ایک فیصد خواص بالمقابل ننانوے فیصد عوام … (2)

گزشتہ کالم میں پاکستان کے خواص اور عوام کے طرزِ زندگی کا موازنہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کچھ بات برطانیہ کی بھی ہو جائے۔ برطانوی وزیراعظم لز ٹرس کا صرف 44روز بعد ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا اپنی جگہ ایک انوکھا واقعہ ہے۔ مستعفی ہونے سے چند روز قبل ہی انہوں نے اپنے وزیرخزانہ (Chancellor of the Exchequer) اور اپنی وزیرداخلہ (Home Secretary) کو معزول کیا تھا۔ تب ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ دارالعوام میں ان کی اپنی پارٹی کے وہ ممبران جو بطور کابینہ اراکین‘ وزرا اور پارلیمانی سیکرٹری سرکاری بنچوں پر نہیں بیٹھتے اور کمیٹی1922ء کے اراکین کہلاتے ہیں‘ ان پر اتنا دبائو ڈالیں گے کہ وہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہو نے کی ندامت کا سامنا کرنے کے بجائے خود ہی استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جائیں گی۔ صدیوں پرانی روایت کے مطابق ہر برطانوی وزیراعظم ہر جمعرات کی دوپہر کو برطانوی ملکہ یا بادشاہ کو ملنے جاتا/ جاتی ہے۔ خاتون وزیراعظم نے اس روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی ہی ایک ملاقات میں شاہ چارلس سوم کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر ان کی پارٹی نیا وزیراعظم چن لے گی اور اس دوران وہ اپنے سرکاری فرائض عبوری طور پر سرانجام دیتی رہیں گی۔ 21اکتوبر کو دنیا کے دو سو ممالک میں جتنے بھی خبر نامے نشر ہوئے اور جتنے بھی اخبارات شائع ہوئے‘ ان میں برطانوی وزیراعظم کا غیر متوقع استعفیٰ ایک نمایاں خبر تھا۔ استعفیٰ دینے کے بجائے اگر لزٹرس بادشاہ کو پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں (House of Commons) معینہ مدت پوری کرنے سے قبل ہی توڑ دینے کا مشورہ دیتیں تو بادشاہ اَن لکھے آئین کے مطابق یہ مشورہ قبول کرنے کا پابند تھا مگر انہوں نے جمہوری اصولوں کا احترام کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔ پھر ان کے خلاف ان کی اپنی پارٹی کی بغاوت کی کیا وجہ تھی؟ صرف ایک ہی تھی اور وہ تھی ان کا عوام دشمن بجٹ۔ یورپ کا کوئی بھی ملک ہو‘ سربراہِ مملکت صدر ہو یا بادشاہ‘وہاں حکومت کی عمارت جن اصولوں پر کھڑی کی جاتی ہے وہ ہیں سلطانیٔ جمہور‘ قوت اخوت عوام کی پاسبانی‘ قانون کی حکمرانی‘ بڑے سے بڑے عہدیدار اور بڑے سے بڑے ادارے کا احتساب‘ شفافیت اور قومی مفاد کی خاطر ذاتی اور سیاسی مفادات کی قربانی۔
علمِ کیمیا‘ طبعیات اورBiology کی طرح سیاسیات بھی ایک سائنس ہے۔ اس کے بھی اتنے ہی سکہ بند اصول ہیں‘ اٹل سچائیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں گزشتہ چھ برس کے دوران پانچ وزیراعظم تبدیل ہو چکے ہیں اور اس کے باوجود وہاں زندگی کا پہیہ معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں کھوکھلے نعرے لگانے‘ 75برسوں سے اپنے آپ کو اور عوام کو دھوکہ دینے اور عوام کے بنائے گئے ملک میں عوام کو اقتدار سے محروم رکھنے کی نہ ختم ہونے والی سازش کرتے رہنے کا جو ہولناک نتیجہ نکلا‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ ایک نہیں دس الیکشن کروا لیں‘ حالات بد سے بدتر ہی ہوں گے۔ ترقی پسند‘ عوام دوست اور روشن دماغ افراد ہمارے ملک میں ہزاروں ہیں‘ مگر وہ منتشر ہیں کیونکہ اُنہیں ڈھونڈنے والی نظر بدقسمتی سے کسی بڑی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے۔ وہ بکھرے ہوئے ہیں‘ ایک منشور پر متفق نہیں۔ ایک تنظیم کی چھتری تلے نہیں۔ مجھ سمیت ایسے افراد بار بار ہمارے سیاسی افق کی طرف اور کبھی کروڑوں ستم زدہ‘ غیر مراعات یافتہ 99 فیصد عوام اور پھر ان پر حکومت کرنے والے‘ ان کا خون چوسنے والے اور استحصال کرنے والے ایک فیصد طبقہ کی طرف دیکھتے ہیں مگر انہیں نہ کوئی روشنی نظر آتی ہے‘ نہ کوئی اُمید کی کوئی کرن۔ لیکن فیض صاحب نے ہمیں یہ یقین دلایا تھا کہ ؎
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہوگا
99 فیصد کا یومِ نجات‘ آج نہیں تو کل ہم دیکھیں گے۔ ضرور دیکھیں گے۔ لز ٹرس کے بعد ایشیائی نژاد رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر خزانہ رشی سوناک کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھ گیا اور انہیں بلا مقابلہ برطانیہ کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے چن لیا گیا۔ ان کے دادا گو جرانوالہ کے رہنے والے تھے اور وہ نقل مکانی کرکے مشرقی افریقہ کی برطانوی کالونی میں جا آباد ہوئے تھے اور اپنے بیٹے یعنی رشی کے والد کو طب کی تعلیم دلوائی جو برطانیہ میں بطور ڈاکٹر کام کرتے رہے۔ اب اُسی ایشیائی نژاد ڈاکٹر کا بیٹا برطانیہ کا وزیراعظم بن چکا ہے۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت کی گاڑی جن دو پہیوں پر چلتی ہے وہ ہیں حزبِ اِقتدار اور حزبِ اختلاف۔ اگر ان کے درمیان مثبت مکالمہ‘ دوستانہ رشتہ‘ جاندار رابطہ اور ورکنگ ریلیشن شپ اس قدر کمزور‘مدہم یا ناقص ہو جائے کہ وہ مل کر کام نہ کر سکیں تو اس کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ ہے ایک غیر جمہوری حکومت‘ یا غیر جمہوری عناصر کی تائید سے بنائی ہوئی نااہل لوگوں کی حکومت۔ آج ہم جس آتش فشاں پہاڑکی چوٹی پر کھڑے ہیں وہاں تحریک انصاف اورپی ڈی ایم میں کوئی کارآمد رابطہ اور اشتراکِ عمل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب ملکی سیاست میں ایک خطرناک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ عمران خان کا مؤقف یہ ہے کہ اس خلا کو جلد از جلد انتخاب کر کے پر کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ مطالبہ اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ چونکہ ان دنوں ان کی مقبولیت عروج پر ہے اور وہ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ اگر مستقبل قریب میں انتخابات ہوئے تو وہ دو تہائی اکثریت نہ بھی لے سکے تو واضح اکثریت تو حاصل کر ہی لیں گے۔ دوبارہ برسر اقتدار آجائیں گے مگر یہ امید رکھنا تو صریحاً خام خیالی ہوگی کہ وہ پی ڈی ایم کا اس طرح صفایا کر دیں گے کہ وہ نہ صرف سینیٹ میں بلکہ قومی اسمبلی میں بھی کم از کم ایک تہائی نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ اس طرح سیاسی پولرائزیشن کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جائے گی۔ آج احتجاج کرنے والے‘ لانگ مارچ کرنے والے‘ اسلام آباد میں دھرنا دینے والے کل کو حکومتی بینچوں پر بیٹھ کر وزارتوں کے قلمدان سنبھال لیں گے تو آج کے وزیر اور مشیر اور اُن کے سیاسی حلیف کل کی اپوزیشن بن جائیں گے۔ پھر وہ حکومت کے خلاف اسی شدت سے مظاہرے کریں گے جس طرح ان کے خلاف آج کی اپوزیشن کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم قومی اسمبلی کے الیکشن میں شکست کھا بھی جائے تب بھی وہ اتنی سٹریٹ پاور کی مالک ہو گی کہ اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے کے لیے ہزاروں افراد کو اپنے شکست خوردہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کر سکے۔ پھر کاروبارِ مملکت کس طرح چلے گا؟ اُس سنگین بحران پر کس طرح قابو پایا جائے گا؟ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آج اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والے یہ بھی سوچیں اور سوچنے کے بعد ہمیں بتائیں کہ بعد از اقتدار جب پانسہ پلٹ جائے گا‘ آج کے مظاہرین کے رہنما کل کے وزیر ہوں گے اور آج کے وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج کل کے مظاہرین بن جائے گی‘ تب منظر نامہ کیا ہوگا اور برسرِ اقتدار پی ٹی آئی دکھوں سے ماری ہوئی قوم کو مسائل کے بھنور سے کس طرح نکالے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں