ایک فیصد خواص بالمقابل ننانوے فیصد عوام … (آخری حصہ)

علم کیمیا‘ طبعیات اور حیاتیات کی طرح سیاسیات بھی ایک سائنس ہے۔ اس کے بھی اتنے ہی سکہ بند اُصول ہیں۔ اٹل سچائیاں ہیں۔ کھوکھلے نعرے لگانے‘ 75 سالوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دینے‘ جھوٹے دعوے کرنے اور عوام کے بنائے گئے ملک (مشرقی پاکستان)میں عوام کو اقتدار سے محروم رکھنے کی نہ ختم ہونے والی سازش کرتے رہنے کا جو ہولناک نتیجہ نکلا‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ ایک نہیں‘ دس الیکشن کروالیں‘ حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے بلکہ بد سے بدتر ہو جائیں گے۔ ترقی پسند‘ عوام دوست اور روشن دماغ افراد ہمارے ملک میں ہزاروں ہیں (مگر بدقسمتی سے کسی بڑی سیاسی جماعت کے پاس ایک بھی نظر نہیں آتا) مگر وہ منتشر ہیں۔ بکھرے ہوئے ہیں۔ ایک منشور پر متفق نہیں۔ ایک تنظیم کی چھتری تلے نہیں۔ میری طرح کامیلا حیات بھی بار بار ہمارے سیاسی اُفق کی طرف اور کبھی کروڑوں ستم زدہ‘ غیر مراعات یافتہ (99 فیصد) پھر ان پر حکومت کرنے والے‘ ان کا خون چوسنے والے اور استحصال کرنے والے ایک فیصد طبقے کی طرف دیکھتا ہے۔ بار بار دیکھتا ہے اور اُسے نہ کوئی روشنی نظر آتی ہے‘ نہ کوئی اُمید کی کوئی کرن۔ مگر فیضؔ صاحب نے ہمیں یقین بھی دلایا تھا کہ :
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہو گا
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت (صدارتی نظام سے کہیں زیادہ) کی گاڑی جن دو پہیوں پر چلتی ہے وہ ہیں حزبِ اِقتدار اور حزبِ مخالف۔ اگر ان کے درمیان مثبت مکالمہ‘ دوستانہ رشتہ‘ جاندار رابطہ اور ورکنگ ریلشن شپ اتنا کم یا مدہم ہو یا اس قدر Disfunctional ہو جائے کہ وہ مل کر کام نہ کر سکیں تو اس کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ ہے غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع مل جانا۔ کسی غیر سیاسی قوت کا ابھر کر سامنے آ جانا۔ آج ہم جس آتش فشاں پہاڑکی چوٹی پر کھڑے ہیں وہاں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں کسی کارآمد رابطے (اشتراکِ عمل تو دُور کی بات ہے) کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب ایک خطرناک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ عمران خان کا موقف یہ ہے کہ اس خلا کو جلد از جلد انتخابات کا انعقاد کرا کے پُر کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ مطالبہ اس مفر وضے کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ اِن دنوں ان کی مقبولیت عروج پر ہے اور وہ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ اگر مستقبل قریب میں انتخابات ہوں تو وہ دو تہائی اکثریت نہ بھی لے سکیں تو واضح اکثریت تو حاصل کر ہی لیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات اس مسئلے کا حل نہیں ہیں کیونکہ انتخابات سے امید رکھنا تو صریحاً حماقت ہوگی۔ اگر خان صاحب دوبارہ برسرِ اقتدار آجائیں گے تو وہ پی ڈی ایم کا اس طرح صفایا کر دیں گے کہ وہ نہ صرف سینیٹ میں بلکہ قومی اسمبلی میں بھی کم از کم ایک تہائی نشستوں سے محروم ہو جائے گی۔ سیاسی پولرائزیشن کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گی۔ آج احتجاج کرنے والے‘ لانگ مارچ کرنے والے اسلام آباد میں دھرنا دینے والے حکومتی بینچوں پر بیٹھ کر وزارتوں کے قلمدان سنبھال لیں گے تو آج کے وزیر اور مشیر اور اُن کے سیاسی حلیف کل کی اپوزیشن بن جائیں گے۔ پھر وہ حکومت کے خلاف اُسی شدت سے مظاہرے کریں گے جس طرح اُن کے خلاف آج کی اپوزیشن کر رہی ہے۔
پی ڈی ایم قومی اسمبلی کے الیکشن میں شکست کھا بھی جائے‘ تب بھی وہ اتنی سٹریٹ پاور کی مالک ہو گی کہ اسلام آباد کا کامیاب گھیرائو کرنے کے لیے پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ افراد کو اپنے تار تار پرچم تلے اکٹھا کر سکے۔ پھر کاروبارِ مملکت کس طرح چلے گا؟ اُس سنگین بحران پر کس طرح قابو پایا جائے گا؟ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والے لشکرِ جرار کا رہنما یہ بھی سوچے (اور سوچنے کے بعد ہمیں بتائے) کہ بعد از اقتدار جب پانسہ پلٹ جائے گا‘ آج مظاہرین کے رہنما کل کے وزیر ہوں گے اور آج کے وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج کل کی اپوزیشن بن جائے گی تو منظر نامہ کیا ہوگا اور برسرِ اقتدار پی ٹی آئی دُکھوں سے ماری ہوئی قوم کو نئے بھنور سے کس طرح نکالے گی؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ہر دُوسرے سیاسی رہنما کے مقابلے میں عمران خان صاحب کو متوسط طبقے کی شہری آبادی اور نیم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی واضح اکثریت کی تائید حاصل ہے مگر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتاکہ وہ کسانوں‘ مزدوروں‘ اساتذہ‘ نرسوں‘ لیڈی ہیلتھ ورکروں‘ نچلے متوسط طبقے کے افراد‘ سندھ کے ہاریوں‘ پنجاب کے مزارعین‘ چھوٹے کاشت کاروں یا کچی بستیوں میں رہنے والوں کی نمائندگی یا ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ اسے تولیول پلئینگ فیلڈ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر عمران خان کا یہ دعویٰ سچ مان بھی لیا جائے کہ اُن کا جہاد پاکستان پر ایک فیصد خواص کی سیاسی اور معاشی اَجارہ داری کے خلاف ہے تو یہ کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ وہ 99 فیصد غیر مراعات یافتہ آبادی کے دل و جان سے ہمدرد اور حلیف ہیں؟ پی ٹی آئی جس طبقے کی حمایت سے اُبھری‘ وہ ساری آبادی کا بمشکل چند فیصد ہوگا۔ غالب اکثریت افتادگانِ خاک (جن کی بالائی سطور میں نشان دہی کی گئی ہے) تو پھر بھی بے آواز‘ بے بس‘ لاچار‘ مظلومِ و محکوم‘انصاف اور مساوات کی برکتوں سے محروم رہ جائیں گے۔ وہ کدھر جائیں؟ جائیں تو جائیں کہاں؟ اُن کے پائوں صدیوں کے نہ ختم ہونے والے استحصالی نظام نے اتنے زخمی کر دیے ہیں کہ بقول غالبؔ:
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
جب سندھ کے ہاریوں کو دوسرا حیدر بخش جتوئی نہیں ملتا۔ وُکلا کی صفوں سے دُوسرا محمود علی قصوری نہیں اُبھرتا۔ پنجاب کے مزارعین اور چھوٹے کاشتکاروں کی کوئی اور شیخ محمد رشید آواز نہیں بنتا۔ بڑے سرکاری افسروں اور ''بابو‘‘ ذہنیت کے مالک نہ کوئی اور اختر حمید خان پیدا کرتے ہیں اور نہ کوئی اور مسعود کھدر پوش۔ بنگلہ دیش بنا تو نہ مشرقی پاکستان رہا اور نہ مولانا بھاشانی جیسے عوامی رہنما (لنگی باندھنے والے‘ جھونپڑی میں رہنے والے اور چین کے وزیراعظم کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھانے والے)۔ اگر بقول اقبالؔ آپ کسی مردِ تن آساں کو اپنا قائد بنائیں گے تو یاد رکھیں کہ وہ صرف تن آسانوں کے کام آئے گا۔ لاکھوں کروڑوں محنت کش کاشتکار بہت بڑے سیلاب میں ڈوب جائیں تو وہ اپنے ہیلی کاپٹر پر بادلوں کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے اُنہیں بڑے محفوظ فاصلہ سے دیکھے گا اور ہمدردی کے رسمی الفاظ ادا کرکے اس اطمینان سے اپنے محل میں سو جائے گا کہ اُس نے اپنا فرض ادا کردیا۔ بائیں بازو کے ترقی پسند اور عوام دوست یا تو مغربی ممالک سے وُصول کردہ عطیات سے این جی اوز چلا رہے ہیں۔ (جو اگرچہ ایک نیکی اور بھلائی کا کام ہے) یا بے عمل‘ منتشر‘ شکستہ دل اور شکستہ صف ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ تو وہیں ہے جہاں پہلے تھا مگر وہاں 23 مارچ 1970ء والی تاریخی کسان کانفرنس منعقد کرنے والے نہ رہے۔
پاک سرزمین سے 55 سالوں سے چھ ہزار میل دُور رہنے والا ایک بوڑھا شخص اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ خواب دیکھ کر گزارہ کر رہا ہے کہ پاکستان فلاحی مملکت بنے گا۔ یہاں قانون کی حکمرانی ہو گی۔ انصاف اور مساوات کا دور دورہ ہو گا۔ ایک فیصد خواص کے درمیان اقتدار کی جنگ تو محض ایک خانہ جنگی ہے۔ اصل اور عہد ساز جنگ تو وہ ہو گی جو ننانوے فیصد عوام ایک فیصد خواص کے خلاف لڑیں گے۔ آج نہیں تو کل‘ اپنے حقوق کی جنگ نوشتہ دیوار ہے۔ جس میں ہر وہ کھیت‘ جو دہقاں ہی کو روزی نہیں دیتا‘ اُس کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ تاریخ کرے گی کہ ہم انقلابی اصلاحات کرتے ہیں یا انقلاب لاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں