پرانے بتوں کے پجاری

علامہ اقبال نے لگ بھگ سو سال پہلے جب برہمنوں (دانشوروں‘ خصوصاً ماہرینِ معیشت )کو دیکھا تو اُنہوں نے ایک کمال کی نظم لکھی جس کا عنوان تھا ''نیا شوالہ‘‘۔ ایک صدی گزر گئی‘ پُلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا‘ روس سوویت یونین بنا اور اشتراکی نظام (ذرائع پیداوار پر کسانوں‘ مزدوروں کے بجائے سرکاری افسروں کا قبضہ) کی ناکامی کے بعد سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد وہ دوبارہ روس بنا۔ اٹلی، جرمنی، سپین، پرتگال اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں فسطائیت (Fascism) جیسی لعنت نے اپنے عوام دشمن پنجے گاڑ دیے اور فاشسٹ (Fascist) نظریات کے حامی سیاسی رہنما بدقسمتی سے برسرِ اقتدار آگئے اور پھر بری طرح ناکام ہو کر تاریخ کے کوڑے دان میں جا گرے۔ اقبالؔ نے برہمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی سلیس زبان میں کہا کہ اگر آپ برا نہ مانیں اور ناراض نہ ہوں تو میں آپ کو وہ بات بتاناچاہتا ہوں جو آپ نہیں جانتے اور وہ بات یہ ہے کہ آپ اپنے صنم کدوں میں سجائے جن بتوں کی پرستش اور پوجا کر رہے ہیں‘ وہ پرانے ہو چکے ہیں۔ اب وہ time barred ہیں۔ ان کی shelf life ختم ہو چکی ہے‘ وہ فرسودہ اور بے کار ہیں (یعنی از کارِ رفتہ)۔ نہ کام کے نہ کاج کے! براہِ مہربانی انہیں اُٹھا کر باہر پھینک دیں۔ گھر ہو یا صنم کدہ‘ اس کا کوڑا کرکٹ گھر سے باہر والی گلی میں پھینک دینا یقینا سماج دشمن (Anti Social) کارکردگی کے زمرے میں آتے ہیں اور کوئی عجب نہیں کہ آپ آلودگی پھیلانے کے جرم میں دَھر لیے جائیں مگر اس ماحول پسندی کے دور میں بتوں کو پھینکا کہاں جائے؟ یہ ضمنی اور فروعی مسئلہ ہے۔ اصل نکتہ کچھ اور ہے‘ جو کوئی بھی ذہین شخص بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اب ہمیں ایک نیا شوالہ بنانے، ایک نیا نظام قائم کرنے، ایک نیا عمرانی معاہدہ مرتب کرنے اور اپنے روز و شب بدلنے کی ضرورت ہے۔
نئے دور کے نئے تقاضے ہیں۔ 75 سال پہلے ہم نے اپنے اُوپر مسلط انگریز کے سامراجی تسلط اور ہندوساہوکار کی بالادستی سے آزاد ہو جانے کا اعلان کیا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا! ایک عہد ساز کرشمہ تھا۔ یہ کارنامہ سرانجام دینے والی قوم کو اور اُس کے مدبر، دانا اور بلند ہمت قائدین‘ دونوں کو سلام مگر کیا سرکاری عمارتوں پر لگے ہوئے قومی پرچم بدل دینے‘ یونین جیک کی جگہ پرچمِ ستارہ و ہلال کو لہرانے کو آزادی کہتے ہیں؟ نہ ہمارا سیاسی نظام بدلا اور نہ معاشی نظام۔ نہ طرزِ معاشرت اور نہ ذہنیت۔ حکمرانوں کی جلد کا رنگ ضرور بدلا‘ سفید کے بجائے کالا،گندمی یا سانولا مگر نہ سلطانی جمہور کا خواب پورا ہوا اور نہ قوتِ اُخوت عوام کی منزل حاصل ہو سکی۔ خواجہ (حکمران طبقہ) بامِ عروج پر اور بندگانِ خدا‘ کو چہ گرد‘اُفتادگانِ خاک‘ محنت کش‘ کسان اور مزدور (اقبالؔ کی ایک اور نظم میں بیان کردہ چیونٹی کی طرح) خاکِ راہ میں رزق ڈھونڈتے ہوئے عمر بسر کرنے والے۔ جب حکمران طبقے کے افراد نہ اپنی مادری زبان بول سکتے ہوں اور نہ اپنی قومی زبان بلکہ اپنے سابق حکمرانوں (انگریزوں) کی زبان بولنے والے اور اسی بدیسی زبان میں سوچنے والے ہوں اور دوسو سال پہلے انگریز کے برصغیر پر قابض ہونے کے وقت بنائے گئے ضابطۂ قانون نافذ کرنے پر آمادہ ہوں تو اسے آزادی کہتے ہیں؟ ہمارا نظام انصاف تو ہمالیہ پہاڑ جتنا بڑا مسئلہ ہے۔ میں آپ کی توجہ ایک چھوٹی بات کی طرف دلاتا ہوں‘ جومیرے موقف کی تائید کرتی ہے۔ انگریز نے اپنے ملک کے رسم و رواج کے مطابق ماہِ دسمبر کے آخری دو ہفتوں میں تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کرسمس کا تہوار منایا جا سکے۔ ہم آج بھی دسمبرکے آخری پندرہ دن اپنے تعلیمی ادارے بند کر کے انگریز کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ انگریز نے سرکاری افسروں کو ہر تین سال کی تعیناتی کے بعد نئی جگہ بھیج دینے کی وہ رسم شروع کی جو خود نہ صرف اس کے اپنے ملک بلکہ یورپ کے کسی بھی اور ملک میں انہونی بات ہے اور تبادلوں کی رسم کا نام و نشان تک نہیں ملتا مگر ہمارا ہر سرکاری محکمہ آج بھی اس رسم پر آنکھیں بند کر کے عمل پیرا ہے۔ لکیر (لکیر بھی وہ جو سابق حکمرانوں نے کھینچی ہو) کا فقیر کس طرح آزاد ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ آج ہم ایک ایسی بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ ہم یہاں 75 سال کی روز و شب کی محنت کی بدولت پہنچے ہیں۔ کالم نگار علمِ نجوم کی ابجد بھی نہیں جانتا مگر وہ پورے وثوق سے لکھ سکتا ہے کہ ہم جو کچھ کرلیں‘ چاہے کتنے ہاتھ پائوں ماریں‘بھلے ہر حیلہ آزما لیں‘ چاہے جتنے حکمران بدل کر دیکھ لیں‘ چاہے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ نئی شرائط کے ساتھ ہر ماہ کوئی نیا معاہدہ کر لیں‘ ہمارے تمام کے تمام حربے ناکام ہوں گے۔ بری طرح ناکام! سب تدبیریں اُلٹی ہو جائیں گی اور کوئی دوا کام نہ کرے گی اور آخر ''بیماریٔ دل‘‘ کام تمام کر کے رہے گی۔ آخر یہ بیماریٔ دل ہے کیا؟ یہ ہے اختیارات‘ وسائل اور اقتدار سے عوام کی محرومی۔ آپ جب تک یہ سچائی نہ مانیں گے‘ بیماری کی حقیقی تشخیص نہ کریں گے‘ کوئی حربہ کارگر نہ ہو گا۔ آپ کے حکمران کون ہوں گے؟75 افراد کی کابینہ اور مشیرانِ بے تدبیر؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ موجودہ حکومت کے مشیروں اور وزیروں اور سابقہ حکومت کے مشیروں اور وزیروں میں کیا فرق ہے؟دیانت اور لیاقت کے اعتبار سے جانے والوں اور آنے والوں میں کوئی فرق نہیں۔
ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے ایک انگریزی محاورے کے مطابق‘ چھت پر چڑھ کر بہ آوازِ بلند کہا ہے کہ ہم جب تک ایک فیصد حکمران طبقے (جس سے وہ خود بھی تعلق رکھتے ہیں) کی ننانوے فیصد آبادی پر معاشی اور سیاسی بالادستی ختم نہیں کرتے‘ بیماریٔ دل کا علاج نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بھی (کئی بار آزمایا ہوا) نسخہ دُہرایا، وہ یہ کہ قومی ادارے (مثلاً پی آئی اے‘ جس کا سالانہ خسارہ650 ارب روپے ہے) جو ہر سال قومی خزانے کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچاتے ہیں‘ ہم اُن سے جان چھڑائیں اور اُس کا سب سے بہترین (میری نظر میں بدترین) طریقہ یہ ہے کہ اُن سب اداروں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جائے۔ غالباً وہ بھول گئے کہ نجکاری کے اس تجربے سے ایک فیصد حکمران طبقے کی بالادستی‘ معاشی قوت اور استحصالی صلاحیت میں کئی گنا مزید اضافہ ہو جائے گا اور ہم ملک کے ایک بڑے کامیاب ادارہ برائے مواصلات کو فروخت کر کے دیکھ چکے ہیں۔ ہم اربوں کا خسارہ ایک دن کے اندر ختم کر سکتے ہیں۔ وہ اس طرح کے سارے کے سارے قومی ادارے (مثلاً پی آئی اے، پاکستان سٹیل اور ریلویز) ان اداروں میں کام کرنے والے کارکنوں کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ وہ ان اداروں کو دوبارہ منافع بخش بنا لیں گے۔ اس سے کارکنوں کی آمدنی بڑھے گی اور حکومت کو اربوں روپوں بطور ٹیکس آمدن بھی ہوگی۔
غالباً آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر آپ کی ساری عمر‘ بقول اقبالؔ‘ پرانے صنم کدوں کے بتوں کی پرستش میں گزری ہو تو آپ کے ذہن میں وہ صلاحیت ختم ہو جاتی ہے جو آپ کو افکارِ تازہ تک رسائی دلاتی ہے۔ مغربی درسگاہوں میں پڑھائے جانے والے اسباق مغرب کی دنیا پر بالادستی ختم کرنے اور افکارِ تازہ سے جہانِ تازہ پیدا کرنے کے لیے نصاب کا حصہ نہیں بنائے جاتے۔ اہلِ چین کی جدتِ افکار قابلِ صد تعریف ہے۔ ہمارے اکثر معیشت گروں کی عمر شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان اُٹھاتے گزری‘ وہ سفالِ پاک کو بنجر اور بیکار سمجھتے ہیں۔ وہ یہاں (بقول اقبالؔ) سفالِ پاک اور گل و گلزار پیدا کریں گے تو کیونکر؟ اُن کی سوچ میں مغرب کی بالادستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔وہ متاعِ غرور کا سودا کر چکے ہیں۔ وہ نیا شوالہ نہیں بنا سکتے۔ وہ مغرب کی نقالی‘ پیروی اطاعت اور فرماں برداری پر پلے بڑھے ہیں۔ اُن کا فکری حدوداربعہ اُنیسویں صدی کے سرمایہ دارانہ نظریات نے متعین کیا ہے۔ (بقول اقبالؔ) شاہین کو زاغ کی محبت اور قربت خراب کر گئی۔ ہمارے ملک میں آج بھی سینکڑوں دانشور مغربی سامراج کے دُشمن اور عوام دوست ہیں۔ اُن کا فرض ہے کہ گہری نیند سے جاگیں‘ وسیع البنیاد متحدہ محاذ بنائیں اور قومی مسائل کا وہ حل قوم کو بتائیں جو ہمیں اس سنگین ترین بحران سے نکال سکتا ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کے جن عناصر میں عوام دوستی قدر مشترک ہے‘ وہ مل کر اپنی تاریخی ذمہ داری ادا کریں۔ آج نہیں تو کبھی نہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں