حیدرآباد دکن کا آخری نظام

پورا نام تھا نظام میر برکت علی خان صدیقی مکرم جاہ۔ آصف جاہ ہشتم۔ 6 اکتوبر1931ء کو جنوبی فرانس کے شہر Nice کے ایک محل ( Hilafet) میں پیدا ہوئے تو چھ ہزار میل دور ہندوستان کی 560 ریاستوں میں سب سے بڑی اور دنیا میں سب سے امیر کبیر ریاست حیدرآباد کے طول و عرض میں ان کے دادا کی رعایا نے اپنے گھروں میں چراغاں کر کے خوشی کا اظہار کیا اور حکومت نے ہزاروں من مٹھائی بانٹی۔ فلسطین کے مفتیٔ اعظم کوخصوصی طور پر فرانس بلایا گیا تاکہ وہ بچے کے کان میں اذان دے سکیں اور اس کے دادا (جو اس وقت حیدرآباد کے نظام تھے) کے رکھے ہوئے نام کا سرکاری طور پر اعلان کر سکیں۔ 15 جنوری2023ء کو89 برس عمر پا کر یہ آٹھواں نظام استنبول میں اپنے دو کمروں کے فلیٹ میں جہانِ فانی سے رخصت ہوا۔ اُس کی وصیت کے مطابق میّت حیدر آباد لے جائی گئی جہاں ایک لاکھ کے قریب افراد نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اُسے اسکے والد کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ مکرّم جاہ کے دادا (میر عثمان علی خان۔ آصف جاہ ہفتم) نے مکرم جاہ کے والد کے بجائے اپنے پوتے کو اپنا جانشین مقرر کیا اور اس کی تاجپوشی کی رسم 16اپریل 1967 ء کو ادا کی گئی۔ مکرم جاہ کی والدہ شہزادی درّ شوار تھیں جو سلطنت عثمانیہ کے آخری سلطان عبدالحمید کی بیٹی تھیں۔ مکرم جاہ نے اپنی تعلیم پانچ اداروں میں مکمل کی۔ ہندوستان کے چوٹی کا Doon School انگلستان میں Harrow School ‘ کیمبرج یونیورسٹی کے کالج Peter House اور لندن سکول آف اکنامکس میں جبکہ برطانیہ میں عسکری تعلیم کے ادارہ Sand Hurst ۔ مکرم جاہ کی عمر پندرہ برس تھی اور وہ سکول میں پڑھتا تھا جب ستمبر1948 ء میں بھارت نے حیدر آباد پر فوجی حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور نظام (میر عثمان علی خان) کو حیدر آباد کی ریاست کی سربراہی سے معزول کر دیا گیا۔ ان کے محلات اور اربوں روپوں کے ہیرے جواہرات کو بھی بھارتی سرکار نے اپنی ملکیت میں لے لیا۔ نظام کی دولت کی افسانوی شہرت تھی۔ وہ سیر کرنے جاتے تو جس چھڑی کو استعمال کرتے اُس میں لگے ہوئے ہیرے کی قیمت بھی کروڑوں میں بیان کی جاتی تھی۔ حیدر آباد ریاست میں دو لت کی ریل پیل کی وجہ گولکنڈہ کے مقام پر ہیروں کی کان تھی۔ (یہ وہی مقام ہے جہاں سے کوہ نورنامی ہیرا برآمد ہوا تھا) نظام کے پاس اتنے زیادہ بیش قیمت موتی تھے کہ ایک برطانوی اخبار نے لکھا کہ وہ وسطی لندن کے ایک وسیع و عریض چوک Piccadilly Circusمیں زمین پر بچھائے جائیں تو ساری جگہ اس طرح بھر جائے گی کہ چلنے کی جگہ باقی نہ رہے۔
مکرم جاہ کو حیدر آباد پر حکومت کرنے کا 7ستمبر1948 ء میں بھارتی حملہ اور قبضہ کی وجہ سے موقع نہ ملا۔ تعلیم مکمل کرکے مکرم جاہ بھارت واپس گیا تو وہ دہلی میں تین مُرتی بھون (بھارتی وزیراعظم کی رہائش گاہ) میں مقیم رہا۔ اُس نے پنڈت جواہر لال نہرو کے اعزازی مددگار کی خدمات سرانجام دیں۔ پنڈت نہرو اُسے کسی اسلامی ملک میں بھارتی سفیر لگانا چاہتے تھے مگر مکرم جاہ شاہی تخت سے محروم ہونے کے بعد سفارتی عہدہ کو شایانِ شان نہ سمجھتا تھا۔ 1967 ء میں اپنے دادا کی وفات پر نظام بن جانے کے بعد مکرم جاہ نے بمشکل پانچ سال بھارت میں گزارے۔اس دوران اُس کا زیادہ وقت بیرون ملک سفر کرنے اور سیر و سیاحت میں صرف ہوا۔ 1971 ء میں وہ اپنی جائیداد اور جواہرات کے ایک حصہ فروخت کر کے کروڑوں پائونڈ ملک سے باہر لے جانے میں کامیاب ہوا اور آسٹریلیاکے مقابلتاً غیر آباد علاقہ میں پانچ لاکھ ایکڑ زمین پر مشتمل چراگاہ خرید کر وہاں آباد ہو گیا۔ مکرم جاہ وہاں 25 برس رہا۔ لاکھوں ایکڑ زمین پر کاشتکاری اور لاکھوں بھیڑوں کی پرورش اور افزائش اُس کے بس میں نہ تھا‘ پھر وہ ترکی چلا گیا جہاں وہ 15 جنوری 2023 کو اپنی وفات تک رہا‘ بطور ایک عام اور گمنام شہری کے۔ ہر قسم کے تعلقات منقطع کر کے‘ سماجی تقریبات سے دور رہ کر۔ ایک وہ وقت تھا کہ نظام کی دولت کا تخمینہ دو ارب ڈالر لگایا جاتا تھا۔ جب نظام کی بادشاہت کا سورج غروب ہوا اور اقتدار جاتا رہا اور ذاتی زندگی بھی تباہ ہو گئی تو نظام کو بھارت کی حکومت کے دیے گئے صرف دو محلات اور ڈھائی لاکھ پائونڈ سالانہ الائونس پر گزارا کرنا پڑا۔ برطانوی اخبار (The Times) نے اپنی 31 جنوری 2023ء کی اشاعت میں وفات پاجانے والے آٹھویں نظام پر تعزیتی مضمون لکھا تو یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ مکرم جاہ 140بچوں کا والد تھا۔ نہ معلوم ٹائمزنے یہ بات کن شواہد کی روشنی میں لکھی۔اس کالم نگار کی معلومات کے مطابق وہ سات بچوں کا باپ تھا (چار لڑکے اور تین لڑکیاں) پانچ بیویوں میں سے ایک نے وفات پائی۔ تین کو انہوں نے طلاق دی۔ دو بیویوں سے طلاق تو نہ ہوئی مگر وہ استنبول میں مکرم جاہ کے دو چھوٹے کمروں پر مشتمل فلیٹ پر اس کے ساتھ رہنے کی قربانی دینے پر تیار نہ ہوئیں۔ آخری عمر میں نظام کے وفا شعار ملازمین نے ان کا خیال رکھا اور بینکوں نے ان کے بچے کھچے اثاثوں کی اتنی اچھی طرح حفاظت کی کہ مکرم جاہ کا امیرانہ گزارا ہوتا رہا اور وہ کسی کا محتاج نہ ہوا۔ میرے پاس جو معلومات ہیں ان کے مطابق مکرم جاہ کا اپنے سات بچوں سے برائے نام رابطہ تھا اور وہ انہیں گاہے گاہے ملتاتھا۔ اگست1947 ء میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو نظام نے اس کیساتھ خصوصی دوستانہ تعلقات قائم کیے اور اسے دس لاکھ پائونڈ کا قرض ِحسنہ دیا۔ نصف صدی گزری تو مکرم جاہ نے اس رقم کی بازیابی کیلئے لندن کے ہائی کورٹ میں حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا جو 2019 ء میں مکرم جاہ کی کامیابی کی صورت میں ختم ہوا۔
اٹھارہویں صدی میں (اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد) مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا تو ہندوستان کی وحدت ختم ہونے لگی اور پنجاب‘بنگال اور جنوبی ہندوستان میں آزاد ریاستوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔ حیدر آباد کی ریاست بھی مغل دربار سے وابستہ ایک نواب کے علم بغاوت بلند کرنے سے معرض وجود میں آئی۔ جب انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے پائوں پھیلانے شروع کئے تو حیدرآباد کی ریاست ان کی اسی طرح سکہ بند حلیف تھی جس طرح حیدر علی اور ٹیپو سلطان اُن کے پکے اور مستقل حریف۔ ہندوستان کی 562 ریاستیں داخلی طور پر خود مختار تھیں۔ حیدرآباد کو یہ ''اعزاز‘‘ حاصل تھا کہ انگریزوں نے صرف اس کے حکمرانوں کو اپنے نام کے ساتھ His Exalted Highnessلکھنے کی اجازت دی ۔اُسے سرکاری تقریبات پر 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ برطانوی راج کے زمانہ میں نظام آف حیدر آباد کو سربراہِ مملکت کا درجہ دیا جاتا تھا۔ پروٹوکول کے اعتبار سے نظام کا درجہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے انگریز گورنر جنرل(وائسرائے) سے بھی بلند تر تھا۔ چونکہ اس کے نام کے ساتھ ایک درجہ کم کے القابات His Excellency لکھے جاتے تھے۔ غالباً82 سال پہلے امریکی ہفت روزہ Times نے نظام آف حیدر آباد کو دنیا کا امیرترین شخص قرار دیا تھا۔ دو ارب ڈالر کی مالیت کی جائیداد (بشمول جواہرات) کا مالک ہونے کی وجہ سے۔ 1959ء سے لے کر 1949 ء تک‘ صرف دس سالوں کے اندر حیدرآباد کی ریاست پر اتنا برُا وقت آیا کہ اس کا حکمران عرش سے فرش پر آگرا۔ نہ تخت و تاج رہا اور نہ ہیرے جواہرات اور نہ عالی شان محلات۔ مکرّم جاہ اپنے باپ کی جگہ نظام بنا تو ہندوستان سے بھاگ کر آسٹریلیاکے لق دق صحرا میں جا چھپا‘ وہاں سے ترکی اور زندگی کے بقیہ ایام دو کمروں کے فلیٹ میں گزارے۔ غریب الوطنی میں وفات پائی تو ترکی میں دو گز زمین بھی بطورِ آخری آرام گاہ نہ ملی اور نظام کی خاک وہاں پہنچی جہاں کا خمیر تھا۔ نظام کی بلندی اور پستی دیکھ کر یہ مصرع بے اختیار زبان پر آجاتا ہے، عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں