پاکستان لٹریچر فیسٹیول

کوئی معقول وجہ نہ تھی کہ آج کے کالم کا عنوان اُردو میں نہ لکھا جاتا۔ اُصولاً اُردو میں لکھے جانے والے کالم کا عنوان بھی اُردو میں لکھا جانا چاہئے۔ پہلا لفظ تو ہمارے پیارے ملک کا نام ہے‘ جو ترجمے کا محتاج نہیں (ستم رسیدہ‘ بار بار لوٹے گئے اور زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود ہم صرف اپنے آبائی ملک کو ہی وطنِ عزیز کہہ سکتے ہیں)۔ دُوسرے لفظ کا ترجمہ اگر ''ادبی‘‘ کر دیا جائے تو کام چل جائے گا۔ ساری پریشانی کا باعث تیسرا لفظ ہے۔ اسے میلہ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا‘ کیونکہ یہ Fair ہر گز نہ تھا اور نہ ہی رواجی مذکراہ کہا جا سکتا ہے۔ مجبوراً انگریزی لفظ ہی لکھ کر کام چلانا پڑا۔ کتنا اچھا ہو کہ کوئی شخص یہ نیک کام کر دے کہ عنوان کے تیسرے لفظ کا درست اُردو ترجمہ کر کے سب لوگوں کے علم میں اضافہ کرے اور ہزاروں دعائیں لے۔ ہر زندہ زبان اسی طرح پھلتی پھولتی ہے۔ اس کی ٹہنیوں پر ہمہ وقت نئے شگوفے لگتے ہیں۔ کونپلیں اُگتی اور پھول کِھلتے ہیں۔ بقول اقبالؔ: نیلے نیلے‘ پیلے پیلے‘ اودے اودے پھول۔ اسی طرح لسانیات کا باغ زیادہ متنوع‘ رنگین اور خوشبودار ہوتا رہتا ہے۔ ابتدا سے زبان ہی ہر تہذیب اور ثقافت کی بنیاد ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قومی زبان اپنی کلیدی اہمیت کے باوجود مادری زبان کی جگہ نہیں لے سکتی۔
تمہید کے بعد آگے بڑھتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور امینہ سید صاحبہ نے لندن میں پاکستانی دانشوروں (کالم نگار اُن میں شمار نہیں کیا جاتا) کے ایک چھوٹے مگر فعال گروپ کے ساتھ مل کر اس یادگار تقریب کا 17 جون کو اہتمام کیا۔ یہ ہفتہ کا دن تھا۔ اس دن برطانیہ میں ہفتہ وار تعطیل ہوتی ہے۔ وسطی لندن میں Holborn کے علاقے میں Red Lion Square کے تاریخی Conway Hall میں بارہ گھنٹوں (دس بجے صبح سے دس بجے رات تک) پر پھیلی ہوئی یہ تقریب ہر لحاظ سے یادگارتھی۔ یہ کورونا کی وجہ سے تین‘ چار سال کے وقفے سے منعقد ہوئی اور اتنی کامیاب رہی کہ شرکا کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی۔ مہمان مقررین کی تعداد بھی پچاس سے زیادہ تھی۔ بہت سے مہمان مقررین پاکستان میں ملک گیر اور چند ایک (مثلاً طارق علی) عالمی شہرت کے مالک تھے۔ کالم نگار کا طارق علی کے والدین( والد مظہر علی خان ایک پائے کے صحافی تھے اور والدہ طاہرہ‘ حقوقِ انسانی کیلئے بہادرانہ جدوجہد کرنے والی کمال کی خاتون اور سر سکندر حیات کی بیٹی تھیں) سے بھی دوستانہ مراسم تھے۔ طارق علی نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ وہ اس کی شہرئہ آفاق سٹوڈنٹ یونین کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں ویتنام پر امریکہ کے جارحانہ حملے کے خلاف لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کر کے اتنی شہرت پائی کہ وہ اپنے مداحوں کی یلغار سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے مجبوراً لندن میں پیدل نہ چل پاتے تھے اور خواہ کتنا ہی قریب کیوں نہ جانا ہوتا‘ ٹیکسی میں سفر کرتے تھے اور اکثر ایسا ہوتا کہ ٹیکسی والا اُنہیں پہچان کر اُن سے کرایہ نہ لیتا تھا۔طارق علی اُن خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جنہیں تحریر و تقریر‘ دونوں میں کمال حاصل ہے۔ اُنہوں نے امریکہ اور یورپ کے ہر ملک میں ہزاروں تقاریر کر کے سامعین کے ذہنوں کو جلا بخشی اور اُن کے دلوں کو عوام دوست انقلاب کی جلد آمد کی خوش خبریں سنا کر گرمایا۔ ان کی لکھی ہوئی معیاری کتابوں کی تعداد 20 تک جا پہنچی ہے۔ اُنہوں نے پاکستان کے حالاتِ حاضرہ پر ایک بار پھر بڑی جامع تقریر کی۔ اُنہوں نے 1971 ء کے المیے کا ذکر کیا تو بہت سے لوگوں کی طرح کالم نگار کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں۔
1971ء میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سمندر پار پاکستانیوں کی ایک کمیٹی بنی تھی جس کا مقصد مشرقی پاکستان کے جائز اور جمہوری مطالبات کی حمایت تھی۔ یہ کمیٹی مارچ 1971ء سے سولہ دسمبر تک فعال رہی مگر اس کے اراکین کی تعداد وہی رہی جو اس کے بانی اراکین کی تھی: یعنی چار۔لاکھوں پاکستانی تارکین وطن میں سے صرف چار۔ طارق علی۔ ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ مرحوم۔ احمد شجاع مرحوم اور یہ کالم نگار۔ ہم چاروں پر غداری کے جرم میں ایک عدالت میںمقدمہ چلانے کی تیاری مکمل ہوئی تو قائداعظم کا بنایا ہوا ملک دولخت ہو گیا۔
اس تقریب میں شریک ہونے والوں کی خوش قسمتی تھی کہ اُنہیں جن ممتاز دانشوروں کے خیالات اور فکر انگیز تبصروں کو سننے کا موقع ملا‘ان میں مندرجہ ذیل افراد شامل تھے: پاکستان کی مایہ ناز اور عوام دوست معمار (Architect ) یاسمین لاری۔ لاہور لمز کے پانچ اساتذہ (بشمول بین الاقوامی شہرت کے سیاسی مبصر محمد وسیم)۔ ڈاکٹر عشرت حسین۔ شبر زیدی (ایف بی آر کے سابق چیئرمین)، ظفر مسعود (ماہر معاشیات)۔ شہباز تاثیر (گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے)۔ سارہ انصاری (برطانیہ کی چوٹی کی مورخ اور لندن یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر)، مخدوم غوث علی خان (پاکستان کے معروف قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل)، پروفیسر نور ظہیر (انڈو پاک میں گزشتہ ایک صدی میں بہترین ادب لکھنے والی خواتین کی تخلیقات پر چار جلدوں پہ محیط کمال کی کتاب لکھنے والی مصنفہ)، رُخسانہ احمد (الطاف فاطمہ کے ناول دَستک نہ دو کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والی) اورسب سے ممتاز اور قابلِ صد احترام ادیبہ Karen Arm Strong (جنہوں نے اسلام سے وابستہ موضوعات کے علاوہ سیرتِ نبوی پر بھی کمال کی کتاب لکھی)۔
اس تقریب میں جن کتابوں کی رُونمائی ہوئی اُن میں Stephen Lyon کی ایک دلچسپ کتاب Political Kinship in Pakistan اور ڈاکٹر فاروق نسیم باجوہ کی 1965 ء کی جنگ پر ایک متوازن‘ غیر جانبدار اور نہایت معلوماتی کتاب From Kutch to Tashkent بھی شامل تھیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے ایک ہزار کے لگ بھگ پاکستانی اور انگریز مرد و عورتیں دس پائونڈ کا ٹکٹ خرید کر دس‘ بارہ گھنٹوں تک کرسیوں پر بڑی استقامت اور ہمت و حوصلے سے بیٹھے رہے۔ منتظمین نے اُنہیں صحت افزا ناشتہ کرایا‘ دوپہر اور شام کو لذیز بریانی کھلائی۔ انہیں اچھے اچھے فنکاروں کے رقص دکھائے۔ کتھک رقص پیش کرنے والی فنکارائوں نے اپنا رقص دو بڑے کتھک رقاصوں‘ سندھیا ڈیسائی اور شہزاد عالم کی یاد میں اُن کے نام کیا جو پچھلے برس اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے تھے۔ تقریب ایک مشاعرے پر ختم ہوئی جس میں پاکستان سے آئی ہوئی فاطمہ حسن‘ عقیل دانش‘ باصر کاظمی (ناصر کاظمی کے بیٹے) کے علاوہ بھارت اور بنگلہ دیش سے آئے شاعروں اور شاعرات نے حصہ لیا اور سامعین سے داد پائی۔ اس یادگار تقریب کے انعقاد کا سہرا اُن پاکستانی کاروباری اداروں کے سر باندھا جانا چاہیے جنہوں نے فیاضی سے مالی معاونت اور اس کی سرپرستی کی۔ کالم نگار کو اس کارِ خیر میں ڈاکٹر عشرت حسین کی خفیہ اور پس پردہ سرگرمی کے اشارے نظر آئے۔ میں نے اپنے پاس بیٹھے ڈاکٹر صاحب سے پوچھاتو انہوں نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا؛ نہ اقرار نہ انکار۔ ظاہر ہے کہ ایک کامیاب تقریب کی کامیابی ایک ٹیم کی مشترکہ کاوش کے مرہونِ منت ہوتی ہے مگر کئی ماہ دوڑ بھاگ کرنے اور دیارِ غیر میں پاکستانی ادب کا پرچم اتنی شان و شوکت (جو جلال و جمال کا مجموعہ تھا) سے لہرانے پر نادر چیمہ صاحب خصوصی شکریے اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔مذکورہ بالا غیر معمولی تقریب کا تذکرہ صرف اتنے الفاظ میں ہی کیا جاسکتا تھا جتنے کی اجازت کالم کی محدود جگہ دیتی ہے مگر منتظمین کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہنا ضرو ری ہے:
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
بہتر ہوتا کہ پاکستان کی ہر دن بلکہ ہر لمحہ بگڑتی ہوئی معاشی حالت پر تبصرے کیلئے مذاکرے میں رضا باقر (سابق گورنر سٹیٹ بینک )کو نہ بلایا جاتا۔ وہ ہمارے معاشی کفن میں آخری کیل گاڑنے کا مقام رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے جو کچھ کہا اس نے ہمارے زخموں پر نمک پاشی کی اور ہمارا دل مزید دکھایا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں