ایک فیصد خواص بالمقابل ننانوے فیصد عوام

جو بات میری طرح دیگر کالم نگار کہتے اور لکھتے (تھوڑے یا زیادہ) بوڑھے ہو گئے یا ڈاکٹر مبشر حسن‘ حیدر بخش جتوئی‘ قصور گردیزی‘ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید اور مسعود کھدر پوش کی طرح اس بیانیے کو دُہراتے اور فریاد کرتے کرتے اگلے جہان چلے گئے‘ وہی بات 17 اکتوبر کو مفتاح اسماعیل نے کراچی کی ایک یونیورسٹی کی بھری بزم میں کہہ دی مگر اُنہوں نے یہ بات پہلی بار نہیں کہی۔ اب آپ بتائیے کہ اگر وہ بڑے تاجروں‘ صنعتکاروں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کی کابینہ میں سے آناً فاناً معزول کر دیے گئے تو اس میں حیرت کا کیا مقام ہے؟ اگر وزیراعظم صاحب ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر سیلاب زدگان کی حالتِ زار کو آسمان کی بلندیوں سے دیکھنے اور دیگر سیاسی جھمیلوں میں مصروف نہ ہوتے تو جب مفتاح اسماعیل کا بیان اُن کی نظر سے گزرتا تو شاید وہ اس دیدہ دلیری سے سچ بولنے کے جرم میں ان سے خفا ہو جاتے۔ میری طرح کے ''پینڈو‘‘ اور دُوسرے کالم نگار نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں۔ مذکورہ بالا ماہرینِ معیشت بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند ہیں؛ یعنی صدا بصحرا۔
یونیورسٹی میں میزبان ڈاکٹر اقدس افضل کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے مفتاح اسماعیل کو اپنا مہمان بنایا اور اُنہیں اظہارِ خیال کا موقع دیا۔ اُن خبر نویسوں کا بھی بھلا ہو جنہوں نے سچائی کی آواز (جو پہلے شبر زیدی بھی بلند کر چکے ہیں) کو اپنے لاکھوں قارئین تک اور میرے پاس سات سمندر پار‘ چھ ہزار میل کے فاصلے پرپہنچایا۔ مفتاح اسماعیل نے لگی لپٹی رکھے بغیر سچ سچ کہا کہ تین وجوہات ہمارے معاشی زوال اور نہ ختم ہونے والی گدا گری اور دیوالیہ پن کے گرداب تک پہنچ جانے کی ذمہ دار ہیں۔ اُن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشی نظام میں نہ انصاف ہے اور نہ مساوات۔ اُس کی بنیاد ہی کرایہ داری (Rentier Economy)‘ لوٹ مار اور ٹیکس چوری ہے اور 99 فیصد عوام کی عمر بھر کی محنت مشقت کا مقصد ایک فیصد مراعات یافتہ طبقے (اشرافیہ) کی اربوں کی دولت کو بطور (غیر مراعات یافتہ) کسان اور مزدور سے مزید بڑھاتے رہنا ہے۔ ''پاکستان کامعاشی مستقبل‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیشہ سے یہ ہوتا رہا ہے کہ قرض لے کر قرض اتارا جا تا ہے، 40 لاکھ پاکستانی جو باہر رہتے ہیں، وہ 30 ارب ڈالر یہاں بھیجتے ہیں، اگر آپ کے پاس 40 ارب ڈالرکے وسائل ہیں تو آپ کو حق ہی نہیں کہ آپ 80 ارب ڈالرکے امپورٹ کریں، امیر ترین پاکستانی تو ڈالرز میں گاڑیاں افورڈ کر لیں گے لیکن غریب پاکستانی روٹی بھی افورڈ نہیں کر سکتا۔
آپ یورپ کے جن ممالک کے معاشی نظام کو محض سرمایہ داری کے عوام دشمن ستونوں پر استوار دیکھتے ہیں‘ وہ تقریباً سب کے سب فلاحی ریاستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مفت تعلیم اور مفت علاج کے علاوہ بے روزگاروں‘ بوڑھوں اور دائمی مریضوں کے لیے اتنے معقول وظیفے کی ادائیگی کہ اُن کا گزارہ اچھی طرح ہو جائے۔ ہر شخص کے سر پر چھت مہیا کرنے کی ذمہ داری۔ بے روز گاری الائونس اور بڑھاپے میں اچھی پنشن۔ بوڑھوں کے لیے بس اور ٹرین پر مفت سفر کی سہولت۔ انسان توبہرحال اشرف المخلوقات ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں پودوں‘ درختوں‘ پرندوں‘ جنگلات‘ جنگلی حیات اور جانوروں (خصوصاً جو پالتو ہوں) کی حفاظت‘ فلاح و بہبود اور ان سے حسنِ سلوک کو یقینی بنانے کے لیے بھی بڑے سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ ابھی ہمارے فرسودہ اور ظالمانہ نظام پر معاصر میں لکھے گئے ایک مضمون کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی (اور نہ اسے پڑھنے والوں کے آنسو) کہ شاہ زیب کے قاتلوں کو (یقینا ٹھوس اور وزنی قانونی دلائل کے پیش نظر) بری کر دیا گیا۔ اگرہم اپنے اردگرد زندگی کے ہر شعبے پر نظر ڈالیں تو کیا دیکھتے ہیں؟ استحصال‘ ناانصافی‘ عدم مساوات‘ طاقتور کے سامنے بے بسی اور قانون کی بے عملی۔ سارا سال محنت کرنے والے دہقان (کسان) کو روزی میسر نہیں ہو پاتی۔ مزدور کو ملنے والی مزدوری اتنی کم ہوتی ہے کہ اُس کا نہ پسینہ خشک ہوتا ہے اور نہ اُس کے بال بچوں کے بہتے ہوئے آنسو۔ قانون و انصاف کے ایوان تو ہیں مگر انصاف نہیں۔ ہسپتال ہیں مگر وہاں عام آدمی کے لیے علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مریض کو تو رہنے دیں‘ اگر آپ ایک صحت مند شخص کو بھی سرکاری ہسپتال میں داخل کرا دیں تو وہ چند دنوں میں ہسپتال کے اندر چار سو پھیلی گندگی (اور چھت پر رکھی ہوئی درجنوں لاوارث لاشوں) کے تعفن سے اتنا بیمار ہو جائے گا کہ شاید مستقل بستر سے جا لگے۔ آپ بدقسمتی سے کسی جرم کا نشانہ بن جائیں تو آپ کا اصل امتحان اُس وقت شروع ہوگا جب آپ تھانے میں جا کر اس کی رپورٹ درج کرانے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مناسب روزگار مل جانے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو وہ بہت جلد خاک میں مل جائیں گے۔ اگر آپ کو خوش قسمتی سے اچھی ملازمت مل جائے تو بیشتر صورتوں میں آپ کے افسران آپ کو ذاتی ملازم سمجھیں گے۔ آپ سے توہینِ آمیز سلوک کریں گے۔ آپ سے توقع رکھیں گے کہ آپ کرپشن کی کانِ نمک میں جا کر خود بھی نمک بن جائیں۔ اگر آپ افسرانِ بالا کے ذاتی (اور غیر قانونی) احکامات کی تعمیل نہ کریں گے اور ضابطۂ قانون کا احترام کرنا اپنا شعار بنالیں گے تو بہت جلد معزول (یا کم از کم معطل) کر دیے جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔
اگر آپ صارف ہیں تو ہر پیداواری ادارہ مختلف حیلوں بہانوں سے آپ کو دھوکا دینے‘ گھٹیا مال فروخت کرنے‘ زیادہ (منہ مانگی) قیمت وصول کرنے اور قانون کی کتاب میں درج صارفین کے حقوق کو پامال کرنے کے لیے بے تاب نظر آئے گا۔ وہ بھی شرمندہ اور نادم ہوئے بغیر۔ اگر آپ کا سماجی‘ سیاسی اور معاشی درجہ بلند ہے تو آپ اپنا پیدائشی حق سمجھیں گے کہ آپ اپنے سے کمزور کو دبائیں۔ اس کے حقوق غصب کریں اسے اپنا ''کمی‘‘ (جو شمالی پنجاب کے دیہات میں لوہار‘ جولاہے اور ترکھان کو کہتے ہیں) سمجھیں۔ اسے اس کا کمتر درجہ بار بار یاد کرائیں۔ اسے زکوٰۃ‘ صدقہ دے کر اس پر احسان جتائیں۔
جب یہ سطور پاکستان سے چھ ہزار میل کے فاصلے پر بیٹھ کر لکھی جا رہی تھیں تو کوئٹہ میں اساتذہ کے مظاہرے پر پولیس کے لاٹھی چارج اور کراچی میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے احتجاجی دھرنے کی پریشان کن خبریں آرہی تھیں۔ پشاور میں اساتذہ کے دھرنے پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی خبریں چند دنوں سے سمع خراشی کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ گزشتہ دنوں سینیٹ کے اجلاس میں ریاض پیر زادہ اور اختر مینگل نے کمال بہادری سے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کر کے کالم نگار کا سر فخر سے اونچا کر دیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے دھڑا دھڑ ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں مگر سندھ کی حکومت کراچی میں مقامی حکومت (City Corporation) کے انتخابات نہیں ہونے دے رہی۔ سندھ اور بلوچستان میں سینکڑوں دیہات بدستور سیلاب کے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مہلک اور متعدی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ سردی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ لاکھوں مصیبت زدگان کے پاس نہ چھت ہے‘ نہ خوراک اور نہ ہی دوائی۔ اُن کا کوئی والی وارث نہیں۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کے اندر لاوارث مریض پڑے ہوئے ہیں اور چھت پر لاوارث لاشیں بکھری پڑی ہیں مگر ہم ان لاکھوں لاوارث افراد کو کیوں نہیں دیکھتے جو پاکستان میں امیر طبقے کے پالتو جانوروں سے بھی زیادہ خراب اور تکلیف دہ زندگی (بطورِ جہدِ مسلسل) گزار رہے ہیں۔ نسل در نسل! ہر دور میں! ہر عہد میں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں