گوریلے باغبان

آج کے کالم کے عنوان کے تحت (جو یقینا آپ کے لیے حیرت کا باعث ہوگا) آپ کو اپنی معلومات کا حصہ دار بنانے سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ پچھلے ہفتے شائع ہونے والے کالم (جو وطن عزیز میں بہت کم کوئلوں اور بہت زیادہ کوئوں کے بارے میں تھا) میں سے رہ جانے والی دو اہم باتوں کو لکھ کر اپنے ذہنی بوجھ کو ہلکا کیا جائے اور بطور کالم نگار اپنا اخلاقی فرض ادا کیا جائے۔ میں نے برطانیہ سے پاکستان کا سفر جس ایئر لائن کے ہوائی جہاز پر کیا وہ یکم مئی کی صبح کو لاہور اُترا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اُس دن یومِ مئی کی تعطیل تھی اور دوپہر کو لاہور کی سڑکوں پر (خصوصاً پریس کلب کے سامنے) مزدوروں اور محنت کشوں کے جلوسوں کا نکلنا یقینی تھا۔ میں نے بھاگم بھاگ گھر پر اپنا سامان رکھا اور دو ہم خیال دوستوں کیساتھ پریس کلب (لاہو ر) جا پہنچا۔ متوقع بد نظمی اور بے نظمی (جو ہمارا قومی شعار ہے) سے قطع نظر‘ ہزاروں مظاہرین کو دیکھ کر اور اُنکے پُر جوش نعرے سُن کر دل کو عجب خوشی نصیب ہوئی (جونصف صدی میں پہلی بار نصیب ہوئی)۔ مظاہرین میں فیض صاحب کی بیٹی اور مرحوم شعیب ہاشمی کی غم گسار بیوہ پروفیسر سلیمہ ہاشمی‘ روبینہ جمیل‘ ریلوے مزدوروں کے ایک رہنما اور بھٹہ مزدوروں کے دو رہنمابھی شامل تھے۔ اُن کی شرکت نے میری خوشی کو دوبالا کر دیا۔ دوسری اور غالباً پہلے سے بھی زیادہ خوشی جناب سراج الحق صاحب (امیر جماعت اسلامی) سے منصورہ میں اُن کے دفتر جا کر ایک گھنٹہ طویل ملاقات سے حاصل ہوئی۔ میں اُن کا ممنون ہوں کہ اُنہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے میرے لیے وقت نکالا اور بڑی توجہ سے میری گزارشات اور معروضات سنیں۔ اس ملاقات کا سہرا جناب اظہرحسن صاحب کو جاتا ہے‘ جن کے توسط سے یہ ملاقات طے پائی۔
اب ہم آج کے کالم کی طرف چلتے ہیں۔ جب لفظ گوریلا لکھا یا بولا جائے تو لامحالہ ذہن میں چھاپہ مار عسکری سرگرمیوں کا مرتکب شخص آتا ہے۔ گوریلا کا لفظ پڑھ کر یا سُن کر ہمارے ذہن میں ایک ہی معنی اُبھرتا ہے کہ ہو نہ ہو‘ یہ شخص چھپ کر وار کرنے والا دہشت گرد ہوگا۔ وہی گوریلے جو عصری تاریخ میں انقلابِ چین اور کیوبا اور لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کے گھنے جنگلات میں انقلابی اور مسلح جدوجہد کرنے والوں سے لے کر افغانستان کے بہادر مردانِ کوہستان تک(جنہیں اقبالؔ نے بندگانِ صحرا کے ساتھ فطرت کے مقاصد کا نگہبان ٹھہرایا ہے)‘ انسانی تاریخ کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے گئے۔ مگر پچھلے دنوں ایک اور بالکل انوکھے قسم کے گوریلے برطانیہ میں منظر عام پر آئے جو رات کی تاریکی سے فائدہ اُٹھا کر شاہراہوں کے اردگرد خالی جگہ دیکھ کر وہاں زمین کھود کر اُس میں طرح طرح کے دلفریب اور خوبصورت پھول دار پودے لگا دیتے ہیں (بدقسمتی سے یورپ میں اُگنے والے بیشتر پھول خوشبودار نہیں ہوتے)۔ شہر میں رہنے والے لوگ جب صبح جاگتے تو دیکھ کر حیران بھی ہوتے اور خوش بھی کہ اُنہیں خلافِ توقع شاہراہوں کے دونوں طرف پھولدار پودے نظر آتے اور ہر گز پتا نہ چلتا کہ یہ کارنامہ کس نے سرانجام دیا ہے؟
گوریلا باغبانوں‘ شہریوں اور مقامی حکومت کے اداروں (Borough Councils) کے درمیان یہ آنکھ مچولی کئی سالوں سے جاری تھی۔ ماہِ جون میں برطانیہ میں یکے بعد دیگرے بہت سے دن چمکیلی دھوپ سے فیض یاب ہوئے تو مقامی حکومتوں کا دل پسیجااور اُنہوں نے مل کر ایک سرکاری اعلان جاری کیا کہ وہ چھپ کر بڑی راز داری سے پھولدار پودے لگانے والوں کے کارِخیر کی تعریف کرتی ہیں اور اُن کی ہر ممکن سرپرستی کے لیے آمادہ ہیں۔ اسکا مطلب ہے کہ اُنہیں سرکاری اجازت (Licence) حاصل کرنے میں کوئی مشکل یا تردد پیش نہ آئے گا۔ مقامی حکومتیں اُنہیں مفت کھاد بھی مہیا کریں گی اور سرکاری عملہ ان پودوں کی باقاعدگی سے آبپاشی کی ذمہ داری بھی اُٹھائے گا۔ اس اعلان کا جاری ہونا تھا کہ گوریلے باغبانوں نے اپنی تاریکیٔ شب میں کی جانے والی پُر اسرار اور خفیہ کارروائیوں کے طویل دور کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: وہ اب اپنا کارِ خیر دن کی روشنی میں جاری رکھنے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لمحۂ موجود میں دُنیا بڑی بڑی خبروں کے سیلاب میں گھری ہوئی ہے۔ پاکستان کے بدترین معاشی بحران (جس کابظاہر کوئی حل نظر نہیں آ رہا) اور بحیرۂ عرب میں آنے والے زبردست طوفان اور ساحلی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں افراد اور ہزاروں ماہی گیروں کی جانوں کو لاحق شدید خطرات سے لے کر افریقہ میں سوڈان میں خانہ جنگی کے المیے سے لے کر یورپ میں یوکرین میں روسی جارحیت سے چھڑ جانے والی جنگ تک‘ ان کے مقابلے میں مندرجہ بالا خبر پر ِکاہ جتنی اہمیت رکھتی ہے۔ یعنی صفر کے برابر مگر میں اس کو ایک آزاد معاشرے (جس میں رعایا کے بجائے عوام رہتے ہیں) کے ایک قابلِ ذکر‘ قابلِ توجہ اور قابلِ تعریف پہلو اور رُخ کے طور پر دیکھتا ہوں۔ میرے آبائی ملک میں لوگ مین ہول کے ڈھکن (بشرطیکہ وہ دھات کے بنے ہوں) چرا کر فروخت کر دیتے ہیں اور وہی مین ہول (خصوصاً موسم برسات میں) موت کے کنویں بن جاتے ہیں۔ اکثر دُکاندار اشیائے خورونوش میں مضرِ صحت (بلکہ بے حد خطرناک) آلائشوں کی ملاوٹ کرنے کا مکروہ دھندہ کرتے ہیں۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں اور جھوٹے حلفیہ بیان دینے والے‘ گھر کا کوڑا اپنے صحن کے باہر گلی یا بازار میں پھینک دینے والے‘ ہر طرح کی سماج دُشمن کارروائیاں کرنیوالے‘ غلاموں کی طرح اپنے روایتی آقائوں کے اشاروں پر چلنے والے‘ اچھے شہری ہونے کا ایک بھی فرض نہ ادا کرنے والے‘ پاکستان میں رہتے ہوئے وہاں ہر حیلے بہانے سے ٹیکس چوری کرنے والے مگر بلاناغہ ہر سال جون؍ جولائی میں بارہ ہزار میل (دو طرفہ 24 ہزار میل) کا ہوائی سفر کر کے (امریکہ کے گرین کارڈ کا احترام کرتے ہوئے) وہاں اپنے ذمے ٹیکس کا ایک ایک ڈالر ادا کرنے والے‘ پاکستان کے محنت کشوں کی حق حلال کی کمائی سے اربوں ڈالر چوری کرکے اور پھر اُنہیں غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک پہنچانے والے‘ دبئی اور خلیجی ممالک میں جائیدادیں خریدنے والے‘ پاناما اور دوسرے آف شور جزیروں میں چوری کے مال کو چھپانے والے‘ (ماسوائے چند استثنائی شخصیات کے) ان گزرے ہوئے 75 سالوں میں ان سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق قومی مفاد کی کشتی میں اتنے سوراخ کیے ہیں کہ وہ اب چھلنی ہو چکی ہے۔ کروڑوں ستم زدہ عوام کے زخمی دلوں کی طرح‘ ایک آزاد ملک میں لوگ راتوں کو جاگ کر اور (زیادہ تر خراب موسم کے باوجود) اپنے خرچ پر خریدے ہوئے پودے سڑکوں‘ گلیوں اور بازاروں میں لگاتے ہیں۔ مگر محکوم ملکوں میں عوام (زیادہ بہتر لفظ رعایا) حکومت کے لگائے ہوئے پودوں سے پھول توڑتے ہیں اور سبز گھاس کو پیروں تلے روندنے سے باز نہیں آتے۔ ہر یورپی ملک کی طرح برطانوی حکومت اپنے آپ کو عوام کی خدمت گزار اور اُن کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتی ہے۔
پاکستان کو درپیش ہر قسم کے بحران کی طرح ہمارے سنگین معاشی بحران کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے اس کی عوام دُشمنی او ر مغرب کی غلامی۔99 فیصد عوام کے مفاد پر ایک فیصد حکمران طبقہ (نام نہاد اشرافیہ) کے مفاد کی قربانی۔ مجھے اقبالؔ کا ایک شعر بار بار یاد آتا ہے‘ جس میں اُنہوں نے کمال فراست سے ہمیں یہ کام کی بات بتائی کہ آزادی میں جو زندگی بحرِ بیکراں بن جاتی ہے‘ وہ غلامی میں جوئے کم آب بن کر سکڑ جاتی ہے۔ ہمارے ہر بحران کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے عوام دوستی۔ فلاحی مملکت کا قیام‘ سلطانی ٔ جمہور‘ ہر قسم کے استحصال، عدم مساوات اور ناانصافی کا خاتمہ ۔ وفاقی یا صوبائی حکومتوں(صوبے بھی جو انگریز نے اپنی سامراجی مصلحت کے پیش نظر بنائے تھے) میں ارتکازِ اقتدار کے بجائے مقامی سطح پر عوام کی حاکمیت۔ حاصلِ کلام تین الفاظ ہیں: قوتِ اُخوتِ عوام! آج کے کالم کے یہ آخری تین الفاظ ہمارے قومی ترانے کا مرکزی نکتہ ہیں۔ہمارے قومی ترانے کا اس سے بہتر سبق اور کیا ہو سکتا تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں