلی جنگ میں فتح مند ہونے والا اکثر دوسری جنگ میں شکست سے دوچار ہوتا ہے۔
ہمارے اوپر انگریزوں نے دو سو سال تک محض چند ہزار سفید فام سپاہیوں اور برصغیر پاک و ہند کے مقامی لوگوں کی وفاداری سے حکومت کی۔ بنگال میں سراج الدولہ کی حکومت ہو‘ جنوبی ہند میں ٹیپو سلطان یا مرہٹوں کی سلطنت ہو‘ سندھ میں تالپوروں کا شاہی راج ہو یا پنجاب میں مہا راجہ رنجیت سنگھ کے جانشین‘ انگریز نے اپنے مٹھی بھر سفید فام سپاہیوں کی مدد سے پورے ہندوستان کو قریباً ایک سو سال کے اندر فتح کر لیا اور جب برٹش راج کو 1857ء میں پہلی جنگِ آزادی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ پنجاب سے سکھوں اور اپنے وفادار جاگیرداروں کے مہیا کردہ جتھوں کی مدد سے اس جنگ میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ تو تھا دورِ غلامی۔ برطانوی پارلیمان کی عطا کردہ آزادی‘ جس پر برطانوی بادشاہ ایڈورڈ ششم نے اپنی منظوری کے دستخط ثبت کیے‘ قانون کے مطابق ہمیں 14 اور 15 اگست کو ملی مگر صرف برائے نام‘ سطحی‘ نمائشی اورCosmetic۔ ملکہ برطانیہ‘ 1956ء میں پاکستان کے آئینی طور پر ایک جمہوریہ بن جانے تک ہماری سربراہِ مملکت رہیں۔ وہی سرکاری اور عدالتی نظام اور وہی پرانے قوانین۔ پنجاب اور آج کے خیبر پختونخوا میں وہی انگریز گورنر‘ بلوچستان میں وہی پرانا سرداری نظام اور Agent to Governor-General (AGG)۔ خیبر پختونخوا اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں وہی انگریز کا بنایا ہوا آزاد قبائلی نظام اور قوانین۔ انگریزوں کے متعارف کردہ پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے نگرانی اور مالی سر پرستی۔ کچھ بھی نہ بدلا ماسوائے یہ کہ انگریز حکمرانوں کی دیانتداری‘ فرض شناسی‘ اہلیت اور اپنے نافذ کردہ قوانین کے لیے حددرجہ احترام کا پاکستان سے روانگی کا سفر 1947ء میں شروع ہوا اور اگلے دس برس میں مکمل ہو گیا۔ پھر کرپشن‘ لوٹ مار اور ہر قسم کی بددیانتی اور پرلے درجہ کی نالائقی کا ایسا بازار گرم ہوا کہ مت پوچھیں۔ علامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اس میں فرنگیوں کے مزید احسان اٹھانے کے بجائے سفالِ پاک سے مینا و جام پیدا کیے جانے تھے۔ ہم نے مگرکیا کیا؟ ہماری کارکردگی کیا ہے؟ بصد مشکل قیامِ پاکستان سے نو برس بعد ایک آئین مرتب کیا جو 1939ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا چربہ تھا۔ مشرقی پاکستان ہو یا سرحدی صوبہ‘ جہاں بھی مسلم لیگ کو انتخابات میں بھاری شکست ہوئی وہاں گورنر راج نافذکردیا گیا۔ پہلے عام انتخابات 24 برس بعد ہوئے اور اس کے نتیجے میں جس سیاسی جماعت نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اسے اقتدار دینے سے انکار کرتے ہوئے اس پر چڑھائی کر دی گئی۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ صدیوں پرانا‘ عوام دشمن‘ گلا سڑا اور فرسودہ نظام ہی ہمارا اصل دشمن ہے۔ ہمارے تمام رہنما جو اس نظام کو اپنے ایمان کا حصہ بنائے ہوئے ہیں‘ وہ ہمیں اندھیرے میں دھکیلتے دھکیلتے ان 75 برسوں میں جس گہری دلدل میں پھنسا چکے ہیں وہاں نہ ہم رک سکتے ہیں اور نہ وہاں سے بھاگ کر جان بچانے کی سکت رکھتے ہیں۔ یہ ہے وہ سنگین بحران جس کا فی الحال کوئی علاج نظر نہیں آتا۔ عوام دوست شکستہ صف ہیں اور شکستہ دل۔ سیاسی قیادت جماعت کی سطح سے بلند ہو کر سوچے گی اور متحد ہو گی تو سویرا ہوگا‘ ورنہ ہمیں اندھیرے میں ہی رہیں گے۔
یہ بات یقینی ہے کہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں عام انتخابات ضرور ہو جائیں گے مگر یہ بات بھی اتنی ہی یقینی ہے کہ اگر نئی حکومت میں بھی سیاسی نظام وہی رہا جو 75 برسوں سے ہمارے اوپر مسلط ہے تو ہمارے حالات‘ جو اس وقت بے حد خراب ہیں‘ جوں کے توں رہیں گے یا مزید خراب ہو جائیں گے۔ انتخابات موجودہ حکمران طبقے کو‘ جو ہمارے ہر سنگین بحران کا ذمہ دار ہے‘ Re-cycle کر دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں نظام نہیں صرف چہرے بدلیں گے۔ وہی مغربی سامراج کی غلامی‘ وہی IMF اور ہمارا کشکولِ گدائی‘ وہی انگریزی زبان بولنے اور انگریزی میں سوچنے والے ایک فیصد طبقے کی 99 فیصد پر بالادستی اور نمرود کی خدائی جس کی بندگی میں عام بندوں کا آج تک بھلا نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ وہی عوام دشمن معاشی نظام جس میں ایک زرعی ملک اپنی آبادی کے لیے درکار خوراک بھی درآمد کرتا ہے۔ وہی غیر جمہوری نظام جس میں مقامی حکومتیں نہیں ہوتیں اور اگر سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت بادل نخواستہ بنا بھی دی جائیں تو بے اختیار اور بے وسائل رہتی ہیں۔ وہی تھانہ کچہری میں کروڑوں عوام کی ذلت اور خواری اور وہی بے بس اور لاچار عوام کو تھانہ کچہری کے عذاب سے بچانے کی سیاست۔ بقول اقبال‘ وہی خواجہ جو بلند بام ہے اور وہی عوام جو بنیادی انسانی حقوق رکھتے ہوئے بھی آج تک کوچہ گرد ہیں۔ خس و خاشاک اور نہ ختم ہونے والی خزاں میں ٹوٹے ہوئے زرد پتوں کی طرح دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے عوام۔ نہ عوام قوتِ اُخوت عوام ہیں نہ جمہور اور نہ سلطانیٔ جمہور۔ نہ غریب اور امیر کے لیے یکساں قانون اور نہ قانون کی حکمرانی۔ نہ خوشی اور نہ خوشحالی۔ ہمارا علامتی Titanic ہر روز زیادہ خطرناک گرداب میں پھنستا جا رہا ہے مگر جہاز چلانے والے عرشۂ جہاز پر کرسیوں کی ترتیب پر لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ وہ نظام جس میں وزیراعظم عوام کی فریاد سنے یا نہ سنے‘ اس کے شاہی محل کی دیواریں وہاں ہونے والی نہ صرف باتیں سن سکتی ہیں بلکہ وہ ہماری حالت پر رحم کھاتے ہوئے ہمیں وہ باتیں سناتی بھی رہتی ہیں تاکہ کروڑوں بے بس لوگوں کی لاعلمی اور عدم واقفیت کا مداوا کیا جا سکے۔ وہی انگریز کے کم از کم سو سال پہلے بنائے ہوئے چار صوبے اور وہی انتظامی بنیادوں پر ہر بڑی ڈویژن کو صوبائی درجہ دینے سے انکار کی روش۔ وہی دورِ غلامی میں بنائی گئی سرکاری افسروں کے تبادلوں کی تباہ کن حکمت عملی جو ہر سال ہر بجٹ پر اربوں روپوں کا بوجھ ڈالتی ہے۔ وہی دو کروڑ کے شہر کراچی کو مقامی حکومتوں کے بجائے سرکاری بابوؤں کے ذریعے چلانے کی ناکام اور تباہ کن کوشش۔ وہی قیامت خیز سیلاب اور ان کی ناقابلِ بیان تباہ کاریاں اور حکمرانوں کی وہی بے اعتنائی اور نالائقی اور حسنِ کارکردگی کا فقدان۔ وہی زراعت کا ناقص کھادوں اور ناقص بیچ پر انحصار۔ وہی سنگ ِخشت سے جہانِ تازہ پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے نیم خواندہ اور جاہل حکمران۔ وہی بابو راج اور بددیانتی اور نالائقی کا مہلک امتزاج۔ گیارہ اکتوبر بروز منگل‘ سوات کے شہر مینگورہ میں ہزاروں افراد کے بے مثال مظاہرہ میں نامنظور نامنظور کے نعرے اتنی بلند آواز میں لگائے گئے کہ ان کی بازگشت ہزاروں میل دور تک سنی گئی۔ یہ آوازِ خلق ہے جو نقارۂ خدا ہے۔ وہ وقت قریب آرہا ہے جب یہی آواز وطنِ عزیز کے ہر شہر اور قریہ سے بلند ہوگی اور سارے کے سارے Yesterday's Men تاریخ کے کوڑے دان میں جاگریں گے۔ یہ تاریخ کے قاضی کا ازل سے فتویٰ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں