اچھی حکومت کے چار ستون

ہر اچھی حکومت کے چار ستون ہوتے ہیں۔ احتساب‘ قانون کی حکمرانی‘ شفافیت اور حکمرانوں کی جوابدہی۔ آج کے کالم کا موضوع احتساب ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ہر شعبۂ زندگی میں ایک بااختیار احتسابی ادارہ (Regulatory Authority) موجود ہوتا ہے۔ جونہی کسی شعبے کے کسی رکن کے خلاف کسی شہری یا کلائنٹ کی طرف سے کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو یہ ادارہ تحقیق شروع کر دیتا ہے اور اگر شکایت جھوٹ‘ غلط فہمی یا مبالغہ آرائی پر مبنی نہ ہو اور اس کی بنیاد سچائی پر ہو تو احتسابی مشینری فوراً حرکت میں آجاتی ہے۔ ملزم کو دستاویزات اور گواہوں کی مدد سے اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور ایک آزاد ٹریبونل کے اراکین کی اکثریت جرم کی نوعیت کے پیشِ نظر مجرم کو جرمانے یا نوکری سے نکال دینے کی سزا تجویز کرتی ہے۔ سزا پانے والے فرد کو اپنی سزا کے خلاف عدالت میں اپیل کرنے کا حق دیا جاتا ہے مگر اپیل میں کامیابی کے امکانات اتنے کم ہوتے ہیں کہ بہت کم لوگ یہ اضافی مالی بوجھ اٹھانے پر آمادہ ہوتے ہیں اور قہرِ درویش ہر جان درویش کے مصداق ملنے والی سزا کو بھگتنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ پارلیمان کے اراکین بھی پارلیمان کی احتسابی کمیٹی کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف موصول ہونے والی شکایات میں عام طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال‘ مالی بدعنوانی‘ پارلیمان کو بتائے بغیر کسی اور ذریعہ سے رقم کمانا‘ اپنے عملے سے بدسلوکی‘ ٹیکس کی عدم ادائیگی‘ اخلاق سے گری ہوئی حرکت‘ جرم کا ارتکاب‘ غیر شائستہ طرزِ عمل‘ ایوان کے وقار کو ملحوظ خاطر نہ رکھنا‘ رشوت لے کر سفارش کرنا‘ ملک دشمن یا سماج دشمن عناصر سے خفیہ رابطہ رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ میرے لیے ممکن نہیں کہ یورپ اور امریکہ کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں رائج نظامِ احتساب کے دریا کو کوزے میں بند کر سکوں۔ مناسب ہوگا کہ ماضی قریب میں وہاں چند کیسوں میں کڑے احتساب کے بعد دی جانے والی بھاری جرمانے کی چند سزاؤں پر اکتفا کیا جائے اور ان مثالوں کی مدد سے یہ سطور پڑھنے والوں کو باور کرایا جا سکے کہ ترقی یافتہ ممالک میں احتساب کا نظام کتنا سخت ہے۔ ان ممالک میں سارے یورپی ممالک‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ مشرقِ بعید کے تین ممالک جاپان‘ کوریا اور چین اور جنوب مشرقی ایشیا کا ایک ملک ملائیشیا شامل ہیں۔ ملائیشیا میں سابق وزیراعظم نجیب رزاق کو کرپشن کے جرم میں نہ صرف اقتدار سے ہٹایا گیا بلکہ قید کی سزا بھی دی گئی۔
کالم کی پہلی سطر میں اچھی حکومت کے جو چار ستون گنوائے گئے ہیں‘ ان میں احتساب سرفہرست ہے۔ احتساب کے بغیر اچھی حکمرانی ہر گز ممکن نہیں۔ احتساب اور اچھی حکمرانی لازم و ملزوم ہیں۔ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ احتساب کرنے والے ٹریبونل کے اراکین ملزم کے ساتھ دوستی یا دشمنی کے رشتے کو اپنا فرض ادا کرنے میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔ ملزم کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ٹریبونل کے کسی بھی رکن کی شمولیت کے خلاف اسی طرح اعتراض کرکے اسے ہٹا دے جس طرح فوجداری مقدمات میں جیوری کے وہی بارہ اراکین اپنے فرائض کی دیانتداری سے ادائیگی کا حلف اٹھاتے ہیں جن کی موجودگی پر ملزم کو کوئی اعتراض نہ ہو اور جیوری کے کسی بھی رکن کے متعصب یا جانبدارانہ رویے کا کوئی اندیشہ یا شک موجود نہ ہو۔ عالمی معاہدوں میں ارب‘ کھرب پتی کمپنیاں تیسری دنیا میں سرکاری افسروں اور برسر اقتدار سیاست دانوں کو رشوت دے کر اپنی مرضی کا وہ معاہدہ طے کر لیتی ہیں جو سراسر قومی مفاد کے خلاف ہو مگر سرمایہ کاری کرنے والے عالمی ساہو کاروں کی تجوریوں کو غیرقانونی اقدامات کر کے کروڑوں ڈالروں سے ہر سال بھر دے۔ رشوت کھانے والوں کو ان کا کمیشن بیرونی ممالک میں ادا کیا جاتا ہے جس میں پاناما‘ دبئی‘ ورجن آئی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ سر فہرست ہیں۔
رشوت دینے والی کمپنیاں دنیا کے چوٹی کے ماہرینِ حساب کتاب کی پیشہ ورانہ خدمات حاصل کرکے ہاتھ کی صفائی کا اتنا کمال مظاہرہ کرتی ہیں کہ ان کا جرم ثابت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ قومی دولت کو چرانے والے لوگ ایک ٹائپ کے مجرم ہیں تو اس کو چھپانے کا گر سکھانے والے ماہرین دوسری ٹائپ کے۔ ہمارے خطۂ زمین میں یہ ظلم و ستم صدیوں سے جاری ہے۔ یہ مداری کا وہ تماشا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اس عوام دشمن نظام کا سیلاب بہتا نظر آتا ہے جو اپنے رستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔ اس کا بلند شوروغوغا ہمیں فیضؔ‘ فرازؔ‘ جالبؔ اور کیفیؔ اعظمی کی فریاد سننے نہیں دیتا۔ وہ ایران کے مصدق‘ چلی کے ایاندے اورکانگو کے پیٹرک لُومومبا کو قتل کروا کے اور پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگوا کے اور انڈونیشیا میں 1967ء میں پانچ لاکھ سے زیادہ بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام کرکے‘ اپنے راستے سے ہٹانے سے ہرگز دریغ نہیں کرتا۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کو قحط سے بچنے کے لیے گندم درآمد کرنے پر مجبو ر کر دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے مگر آپ یاد رکھیں کہ کبھی نہ کبھی مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں اور اگر انہیں یہ دن دیکھنا پڑ جائے تو وہ اعترافِ جرم اور بڑا جرمانہ ادا کرکے اس طرح اپنی جان چھڑواا لیتے ہیں کہ اِن کی پیشانی پر بل نہیں پڑتا۔ وہ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ بھی ان کے کاروبارکا حصہ ہے‘ جسے انگریزی میںOccupational Hazard کہتے ہیں۔
اس طرح کے کاموں میں گاہے گاہے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے اور بھاری جرمانوں کی ادائیگی کی صورت میں قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے لیکن اُنہیں کوئی گلہ یا شکوہ نہیں ہوتا۔ تاہم یہ کھیل چاہے کتنا اچھا اور پرلطف ہو‘ اس میں چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔ ہم شروع کرتے ہیں Glencore سے۔ یہ ایک بین الاقوامی کمپنی ہے جو جنیوا (سوئٹزرلینڈ) میں رجسٹرڈ ہے۔ یہ کمپنی کئی طرح کے کاروبار کرتی ہے (جن میں پاکستان کو برآمدات بھی شامل ہیں)۔ کان کنی کے میدان میں اس نے اس طرح قدم جمائے ہیں کہ 2022ء کے آخری نصف حصہ میں اس نے اس شعبہ سے 12.1 بلین ڈالر کمائے۔ گزرے ہوئے سال میں اس کمپنی کو امریکی حکومت نے ایک بلین ڈالر‘ برطانوی حکومت نے تقریباً400 ملین ڈالر‘ کانگو کی حکومت نے 180 ملین ڈالر اور برازیل کی حکومت نے 60 ملین ڈالر جرمانہ کی سزا سنائی۔ کانگو میں اسے مقامی افسرانِ بالا اور کلیدی ملازمتوں پر فائز لوگوں اور سہولت کار سیاستدانوں کو رشوت دینے کا جرم ثابت ہونے پر یہ سزا دی گئی۔ عدالت میں مقدمہ چلنے اور قانون کے مطابق فوجداری مقدمہ کی پیروی کا مرحلہ نہ آیا چونکہ Glencore نے اپنا جرم مان لیا اور (پنجابی محاورے کے مطابق) مک مکا کر کے 150 ملین ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کا دوستانہ سمجھوتا کر لیا۔ اس کمپنی کا سربراہ ایک بھارتی نژادشخص ہے جس کے نام کا پہلا حصہ کالی داس ہے۔ دوسرا انگریزی میں پڑھیں اور وہ ہے Madlian Peddi۔ جو باتیں رہ گئیں‘ وہ آپ اگلے ہفتے کے کالم میں پڑھیں گے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں