مداری اور تماشا

علامہ اقبال نے جب ساقی نامہ (جو آپ بال جبریل میں پڑھ سکتے ہیں) لکھا تو اُس میں فرمایا کہ:
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
سو سال پہلے تو سرمایہ داری اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی تھی مگر علامہ اقبال کو اللہ تعالیٰ نے وہ بصارت اور بصیرت دی تھی جو اندھیری شب میں چیتے کی آنکھ کو اپنا چراغ بنا سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کا سراغ پا لینے والے برگزیدہ افراد میں شامل ہوئے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اقبال کو سرمایہ داری کی یہ بلند و بالا دیوار پہلے ہی گرتی ہوئی نظر آگئی۔ یہ تھیں اُن کے دیدۂ بینا کی کرامات۔ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل دیکھنے والی آنکھ۔ اس آنکھ نے سلطانیٔ جمہور کا آتا ہوا زمانہ دیکھا۔ اقبال نے ایک مہربانی اور یہ کی کہ قرآن پاک کا مطالعہ کر کے ہمیں بتایا کہ:
دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں‘ تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں‘ تیری نہیں‘ میری نہیں
یعنی ساری زمین رَب کی ہے اور جب رَب کی ہے تو وہ سب کی ہے۔ زمین کے اصل مالک نے زمین پر اس کی تفویض کردہ ملکیت کا حق صرف کاشتکار کو دیا ہے۔ ہل چلانے والے کو۔ زمین پر بیج بونے والے کو۔ سارا دن پانی میں کھڑے ہو کر دھان بونے والے کو۔ علامہ اقبال نے دیکھ لیا کہ سرمایہ دار طبقہ (اس طبقے کو علامہ اقبال نے ساحر یعنی جادوگر کہا تھا) جو اپنی شعبدہ بازی سے محنت پر سرمایہ کی بالادستی قائم کرتا ہے۔ اقبال یورپ میں آنے والی اُن تمام تبدیلیوں (جن کی منزل فلاحی مملکت کا قیام تھا) سے اتنے متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے تحفظات کا اظہار کیے بغیر دوسرے مصرع میں یہ خوش خبری بھی دی کہ تماشا دکھانے والا مداری گیا یا اس کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ آج گیا یا کل گیا۔ آنے والی ایک صدی میں اشتراکی انقلاب کا سیلاب چین اور ویت نام (مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا )کو اپنی لپیٹ میں لے کر‘ بحر اوقیانوس کو عبور کرتے ہوئے‘ کیوبا اور لاطینی امریکہ میں وینزویلا اور دوسرے ممالک تک جا پہنچا۔ کالم نگار نے ایک یورپی ملک میں 55 برس کے قیام کے دوران وہ تمام سنگین بحران دیکھے اور مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ برداشت کیے جو صدیوں پرانے مستحکم سرمایہ دارانہ نظام میں زلزلوں کی طرح باقاعدگی سے آتے رہتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراطِ زر۔ Have Nots (اُفتادگانِ خاک) کی غربت اور محرومیوں کے خاتمے میں ناکامی اور سماجی عدم مساوات‘ (فلاحی مملکت کی برکتوں کے باوجود) کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسی نہ کسی یورپی ملک میں محنت کشوں کا ایک حصہ ہڑتال کر کے اپنے مطالبات منوانے پر مجبور نہیں ہوتا۔ گزرے ہوئے سال میں سری لنکا اور لبنان کا جو حشر ہوا وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ آپ کو شاید علم نہ ہو کہ گزرے ہوئے سال میں لبنان کے ایک بینک میں جو شخص بندوق لے کر داخل ہوا وہ ڈاکو نہ تھا بلکہ وہ اُس بینک کا کھاتہ دار تھا جو آتشیں اسلحہ دکھا کر بینک کے عملہ سے اپنی وہ رقم بزور شمشیر وصول کرنے آیا تھا جو بینک اُسے دینے سے انکاری تھا۔ بینکوں کی کمزور مالی حالت کی وجہ سے اُنہیں تمام کھاتہ داروں کو اُن کی اپنی امانتاً رکھی ہوئی رقوم واپس لوٹانے میں اور چیک کیش کرنے میں اتنی مشکل پیش آرہی تھی کہ کھاتہ داروں کو مجبوراً بندوق اُٹھا کر اپنے بینک پر دھاوا بولنا پڑا۔ لبنان کی آبادی صرف چھپن لاکھ ہے۔ نوجوان تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں اور قریباً ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد یورپ یا امریکہ یا کینیڈا میں رہتا ہے۔ اس لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو ملک سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ اب ہم اپنے آپ کو دیکھیں۔ آبادی 22 کروڑ سے بھی زائد۔ نوجوانوں کی اکثریت نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور نہ ہنر مند۔ ملک میں روزگار نہیں اور بیرونِ ملک ورک ویزوں پر طرح طرح کی پابندیاں۔ وہ جائیں تو جائیں کہاں؟ گزرے ہوئے سال میں سات لاکھ سے زائد افراد پاکستان سے بیرونِ ملک جا کر کام کاج‘ محنت مزدوری کرنے لگے مگر 21کروڑ 93لاکھ کے بارے میں سوچیں۔ وہ ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کی چکی میں پستے جا رہے ہیں۔ نیا سال زیادہ مشکل ہوگا۔ یہ سال اپنے ساتھ متوسط اور نچلے متوسط طبقے اور محنت کشوں خصوصاً غیر ہنرمند اور کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے اور بڑے عذاب لائے گا۔ توانائی کا بحران اپنی جگہ‘ بجلی اور گیس کے بل اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی ادائیگی کی استطاعت نہ ہوگی۔ گھریلو خواتین کیا کریں؟ کس کو بددعائیں دیں؟ ماں باپ فاقے کر لیں گے مگر اُن کے بچے؟ خصوصاً چھوٹی عمر کے بچے؟ اگر ہمارا حکمران طبقہ اس بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی سوچے تو وہ ہر شام پنج ستارہ ہوٹلوں اور مہنگے ریستورانوں میں ہزاروں روپے فی کس کا کھانا نہ کھائے؟
پاکستان کے سیاسی اُفق پر ان دنوں اک نئی پتنگ اڑ رہی ہے جس کا نام ہے ٹیکنو کریٹ حکومت ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ فرضی ہے یا اصلی؟ لیکن ایک بات (ماہر معیشت ہوئے بغیر) جانتا ہوں کہ یہToo Little, Too Late والا معاملہ ہوگا۔ معاشیات کا اصل نام ہے Political Economy ‘ ہر معاشی فیصلہ بنیادی طور پر سیاسی ہوتا ہے۔ آپ ٹیکنو کریٹ کو کاروں کی ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کرنے والا مستری یا کاریگر ہی سمجھیں۔ آمدنیوں پر ٹیکس لگانے اور درآمد پر آمد پالیسی مرتب کرنے سے لے کر زرعی اصلاحات‘ محنت کشوں کو اُن کی جابز اور مناسب اُجرت (جس کے وہ حقدار ہوں) کی ادائیگی‘ ایک فیصد امیر خوشحال طبقہ کو تمام مراعات سے محروم کرنے‘ کروڑوں ایکڑ غیر آباد زمین کو لاکھوں بے زمین کسانوں میں تقسیم کرنے‘ کارخانوں میں مزدوروں کو منافع میں حصہ دار بنانے‘ اجارہ داریاں ختم کرنے‘ معاشی نظام کو اشتراکی اُصولوں پر ڈھالنے‘ سود پر چلنے والی بینکاری کو ختم کرنے‘ سرمایہ پر محنت کو ترجیح دینے‘ اشیائے خوردنی اور سامانِ تعیش کی درآمد بند کرنے‘ کاروں اور اُن کے استعمال کو مہنگا کرکے لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ (بسوں یا ٹرینوں) پر سفر کرنے پر مجبور کرنے‘ پرانے زمانے کے تانگوں اور سائیکلوں کے استعمال کو دوبارہ رائج کرنے اور قومی بجٹ سے خسارہ ختم کرنے تک‘ یہ سب سیاسی فیصلے ہوں گے۔ یہ عوام دوست انقلابی فیصلے نہ شوکت ترین کریں گے نہ حفیظ شیخ اور نہ حفیظ پاشا اور نہ ہی کوئی IMF کے تربیت یافتہ اور نہ اُن کے قبیلے کا کوئی اور فرد۔ پھر اقبال یاد آئے:
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود سے ہے
یہاں یہود سے مراد ہے سرمایہ دار۔ ہماری رگِ جاں کس کے قبضہ میں ہے؟ چھوٹے بڑے سرمایہ دار اور اجارہ دار کے قبضے میں۔ غیر ملکی سرمایہ دار کے دیسی گماشتے‘ ارب پتی سیٹھ‘ اربوں کھربوں کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان‘ اعلیٰ سرکاری افسران۔ نہ مزید لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کالم نگار میں اتنی جرأت کہ وہ آپ کو یہ بھی بتائے کہ کون سے عناصر ہیں جو اس گلے سڑے‘ فرسودہ اور عوام دشمن نظام کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ وہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ یک جان اور دو قالب۔ ضرورت بہت بڑی جوہری تبدیلی کی ہے۔ نمائشی کاموں اور سطحی اصلاحات سے کام نہیں چلے گا۔ آپ ذرا یہ سوچیں کہ ٹیکنو کریٹس (ایسے ماہرینِ معیشت جو عوام کے سامنے جوابدہ نہ ہوں) معاشی حالات کو بہتر بنائیں گے یا بدتر؟ جب اُن کی حکومت ناکام ہوگی تو پھر ہم کیا کریں گے؟ پھر تخت پر کِسے بٹھائیں گے؟ پھر ہمارا مسیحا کون ہوگا؟ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی خود غرضی‘ لوٹ مار‘ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینے کے بعد جو خلا پیدا ہوا وہ کرائے کے سپاہی پر نہیں کر سکتے۔ کرائے کے سپاہیوں کی نہ زمین میں جڑیں ہوتی ہیں اور نہ اس زمین پر رہنے والے انسانوں کے دل و دماغ میں۔ آج کا کالم شروع اقبال سے ہوا تھا اور ختم افتخار عارف کی کمال کی غزل کے آخری شعر کے دوسرے مصرعے پر ہوگا۔ یہی حرفِ آخر ہے۔
جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں