پرانے بتوں کے پجاری …(2)

سالِ نو میں پاکستان میں تین ایسے واقعات رُونما ہوئے جن کی بازگشت چھ ہزار میل کے فاصلے پر‘ برطانیہ اور بارہ ہزار میل دور کینیڈا اور امریکہ میں بھی سنی گئی ہے۔ ایک واقعہ شمال کے برف زاروں (گلگت) میں پیش آیا۔ دوسرا شمال مغرب کے سرحدی کوہستانوں (شمالی وزیرستان) میں اور تیسرا ملک کے جنوب میں‘ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پیش آیا ہے۔ ان تینوں مقامات پر سوئی ہوئی مخلوق جاگ پڑی ہے۔ اُن کی قیادت کسی روایتی سیاسی جماعت نے نہ کی بلکہ وہاں عوام کی باگ ڈور ان کے اپنے ہاتھ میں تھی۔ گلگت اور شمالی وزیرستان میں زیادہ تر مردوں نے احتجاج کیا مگر گوادر میں عورتیں اور بچے بھی شاملِ احتجاج تھے۔ گلگت میں زمین پر مقامی آبادی کے ملکیتی حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے احتجاج ہوا۔ وانا (شمالی وزیرستان) میں ٹی ٹی پی کی جارحیت کے خدشات کے پیشِ نظر اس کی مذمت کرنے اور سفید پرچم لہرا کر قیامِ امن کے لیے احتجاج ہوا جبکہ گوادر کی ساحلی پٹی پہ مقامی ماہی گیروں کے مچھلی پکڑنے کے حق میں اور غیر ملکی بڑے بڑے جدید ٹرالرز کی سینہ زوری کی روک تھام کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج ہوا۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے اندھیرے‘ گھپ اندھیرے میں گلگت، وزیرستان اور گوادر کے عوام نے روشنی کے تین چراغ جلائے ہیں۔ کالم نگار اپنے لرزیدہ ہاتھ اُٹھا کر اور اپنے بوڑھے شکستہ اور افسردہ دل کی گہرائی سے انہیں دُعا دیتا ہے۔
مذکورہ تینوں مقامات پر مظاہرہ کرنے والوں کو، اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے والوں کو، سلطانی جمہور کی صدا بلند کرنے والوں کو، آقائوں (گورے آقائوں کے کالے جانشینوں) کے خیموں کی بہت سی طنابوں میں سے کم از کم ایک کاٹ ڈالنے والوں کو، تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی برادری اور چودھراہٹ کو پائے حقارت سے ٹھکرا دینے والوں کو، لینن‘ مائوزئے تنگ‘ ہوچی مینہ اور امام خمینی کے بتائے ہوئے انقلابی سبق کو کتابوں میں پڑھے بغیر اُن کے نقش قدم پر عملاً چلنے والوں کو، ایک نئے سویرے کی آمد کی خوش خبری سُنانے والوں کو، گلے سڑے‘ فرسودہ اور عوام دشمن نظام کے تابوت میں (نہ پہلا‘ نہ آخری) ایک اور کیل گاڑنے والوں کو، ممولے کو شاہین سے لڑنے (اور آخر کار کامیابی حاصل کرنے) کا ایک اہم سبق سکھانے والوں کو، عوامی جدوجہد کرنے والوں کو، قوتِ اُخوت عوام (جو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ اہم مقام رکھتی ہے) کا ایک اور شاندار اور کمال کا مظاہرہ کرنے والوں کو... ان سب کو یہ بوڑھا کالم نگار سلام پیش کرتا ہے۔
مذکورہ بالا تینوں مقامات پر مظاہرہ کرنے والوں اور اُن کے مقامی راہ نمائوں کو اس مسکین اور جلا وطن کالم نگار اور دُنیا بھر میں اُس کے ہم خیال لوگوں (جو بڑھتے بڑھتے پہلے سینکڑوں اور اب ہزاروں میں پہنچ گئے ہیں) کی طرف سے دست بستہ سلام! ہزاروں‘ لاکھوں سلام! انہوں نے ہم سب کے سروں کو فخر سے اُسی طرح اُونچا کیا جس طرح پاکستان میں بار ایسوسی ایشنوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی انجمنوں نے اونچا کیا۔
اس وقت ملک کے بڑے مسائل یہ سمجھے جا رہے ہیں؛ پنجاب کی نگران حکومت کا مستقبل کیا ہو گا۔ ہم آنے والے دنوں میں کون سا نیا سیکنڈل آڈیو؍ وڈیو کی شکل میں دیکھیں؍ سنیں گے؟ انتخابات جلد ہوں گے یا آٹھ ماہ بعد؟ کیا اسمبلی کی مدت میں اضافہ کیا جائے گا۔ کیا کوئی ٹیکنوکریٹ سیٹ اَپ آ سکتا ہے؟ آئندہ کون آئے گا (اور تخت نشین ہوگا) اور (فارسی محاورے کے مطابق) کون سی گائے جائے گی؟ (ذبح خانہ میں یا ڈیری فارم میں؟) یہ سب ایک سرکس کے تماشے کی طرح ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان مسائل کا ہمارے موجودہ سنگین سیاسی اور معاشی بحران سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ ان سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ڈالر بھی نہیں بڑھے گا۔ ہمارے اربوں روپوں کے قرضوں میں ایک روپیہ بھی کم نہ ہوگا۔ نہ افراطِ زر میں ایک پوائنٹ کی ہی کمی ہو گی۔ نہ مہنگائی کے سیلابِ بلا کا بڑھتا ہوا زور ٹوٹے گا۔ نہ ایک بھی تعلیم یافتہ نوجوان کو روزگار ملے گا۔ نہ ہمارے نظام انصاف میں‘ نہ ہمارے سکولوں کالجوں میں اور نہ ہسپتالوں میں ایک فیصدی بہتری آئے گی۔ ان مسائل پر جتنے مرضی مذاکرے اور مباحثے کروا لیں‘ کچھ بھی نہ ہو گا! عوامی فلاح و بہبود، ملکی سلامتی اور پاک سرزمین کوشاد باد کرنے کے زوایے سے رتی بھر میں تبدیلی نہ آئے گی۔ وجہ کیا ہے؟ سرزمینِ پاک پر کس آسیب کا سایہ ہے؟ (منیر نیازی اس کا جواب بخوبی جانتے تھے مگر شعری ضرورت کے تحت پوچھتے ہم وطنوں سے تھے)۔ پون صدی گزر گئی مگر ہمیں اس پیر تسمہ پا سے بھی زیادہ باعث عذاب آسیب کا پتا نہیں چلا اور اگر مان لیا جائے کہ ہمیں پتا تو چل گیا مگر ہم کریں تو کریں کیا ؟ ہم بے بس اور مجبور ہیں! صدیوں سے غلامی نے ہمارے دماغوں پر زنگ آلود تالے لگا کر گردن میں طوقِ غلامی، پائوں میں سماج دشمن روایات کی بیڑیاں اور ہاتھوں میں پرانی رسوم کی ہتھکڑیاں پہنا دی ہیں۔ ہم اس طرح زندہ ہیں کہ زندگی پر تہمت ہیں۔
کالم کے عنوان کے مطابق‘ ہم صنم کدوں کے پرانے بتوں کے پجاری ہیں اور نیا شوالہ تعمیر کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ ان چمگادڑوں کی طرح ہیں جن کی آنکھیں روشنی سے چندھیا جاتی ہیں۔ پچھتر سال گزر جانے کے بعد بھی اُس نظام کو جوں کا توں باقی اور قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں جو انگریز نے ہمیں غلام بنانے اور غلام رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ کوئی بھی آزاد ملک (مشرقِ بعید میں جاپان، کوریا اور چین سے لے کر تمام یورپ تک) ایسا نہیں جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ جہاں سیاسی جماعتیں عوام کی اُمنگوں کی ترجمان نہ ہوں۔ جہاں انسانی حقوق کا احترام نہ کیا جاتا ہو۔ جہاں احتساب‘ شفافیت‘ جواب دہی اور دیانت داری کے ستونوں پر سیاسی نظام تعمیر نہ کیا جائے۔ جہاں حاکم اور محکوم کے درمیان زمین و آسمان کے فرق کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے جا رہے ہوں۔ جہاں حکومت انسانوں سے لے کر جانوروں، پرندوں، درختوں اور پودوں کی حفاظت‘ یہاں تک کہ زمین پر اُگنے والی مسکین قدرتی گھاس کی ہریالی کو بھی بدستور سرسبز رکھنے کی ذمہ دار نہ ہو۔جہاں حکومت عوام کو اچھے سے اچھا علاج، بہترین تعلیم، مناسب روزگار اور ہر ممکن تحفظ کی فراہمی کی ضامن نہ ہو۔ جہاں اُس کی قومی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہ ہو۔ (آئین کے مطابق یہ کام 1983ء میں ہونا تھا) جہاں لاکھوں سرکاری ملازمین کو ہر تین سال کے بعد ایک جگہ سے اُٹھا کر ان کا کسی اور جگہ تبادلہ کرنے کی غلامانہ رسم کو آنکھیں بند کرکے اپنایا جائے اور عقیدت و احترام سے جاری و ساری رکھا جائے۔(اربوں کے اخراجات کے علاوہ لاتعداد مسائل بھی اس سے جنم لیتے ہیں) جہاں سکولوں میں بچوں کو اُن کی مادری زبان نہ پڑھائی جائے۔ جہاں ہسپتالوں میں علاج، سکولوں میں تعلیم اور معاشرے میں انصاف مفقود اور ناپید ہو۔ جہاں ایک زرعی ملک کی درآمدات میں اربوں ڈالروں کی اشیائے خور و نوش شامل ہوں۔ جہاں عوام عظیم الشان دریائوں کے باوجود آبی توانائی اور سارا سال چمکتے ہوئے سورج کے باوجود شمسی توانائی سے اس حد تک محروم ہوں کہ بارہ‘ بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرنا پڑے۔
اگست 1947 ء میں ہی ہر سطح پر عوام‘ خصوصاً متوسط طبقے اور محنت کشوں‘ کسانوں‘ مزدوروں‘ ماہی گیروں‘ چرواہوں‘ گڈریوں کو اقتدار منتقل کرنے کا عمل شروع کر دیا جاتا تو آج ہم دُنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہو کر سرخرو ہوتے اور رب العزت کے حضور سجدئہ شکر بجا لانے والوں کی صف میں دیکھے جاتے۔ جس نظام نے اپنی عوام دشمنی ہر شکل میں اور ہر سطح پر دکھائی‘ وہاں عوام تو ذلیل و خوار ہوئے اور ہو رہے ہیں مگر وہاں کا حکمران طبقہ بھی چوہوں کی طرح ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگتا پھرتا ہے۔ اس کے پاس نہ سکون ہے نہ احترام!
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر ہم دیانتداری سے تسلیم کر لیں کہ ہمارے اُوپر کس آسیب کا سایہ ہے؟ ہماری بیماریٔ دل کون سی ہے؟ اور یہ طے کر کے ہم اس کا علاج شروع کر دیں تو ہر روز اندھیرے سے روشنی کا سفر قدم بقدم شروع کر دیں گے۔ موجودہ نظام نہ صرف ہمیں دیوالیہ پن تک لے آیا بلکہ اس نے ہماری ملکی وحدت اور سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ جو لوگ کالم نگار سے متفق ہیں‘ اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنی صفیں درست کریں‘ آگے بڑھ کر قوم کی راہ نمائی کریں۔ گلگت‘ وانا اور گوادر سے شروع ہونے والی عوامی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں