کوئل کہیں کہیں اور کوے ہر جگہ

کالم نگار تین سالوں کے وقفے کے بعد ماہِ مئی میں پاکستان آیا۔ (کووِڈ کا موذی مرض اور سفری پابندیاں اس طویل وقفے کے ذمہ دار ہیں) تین ہفتوں کا قیام بے حد مصروفیات میں گزرا۔ اسلام آباد میں بین الاقوامی شہرت کے حامل تحقیقاتی ادارے SDPI میں ڈاکٹر عابد سلہری اور معظم بھٹی صاحب نے بکمال مہربانی میری نئی کتاب کی رُونمائی کی تقریب کا اہتمام کیا۔ کتاب کا نام ہے ''یورپ کی ڈائری‘‘۔ آپ کو نام پڑھ کر پتا چل گیا ہوگا کہ یہ کتاب میرے روزنامہ دُنیا میں (2013-18ء ) شائع ہونے والے کالموں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا تعارف جن تین دانشوروں نے کرایا‘ وہ تھے جناب خورشید ندیم، احمد سلیم صاحب اور جناب مظفر محمود قریشی۔ جناب احمد سلیم چونکہ خرابیٔ صحت کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہیں‘ اس لیے وہ وہیل چیئر پر تشریف لائے۔ انہیں بولنے میں بھی شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس تقریب میں وہ بمشکل چند جملے ادا کر پائے؛ تاہم اگر وہ بالکل خاموش رہتے اور صرف اپنی شرکت سے ہی تقریب کی رونق دوبالا کر دیتے تو یہ بھی کالم نگار کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی ہوتا۔ وہ نہ صرف خود بلند پایہ مؤرخ ہیں بلکہ ان کی ذاتی لائبریری میں اتنی تاریخی دستاویزات (Archives) ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی شخص یا غالباً کسی بھی یونیورسٹی کے پاس اتنا قیمتی سرمایہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی پاکستان سے جڑے کسی موضوع پر تحقیقی مقالا لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنا چاہے‘ اُسے جناب احمد سلیم کی امداد اور راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں ذاتی طور پر بھی اُن کا احسان مند ہوں کہ اُنہوں نے وقت نکال کر میرے ایک بیٹے کی اتنی مفید رہنمائی کی اور اُسے ایسی اہم تاریخی دستاویزات کے مطالعے کا موقع دیا کہ فاروق نے 24 برس کی عمر میں لندن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا بھلا ہو کہ اس نے اس تحقیقی مقالے کو کتابی صورت میں شائع کر دیا۔ کتاب کا نام ہے Pakistan and the West ۔ میں نے ہمدرد یونیورسٹی (کراچی) کے شعبۂ قانون اور شیخوپورہ کے ایک کالج میں طلبہ اور طالبات کو ان کے نصاب سے متعلقہ دو موضوعات پر لیکچرز دیے اور حتی المقدور ان کے علم میں اضافہ کرنے کی سعی کی۔ وکلا کی جن انجمنوں سے قانون کی حکمرانی (Rule of Law) کے موضوع پر خطاب کیا ‘ ان میں اسلام آباد بار‘ کراچی (ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ بار) قصور‘ شیخوپورہ‘ پسرور‘ سیالکوٹ‘ فیروز والا اور ڈسکہ بارز شامل تھیں۔ ان بارز کے عہدیداروں کے علاوہ جن چار اصحاب کا ضروری انتظامات کرنے کے لیے احسان مند ہوں وہ ہیں افتخار باجوہ (اسلام آباد)‘ تجمل حسین گھمن (ڈسکہ)‘ ارحم باجوہ (سیالکوٹ) اور راناآصف حبیب (کراچی)۔ قومی مجلس مشاورت نے اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں تین مذاکروں کا اہتمام کیا جن میں اس بنیادی نکتے پر زور دیا گیا کہ صحیح معنوں میں تبدیلی تب آئے گی جب ہم چہروں کے بجائے نظام بدلیں گے اور برطانوی راج سے ورثے میں ملے ہوئے نو آبادیاتی (Colonial ) اور عوام دُشمن نظام کے بجائے ایک عوام دوست نظام کی نئی عمارت تعمیر کریں گے جس کے پانچ بنیادی ستون ہوں گے: سلطانی ٔجمہور‘ قانون کی حکمرانی‘ سماجی مساوات‘ معاشی انصاف اور قوتِ اُخوتِ عوام۔
میرا فرض ہے کہ میں اُن وکلا رہنمائوں‘ دانشوروں اور صحافیوں کا بھی شکریہ ادا کروں جنہوں نے میرا حوصلہ بڑھایا اور میرے موقف کی تائید کی۔ سول سوسائٹی کے وسیع تر محاذ کے بغیر نہ قومی مفادات کی حفاظت کی جا سکتی ہے اور نہ آوازِ خلق بلند کی جا سکتی ہے۔ کراچی میں ایک ادبی سہ ماہی اور لاہور میں ایک ادارے سے اتنی زیادہ کتابیں اپنے کتب خانہ کے لیے خرید لیں کہ انہیں اپنے ساتھ لانا ممکن نہ تھا۔ پچاس کلو گرام کے قریب بنڈل کا(معقول رقم خرچ کرکے) ایئر فریٹ کے ذریعے برطانیہ بھیجوانے کا انتظام ہو گیا۔
وطن عزیز ان دنوں کتنے سنگین بحران کا شکار ہے‘ کتنی گہری دلدل میں گر چکا ہے‘ یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ وطن عزیز جب ایک بحران سے پوری طرح نکلنے کے قریب پہنچ جاتا ہے تو اس کی ڈولتی ہوئی کشتی ایک نئے بھنور میں پھنس جاتی ہے۔ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن۔ کروڑوں ہم وطن ہمہ وقت اس فکر میں ڈوبے رہتے ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ زمین سخت ہے اور آسمان دُور ۔ مجھے گھپ اندھیرے میں روشنی کے چراغ (چاہے وہ کتنے مدہم ہوں) جلانے والے صرف چند لوگ نظر آئے۔ غور فرمایئے کہ 25 کروڑ آبادی والے اس ملک میں کوئل کی طرح سہانے گیت گانے والے صرف چند افراد۔ بدقسمتی سے جہاں بھی گیا وہاں مجھے کوئل اِکاّ دُکاّ اور کوے بے شمار نظر آئے۔ کائیں کائیں کرنے والے کوے۔ اپنی پارٹی کے بیانیے کو آنکھیں بند کر کے دُہرانے والے کوے۔ اپنی جماعت کی قیادت کی ناقابلِ تردید خامیوں‘ کوتاہیوں اور لغزشوں سے انکار کرنے والے کوے۔ اپنے ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو قربان کرنے والے کوے۔ کروڑوں محنت کشوں اور افتادگانِ خاک کے حقوق کے بجائے اشرافیہ (زیادہ مناسب لفظ ہے مافیا ) کی اندھا دھند لوٹ مار اور استحصال کی حمایت کرنے والے کوے۔ اقتدار کے دسترخوان سے زمین پر گرے ہوئے لقموں کو اُٹھا کر ہڑپ کرنے کی آس میں بندہ پروری میں دِن گزارنے والے کوے۔ نقش کہن مٹانے کے بجائے فرسودہ طرزِ حکومت سے عوام کے انقلابی عمل میں ہر ممکن رُکاوٹ ڈالنے والے کوے۔
رعایا بھی وہ جسے بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا ہے۔ ذہنی طور پر مفلوج اور غلام۔ لکیر کی فقیر۔ پرانے بتوں کی پجاری۔ اپنی مادری زبان بولنے کی صلاحیت سے محروم۔ انگریزی بولنے سے کئی قدم آگے بڑھ کر انگریزوں کے زاویۂ نظر سے سوچنے والی رعایا۔ اپنی قومی زبان کو سرکاری زبان نہ بنانے والی (یہ 1973 ء کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہے‘ جس کے مطابق یہ مرحلہ آئین سازی کے پندرہ برس بعد طے پا جانا چاہئے تھا) کلیسا پر پیرانِ کلیسا کی آہنی گرفت کو ڈھیلا کرنے کے بجائے مزید سخت بنانے والی رعایا۔ مٹی کے بجائے سنگ مرمر کی سلوں سے ایوانِ اقتدار بنانے والوں سے بیزار ہونے کے بجائے اُن کو اپنا قائد تسلیم کرنے والی رعایا‘ وہ بھی دل و جاں سے اس طرح تسلیم کہ نہ ہاتھ میں ہتھکڑی کی ضرورت اور نہ پیروں میں آہنی بیڑیوں کی۔ عوام‘ اجتماعی زندگی کی بہتی ہوئی ندی کو جوئے کم آب میں تبدیل کر دینے والے۔ اسلام کی انقلابی تشریح کر کے فلاحی مملکت قائم کرنے کے بجائے اسے مسخ کر دینے والے۔جاں بچا کر بھاگتے خرگوش کے ساتھ زبانی‘ جعلی‘ فرضی اور سطحی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اُس کا تعاقب کرنے والے شکاری کتے کے ساتھ دوڑنے اور اُس کی شکاری مہمات کو کامیاب بنانے والے۔ سلطانیٔ جمہور کے زمانے کی آمد کے خلاف محاذ آرائی کرکے ہر نقشِ کہن کو پختہ تر کرنے والے عوام۔ سیاسی اختلافات کو حل کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے۔ تاریخ سے ایک بھی کام آنے والے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھانے والے۔ آقائوں کے خیموں کی طنابیں توڑنے والوں کے ہاتھ قلم کرنے والے۔ محنت کشوں‘ عوام دوست دانشوروں اور حق گو ناقدین کو جبر و تشدد سے کچل کر خاموش کر دینے والے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں سالانہ 50 ارب روپے کی اشیائے خوردنی درآمد کرنے کی حکمت عملی اپنانے والے۔ دو سو سالہ انگریز کے طویل دورِ غلامی سے نجات حاصل کرکے کھوکھلی اور نمائشی آزادی پر خوش ہونے والے۔صرف ایک ارب ڈالر کے لیے کشکول لے کر دربدر دھکے کھانے والے۔ اپنے متاعِ غرور کا سودا کرنے والے۔ شیشہ گرانِ فرنگ کا نسل در نسل احسان اُٹھانے والے۔ مندرجہ بالا شرمناک اور مجرمانہ سرگرمیوں کا ارتکاب کرنے والوں کیلئے نرم ترین لفظ کوا ہی ہو گا۔ پچپن برس سے جلا وطن کالم نگار وطن عزیز واپس آیا تو اُس نے کیا دیکھا ؟ ہر شاخ پر بیٹھے ہوئے اُلوئوں کی قطاریں۔ دُوسری طرف حکمِ اذاں سُن کر اپنے پیکرِ خاکی میں جان پید کرنے والے۔ جس کوئل کی مدھر آواز میرے کان میں گونجتی ہے وہ مجھے یقین دلاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ کوئوں کی کائیں کائیں پر غالب آجائے گی۔مگر وہ یہ بھی کہتی ہے کہ سویرا تبھی ہو گا جب آپ یعنی عوام جاگیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں