ایک فیصد خواص بالمقابل ننانوے فیصد عوام… (3)

یہ سطور لکھنے کیلئے نو اور دس نومبر کی درمیانی رات جو نہی قلم کاغذ پر رکھا تو قلم رُک گیا۔ وجہ؟ چھ ہزار میل کے فاصلہ سے پہاڑوں‘ سمندروں‘ دریائوں اور جھیلوں کے اُوپر اُڑتی ہوئی‘ بحیرہ عرب کے کنارے ایک شہر سے ایک ایسی آواز آئی جسے سُن کر ایک بوڑھے دل کا یہ حال ہوا جو فیض کے الفاظ میں اُس بیمار کا ہوتا ہے جسے بے وجہ قرار آجائے یا اُس ویرانہ کا جس میں بے وجہ اور بے موسمی بہار آجائے۔
کانوں پر اعتبار نہ آتا تھا۔ لگتا تھا کہ ایک سہانا سپنا ہے ۔کوئی خواب دیکھ رہا ہوں کہ یہی میری طرح کے عمر رسیدہ افراد سوتے جاگتے‘ زیادہ تر جاگتے دیکھنے کے فن کے ماہر ہو جاتے ہیں۔ خصوصاًوہ لوگ جن کی عمر پہلے رہنمائوں سے اُمید باندھتے اور پھر ان کے ''رہزنوں‘‘ میں تبدیل ہو جانے پر پاش پاش ہو جانے والی اُمیدوں کی کرچیاں اُٹھانے میں اپنے خونچکاں دل اور فگار انگلیوں سے بہتا ہوا خون پونچھنے میں صرف ہوتی ہے۔ مگر جونہی بے یقینی کی گرد بیٹھی تو پتہ چلا کہ جو کچھ سنا وہ تصوراتی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی تھا۔ آواز بھی نہ سر ور باری کی تھی اور نہ عاصم سجاد اختر کی‘ نہ عبدالستار نہ عمار علی جان کی‘یہ چاروں بائیں بازو کے نظریات سے عمر بھر وابستہ رہے اور اس کالم نگار کو فخر ہے کہ یہ اُن کے خستہ حال‘ پے در پے صدمات اُٹھا کر لڑکھڑاتے ہوئے اُفتاں و خیزاں قافلے کا ایک فرد ہے۔ جو چار آوازیں آئیں وہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل‘ چیف جسٹس اطہر من اللہ ‘ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور شعیب شاہین (صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار) کی تھیں۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے تو کمال کر دیا اور ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ بقول شاعر کبھی کبھار کعبہ کو صنم خانے سے پاسبان مل جاتے ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما ہیں۔ دوبار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ (دوسری بار سالِ رواں میں)۔ وہ محض یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے اور کالم لکھنے والے یارانِ نکتہ دانوں میں سے ایک نہیں بلکہ محرمِ رازِ دورنِ خانہ ہیں۔ وہ خسرواں (حکمرانوں) کے خویش (رشتہ دار) نہ بھی ہوں اُن کے اتنے قریبی ساتھی ضرور ہیں کہ اُمور ِمملکت کو اتنی ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں جس طرح FBR کے سابق چیئرمین شبّر زیدی۔ اُن کی سوچ کا ڈاکٹر حفیظ شیخ‘ ڈاکٹر حفیظ پاشا اور موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اندازِ فکر سے اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ قطبین کا۔ موخرالذکر تینوں حاضر اور سابق وزرائے خزانہ ایک فیصد خواص کے مفادات کے نگہبان ہیں جبکہ مفتاح اسماعیل ننانوے فیصد عوام کے۔ اُن کا کمال کا چشم کشا‘ فکر انگیز‘ سو فیصدی دیانت داری اور سچائی پر مبنی‘ ابرِ رحمت بن کر بنجر‘ نیم مردہ‘ مفلوج ذہنوں پر برسا۔ پڑھانے والے سُنیں۔اساتذہ کا تو سرمایہ دارانہ نظام میں جنم لینے اور پروان چڑھنے والے اہل مدرسہ نے گلا گھونٹ دیا تو وہ حکم اذاں کی صدا سُنیں تو کیونکر؟ وہ سب صرف اندھے نہیں‘ بہرے اور گونگے بھی ہیں۔ اندھی آنکھوں پر عوام دشمنی کی موٹی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اقبال نے ایک شاہکار نظم لکھی جس میں دلِ مسلم کو زندہ تمنا دیے جانے کی دعا کے ساتھ خدائے بزرگ و برتر سے یہ دعا بھی مانگی کہ جو کچھ اُنہیں دکھایا گیا وہ اوروں کو بھی دکھلا دے۔ کتنی خوشی کی بات ہے کہ پانچ عالم فاضل ماہرینِ معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ڈاکٹر علی چیمہ‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت اور ڈاکٹر فرخ سلیم بھی ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کے حامی اور ہم خیال ہیں۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے تو پہلے حبیب یونیورسٹی کراچی میں ڈاکٹر اقدس افضل کی دعوت پر اسی موضوع پر بہت اچھی تقریر کی اور پھر اپنے اسی Radical‘ غیر رواجی‘ غیر روایتی اور موجودہ عوام دشمنStatus Quoکو اپنی کڑی تنقید اور مذمت کا نشانہ بناتے ہوئے دس نومبر کو ایک اخبار میں اتنا ہی اچھا کالم لکھا جس میں اُن کا حاصلِ کلام یہ تھا کہ ہمارے ملک کا نام Islamic Republic کے بجائے One Percent Republicہونا چاہئے۔ ہمارے ٹیکس وصولی کے نظام سے لے کر‘ جو افراد کی آمدنی پر ڈائریکٹ کم ٹیکس لگاتا اور ضروری اشیا پر زیادہ اِن ڈائریکٹ ٹیکس لگاتا ہے‘ اچھی تعلیم‘ مناسب علاج اور روزگار کی سہولیات کا فقدان ہے۔ بڑھتا ہواافراطِ زر‘ مہنگائی کا نہ ختم ہونے والا عذاب ِ عظیم‘ نظام انصاف سے محروم‘ غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں عوام کی بے بسی‘ بے کسی‘ لاچارگی ہے۔
تازہ ترین مثال تین کروڑ اہل وطن مرد و عورتیں‘ بچوں‘ مریضوں اور بوڑھوں کی قیامت خیز سیلاب میں تباہی اور ساری سرکاری مشینری کی تین ماہ بعد بھی ان کے دکھوں کا مداوا کرنے‘ انہیں علاج اور خوراک اور جھونپڑی/ خیمہ کی سہولیات مہیا کرنے میں مکمل ناکامی کی دی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی بہادر اور باضمیر صحافی غیر مراعات یافتہ لوگوں (ننانوے فیصد) کی حمایت میں آواز اُٹھاتا ہے‘ آوازِ خلق کا ترجمان بن جاتا ہے تو ایک فیصد خواص اُسے خریدنے اور لالچ دے کر چپ کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ناکام ہو جائیں (جو وہ اکثر ہوتے ہیں) تو پھر اُسے تشدد اور ضروری ہو تو قاتلانہ حملے کا نشانہ بناتے ہیں۔ نہ ہمارے زخموں کی تعداد کم ہے اور نہ ہمارے دکھوں کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر روز‘ ہر ماہ‘ ہر سال فریاد کرتے رہیں گے‘روتے رہیں گے‘ آہ و زاری کرتے رہیں گے یا ان مسائل کا جو ننانوے فیصد عوام کو درپیش ہیں‘ کوئی حل بھی ڈھونڈیں گے اور اگر بہت سی اچھی تصاویر سوچی‘ لکھی اور چھاپی جا چکی ہیں تو پھر انہیں پڑھیں گے‘ غور کریں گے‘ تبادلہ ٔ خیال کریں گے اور پھر اتفاقِ رائے سے ان تجاویز کو عملی شکل دینے کیلئے بھرپور جدوجہد کریں گے۔ ایک متحدہ محاذ بنا کر ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کے بجائے جامع مسجد بنا ئیں گے کہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔
یہاں برطانیہ میں چھ سالوں میں پانچویں وزیراعظم کی ڈھنڈیا پڑی۔ Liz Truss بادشاہ کو پارلیمنٹ کا ایوان زیریں (House of Commons ) معینہ معیاد پوری ہو جانے سے ڈیڑھ سال قبل ہی توڑ دینے کا مشورہ دیتیں توبادشاہ (اَن لکھے آئین کے مطابق) یہ مشورہ قبول کرنے کا پابند ہوتا مگر اُنہوں نے جمہوری اصولوں کا احترام کرتے ہوئے ایسانہیں کیا۔ اُن کے خلاف ان کی اپنی پارٹی کی بغاوت کی کیا وجہ تھی؟ صرف ایک ہی تھی اور وہ تھی اُن کا عوام دشمن بجٹ۔ یورپ کا کوئی بھی ملک ہو‘ سربراہ مملکت صدر ہو یا بادشاہ‘ حکومت کی عمارت جن اصولوں پر کھڑی کی جاتی ہے وہ ہے سلطانی ٔجمہور۔ قوتِ اُخوت عوام کی پاسبانی‘قانون کی حکمرانی۔ بڑے سے بڑے عہدے دار اور بڑے سے بڑے ادارے کا احتساب‘ شفافیت اور قومی مفاد کی خاطر ذاتی اور سیاسی مفادات کی قربانی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں