قومی و عوامی مطالبات

آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت کتنے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ یہ بحران کئی بڑے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی سے پیدا ہوا ہے۔ سیاسی انتشار اور خلفشار۔ معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ۔ افراطِ زر۔ مہنگائی اور بے روز گاری میں روز افزوں اضافہ۔ اربوں ڈالروں کے داخلی اور خارجی قرضہ کا ناقابلِ ادائیگی بوجھ۔ بلوچستان کے عوام کی جائز شکایتیں۔ لاکھوں سیلاب زدگان کو خیموں سے لے کر خوراک کی فراہمی میں ناکامی۔ کوئلے کی کانوں میں مزدوروں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں۔ گوادرکے ماہی گیروں کی حق تلفی۔ قانون کی حکمرانی اور آئین کے احترام کا فقدان۔ نہ سلطانی جمہور نہ قوتِ اُخوتِ عوام۔ سیاسی اور معاشی نظام پر ایک فیصد حکمران اشرافیہ کا قبضہ۔ مقامی حکومتوں کے نظام کے قیام (اور انتخابات) کی شدید مزاحمت۔ سیاسی جماعتوں کی صرف حصولِ اقتدار اور اقتدار کے ذریعے اربوں کھربو ں کے منصوبوں میں دلچسپی۔ جمہوری نظام کا بار بار ڈی ریل ہونا اور چار طویل آمرانہ ادوار۔ یہ تھے ہمارے چند سنگین مسائل‘ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ قومی مسائل صرف قومی اتفاقِ رائے سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس وقت ہر ایک قومی مسئلے پر کسی بھی قسم کے مشترک موقف (یا چارٹر) کا فقدان ہے اور اس کا امکان دُور دُور تک نظر بھی نہیں آ رہا۔ اس اندھیرے میں روشنی کی صرفِ ایک کرن ہے اور وہ ہے سول سوسائٹی۔ وہ کیا ہے؟ تمام سیاسی جماعتوں کے عوام دوست اور محب وطن اراکین۔ عدالت عالیہ۔ وُکلا۔ صحافی۔ اساتذہ۔ ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکرز۔ طلبہ اور طالبات۔ تعلیم یافتہ اور خوشحال گھریلو خواتین۔ سول سروس اور فوج کے ریٹائرڈ افسران۔ کسانوں اور مزدوروں کی تنظیمیں۔ سماجی فلاح و بہبود کی انجمنیں۔ ترقی پسند اور سامراج دُشمن دانشور۔ یہ ہیں وہ طبقات جن پر سول سوسائٹی مشتمل ہے۔ ان کا ایک متحدہ محاذ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے برطانیہ اورپاکستان میں سرگرم عمل ہے۔ اس متحدہ محاذ کا نام ہے قومی مجلس مشاورت۔ میرے‘ آپ کے‘ ہمارے ہاتھ میں واحد ہتھیار رائے عامہ ہے۔ آپ کا فرض ہے کہ رائے عامہ کو عوامی مطالبات کے حق میں ہموار کرنے کے لیے اپنی مدد کا ہاتھ بڑھائیں۔ آپ کی امداد کے بغیر سول سوسائٹی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
درپیش ملکی و قومی مسائل کے تناظر میں اس وقت کے فوری قومی و عوامی مطالبات یہ ہیں: بلوچستان کے تمام دُکھوں اور محرومیوں کا مداوا اور وہ بھی جلد از جلد۔ سب سے بڑی ترجیح گم شدہ افراد کی بازیابی کو بنایا جائے۔ چند ہفتوں کے اندر نظر آنے والے مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات کیے جائیں۔ کوئلے کی کانوں میں مخصوص گہرائی سے زیادہ کان کنی کی اجازت نہ دی جائے۔ کوئلے کی کانوں میں مزدوروں کی جان کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے لیے بااختیارکمیشن بنایا جائے۔ 2023ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے پہلے ہر بڑے شہر اور ہر صوبے میں‘ ہر سطح پر‘ مقامی حکومت کا باوسائل اور بااختیار نظام قائم کرنے کے لیے انتخابات کرائے جائیں۔ مقامی حکومتیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ہزار گنا زیادہ عوام کے قریب‘ عوام کی ترجمان‘ خدمت گزار اور گھاس کی جڑوں کی طرح زمین سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ آئین پاکستان کے مطابق مملکت کا تیسرا ستون ہیں۔ انگریز کے بنائے گئے صوبائی حد بندیوں کے بجائے 38 ڈویژنوں (Divisions) کو صوبائی درجہ دیا جائے۔ (ممتاز دانشوروں نے اس مطالبے کی حمایت کی ہے) ان کی اپنی اسمبلی‘ اپنا منتخب گورنر‘ اپنی پولیس اور اپنا ترقیاتی بجٹ ہو اور اُنہیں وہی داخلی خود مختاری حاصل ہو جو امریکہ کی ہر ریاست کو حاصل ہے اور یہی امریکہ کی ترقی کا راز بھی ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں (جو قانون سازی کے بنیادی فرض کی ادائی میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں) کے اراکین‘ وزیروں اور مشیروں کو ایک روپیہ بھی تنخواہ نہ دی جائے اور نہ کوئی مالی مراعات۔ ہم اب یہ بوجھ مزید نہیں اُٹھا سکتے۔ اس وقت ہر ایک رکنِ اسمبلی کے کروڑوں روپے ماہانہ اخراجات کا بوجھ قومی خزانے پر ڈالنا کسی طور منصفانہ نہیں۔ پارلیمانی نظام کی افادیت پر بھی نظر ثانی کی جائے۔ تمام غیر ملکی دوروں‘ سرکاری منصوبوں کے افتتاح کی مضحکہ خیز اور مہنگی روایات اور قومی دولت کے ضیاع کے تمام کاموں کو موقوف اور منسوخ کیا جائے۔ پاکستان میں ''ٹیکس ٹو جی ڈی پی‘‘ تناسب (قومی آمدنی میں ٹیکسوں کا حصہ) سب سے کم ہے۔ ہماری بیشتر معیشت آج بھی غیر دستاویزی ہے۔ موجودہ غیر دستاویزی معاشی نظام میں نہ لاکھوں دُکاندار ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی حکمران اشرافیہ۔ ایک سال کے اندر محصولات کی وُصولی کو چار گنا تک بڑھایا جائے تاکہ ہم دیوالیہ پن سے بچ جائیں۔ موجودہ انتخابی نظام عوام دُشمن ہے‘ لہٰذا تمام انتخابات متناسب نمائندگی کے ذریعے کرائے جائیں۔ ریکوڈک معاہدے سے متعلق بلوچ رہنما اختر مینگل اور بلوچستان اسمبلی میں اختر حسین لانگو کا احتجاج نظر انداز نہ کیا جائے۔ کیا باقی ماندہ دُنیا میں معدنیات نکالنے والی کمپنیاں نصف حصہ لیتی ہیں؟ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے ریکوڈک معاہدے کو کن بنیادوں پر کالعدم قرار دیا تھا؟ اُن کی کن ماہرین نے قانونی معاونت کی تھی؟کیا ملکی معیشت کو لگنے والے اس بڑے دھچکے کی تحقیقات نہیں ہونی چاہئیں؟
قومی معاشی ادارے (سٹیل مل، پی آئی اے اور ریلویز) اس وقت قومی خزانے پر ہر سال اربوں روپوں کا بوجھ ہیں۔ اگر ان اداروں میں کام کرنے والوں کو اُن کا مالک بنا دیا جائے تو وہ ان اداروں کو نفع بخش بنا کر اربوں روپے ٹیکس دیں گے۔ غروبِ آفتاب کے بعد ایک گھنٹے کے اندر تمام دُکانیں‘ مارکیٹیں بند کر دی جائیں تاکہ توانائی کی بچت ہو۔ کروڑوں ایکڑ غیر آباد زمین لاکھوں بے زمین کسانوں کو آسان قسطوں پر فروخت کر دی جائے۔ تین صحرائوں میں چار کروڑ ایکڑ قابلِ کاشت زمین کو سیراب کر کے غذائی قلت ختم کی جا سکتی ہے۔ (اسرائیل نے یہ کر کے دکھا دیا ہے) برآمد کنندگان کو بیرونِ ملک کمائے گئے ڈالروں کو چھ ماہ کے لیے ملک سے باہر رکھنے کی اجازت کو گھٹا کر ایک ماہ کر دیا جائے۔ سمگلنگ (خصوصاً مغربی سرحدوں پر) کے مکمل انسداد کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں‘ نچلی سطح پر نظامِ عدل کرپشن زدہ ہو چکا ہے‘ اس کا علاج کب اور کس طرح ہوگا؟ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جائیں اور قیامت خیز سیلابوں کی روک تھام کرنے میں مسلسل ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کیا جائے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے 12 دسمبر کے کالم میں لکھا ہے کہ 24 برس پہلے رِیو کانفرنس کی سفارشات پر عمل تو دُور کی بات‘ ہم نے 2012ء میں اپنی بنائی ہوئی موسمیاتی پالیسی پر بھی قطعاً عمل نہیں کیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبائی حکومتوں کو سونپی گئی مگر وہ آج تک اپنی انگلی بھی نہیں ہلا سکیں۔ نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی پر اجلاس پچھلے چار سالوں سے نہیں ہوا۔ 2018ء میں بنائی گئی قومی آبی پالیسی اور 2020ء میں قومی توانائی پالیسی بنائی گئی۔ حکمت عملی کے کسی ایک لفظ پر بھی عمل نہیں ہوا۔ ہماری کوئی بھی حکومت موسمیاتی تبدیلیوں کے مسئلے (جو ہمارے لیے موت و حیات کا درجہ رکھتا ہے) کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ خطرے کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے۔ جلد از جلد ان سنگین غفلتوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے۔ چار ماہ کے بعد بھی لاکھوں سیلاب زندگان کے پاس خیمے ہیں اور نہ خوراک۔ سرد موسم میں وہ دہری مشکلات کا شکار ہیں۔ صوبہ سندھ میں سیلاب کا پانی ابھی تک کھیتوں اور دیہات میں کھڑا ہے اور اگلا مون سون صرف سات‘ آٹھ ماہ دور ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دھرتی پر جو کچھ ہے وہ رب کا ہے اور جو رب کا ہے وہ سب کا ہے۔ سول سوسائٹی کے متعدد طبقات نے مندرجہ بالا مطالبات کی حمایت کی ہے اور وہ آپ (ہر محب وطن اور عوام دوست شخص) سے تائید کی اپیل کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت (سیاست کی پست سطح سے بالاتر ہو کر) خدمت گزاروں کی ضرورت ہے اور جتنی شدید ضرورت اب ہے‘ اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں