یورپ کی ڈائری

سوچا کہ آج کے کالم کا وہی عنوان کیوں نہ رکھا جائے جس کے تحت وہ دس سالوں سے شائع ہوتا آرہا ہے۔ آج ضمنی عنوان رکھنے کی کوئی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ اس کالم کے مندرجات اس کے عنوان کے عین مطابق ہیں۔ سب سے پہلی خبر ‘جو قابلِ توجہ اورمحتاجِ تبصرہ بھی ہے‘ فرانس سے آئی ہے۔ برطانیہ کا نزدیک ترین پڑوسی ملک فرانس! 30 میل چوڑا انگلش چینل نامی سمندر ان دو ممالک کے درمیان حائل ہے‘ ورنہ ان دونوں ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہوتیں۔ فرانس اس وقت بدترین فسادات کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ پولیس نے ایک 17 سالہ نوجوان‘ جس کے والدین الجزائر سے ترکِ وطن کر کے فرانس میں آباد ہونے والے لاکھوں افراد میں شامل تھے‘ کو پولیس ناکے پر نہ رُکنے کے جرم میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ جونہی اس المناک واقعے کی خبر نشر ہوئی‘ فرانس ایک بارودی ذخیرے کی طرح بھَک سے اُڑ گیا۔ اب تک دنگا فساد کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہے۔ دو ہزار سے زیادہ کاریں جلا کر راکھ کر دی گئیں‘ ہزاروں دُکانوں کے شیشے توڑ کر وہاں پڑا ہوا سارا سامان لوٹ لیا گیا۔ کئی ہفتے گزر چکے ہیں مگر تادمِ تحریر ان فسادات کی شدت میں کمی نہیں آئی اور کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ان سطور کی اشاعت تک فرانس کے تمام بڑے شہروں میں ان تباہ کن فسادات نے کتنی مزید زیادہ تباہی پھیلائی ہوگی یا یہ کہ دو ہفتوں بعد صورتحال کتنی سنبھل یا بگڑ چکی ہوگی۔ فسادات پر قابو پانے کے لیے پیرس اور دوسرے شہروں میں ہر رات کو کرفیو (آمد و رفت پر مکمل پابندی) نافذ کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ نصف صدی قبل صدر ڈیگال کے زمانے میں فرانس اس طرح کے تباہ کن فسادات کی لپیٹ میں آیا تھا۔ ایک بے گناہ اور معصوم نوجوان کے قتل نے اُن افراد کو (جن کی تعداد لاکھوں میں ہے) احتجاج کرنے کا بہترین موقع فراہم کر دیا ہے جن کے دل و دماغ میں حکومت کی عوام دشمن معاشی پالیسیاں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، افراطِ زر اور عدم مساوات کی وسیع خلیج کے علاوہ محنت کش طبقے کی بے بسی اور لاچاری کے احساس نے شدید غم و غصے کی چنگاریاں بھر دی ہوئی ہیں۔ جونہی بارود کے اس ڈھیر میں آگ بھڑکی تو وہ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ لاوا ہے کہ ہر شہر میں سیلابِ بلا کی طرح بڑی تندی اور تیزی سے بہہ نکلا ہے۔ فرانسیسی پولیس کی طرف سے اشک آور گیس کا بے دریغ استعمال اور لاٹھی چارج اس کے آگے بند باندھنے میں بری طرح ناکام رہا۔
انسانی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ عصرِ حاضر میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔ فلپائن میں صدر جوزف کے خلاف عوامی تحریک اٹھی تو حکومت کو تنکے کی طرح بہا کر لے گئی۔ ایران میں انقلاب آیا تو شاہِ ایران کا بھی یہی حشر ہوا۔ آنکھوں میں آنسو اور ہاتھوں میں ایران کی مٹھی بھر مٹی۔ انقلابِ کیوبا سے لے کر مشرقی یورپ میں سوویت یونین کے غلبے کے خلاف احتجاجی تحریک تک۔ عرب ممالک میں سیاسی تبدیلی کی بہار نے پہلے تیونس میں زین العابدین کا اور پھر مصر میں حسنی مبارک کے آمرانہ دور کا خاتمہ کیا۔ بدقسمتی سے یہ بہار بہت جلد خزاں میں تبدیل ہو گئی۔ اب مصر پر پھرجنرل السیسی کی فوجی آمریت کا قبضہ ہے مگر آپ دیکھیں گے (یہ خوشخبری ہمیں فیضؔ صاحب نے دی تھی کہ ہم دیکھیں گے) کہ مصر میں جلد یا بدیر (بقول اقبالؔ) خدا کے بندے اپنے آقائوں کے خیموں کی طنابیں کاٹ دیں گے۔ انقلابی تبدیلی کے لیے ایک ہی شرط ہے کہ غریب یعنی ستم زدہ اور استحصال کا شکار طبقہ جاگ جائے۔ جب وہ اپنی بند آنکھیں کھول دے تو سویرا طلوع ہونے لگتا ہے۔ شعور کی بیداری اور بلندی انقلابات کی آبیاری کرتی ہے۔ یہ کالم نگار قیامِ پاکستان کا چشم دید گواہ ہے۔ ہمارا ملک کسی سیاسی جماعت (مسلم لیگ برائے نام‘ سطحی اور صرف دکھاوے کی تھی) نے نہیں بلکہ کمال کے قائد اور کمال کی عوامی تحریک نے بنایا تھااور اس تحریک کی عمر صرف سات برس تھی۔ 1940 میں آزاد وطن کی قرارداد منظور ہوئی اور 1947ء میں یہ انہونی کر دکھائی۔ اب 76 برس بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ بلکہ کہاں گرے پڑے ہیں؟ تاریکی اور مایوسی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ‘ عدم مساوات‘ انصاف کا فقدان‘ قانون کی حکمرانی کا تشنہ خواب‘ فلاحی مملکت کے قیام کی بتدریج دُھندلاتی امید۔ لگتا ہے کہ داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر ہی ہمارا مقدر بن چکے ہیں۔ حکمران طبقے میں‘ ایک انگریزی محاورے کے مطابق‘ حصولِ اقتدار کے لیے میوزیکل چیئر کا کھیل اپنے عروج پر ہے۔قومی معیشت اور سیاسی استحکام کا جہاز ڈوب رہا ہے اور عرشۂ جہاز پر کرسیوں کی ترتیب اور حفظ مراتب پر لڑائی زور شور سے جاری ہے۔ ماتحت اداروں سے انصاف کے بلند ایوانوں تک اور کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد سے لے کر دبئی اور لندن تک‘ تخت یا تختہ والا معاملہ ہے۔ ماسوائے جماعت اسلامی کے‘ ساری سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نام پر آمریت کی پرورش کر رہی ہیں۔ عوام دشمنی اور غیر ملکی غلامی میں یہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ایک پنجابی لطیفے کے مطابق‘ جانوروں کی قیادت کرنے والے ایک بندر کی طرح ایک شاخ سے دوسری شاخ تک چاہے کتنی ہی چھلانگیں لگا لیں‘ کتنی ہی پھرتیاں دکھا لیں‘ کتنی ہی کمیٹیاں بنا لیں‘ کتنے ہی بلند بانگ دعوے کر لیں‘ نوشتۂ دیوار یہی ہے کہ وہ سب کے سب بری طرح ناکام ہوں گے۔ جلد یا بدیر! ازل سے یہی تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے۔ دور دیس میں 56 برس سے رہنے والا ایک تارکِ وطن دن میں اپنے آبائی وطن کے بارے میں سوچتا رہتا اور رات کو خواب دیکھتا ہے ۔اقبالؔ کا ایک مصرع ہے:
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
شاعر نے یہ مصرع ''کبھی‘‘ کے لفظ سے شروع کیا۔ تارکین وطن (خصوصاً پاکستانی نژاد) اگر یہ مصرع لکھتے تو ''کبھی‘ ‘کے بجائے ''ہمیشہ‘‘ سے شروع کرتے۔ اس طرح اپنے ذہن کا سکون بھی برباد کرتے اور مصرع کا وزن بھی۔
برطانوی اخباروں (گارجین اور ٹائمز) کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے انسانی صحت کے بارے میں ایک سنسنی خیز خبر اپنے صفحۂ اوّل پر شائع کی اور یہ کالم نگار اس کا ترجمہ اور خلاصہ کالم میں درج کرنا چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے (جو عالمی صحت کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اور WHO کہلاتا ہے) نے کئی برسوں کی تحقیق اور کروڑوں پائونڈز خرچ کرنے کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ ڈائٹ کولا مشروبات اور خورو نوش کی ہزاروں دل لبھانے والی دیگر مصنوعات کے استعمال سے صارفین میں سرطان کا شکار ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ ان میں موجود مضرِ صحت کیمیائی عنصر کا نام Aspartame ہے۔ مذکورہ بالا کیمیائی عنصر Fizzy (بلبلے پیدا کرنے والے) مشروبات کے علاوہ چیونگ گم، آئس کریم، فیٹ فری یوگرٹ اور تیار شدہ (Ultra Processed) کھانوں میں بہ افراط اور بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تحقیق کی روشنی اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ مذکورہ بالا کیمیائی عنصر کو عالمی سطح کے سائنسدان سرطان کے اسباب کی فہرست میں شامل کر کے انسانی صحت کیلئے شدید خطرہ قرار دیدیں۔ Aspartame کو پہلی بار 1965ء میں صنعتی طور پر بنایا گیا اور اب خور و نوش کی پانچ ہزار سے زیادہ اشیا میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ کم کیلوریز مٹھاس کیلئے استعمال ہوتا ہے اور چینی سے مٹھاس میں 200 گنا زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تحقیق کے جواب میں ایسی اشیا (جو روزانہ کروڑوں افراد بصد شوق استعمال کرتے ہیں) بنانے والی کمپنیوں نے کروڑوں پائونڈز خرچ کر کے اشتہارات کی عالمی مہم چلائی ہے جس میں وہ مذکورہ کیمیائی عنصر کو بے ضرر ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ وہ ایسا نہ بھی کریں تو انسانوں کی اکثریت خطرے کی بجنے والی گھنٹی کو سننے سے اسی طرح انکار کر دیتی جس طرح وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سگریٹ نوشی سے پھیپھڑوں کے سرطان کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے‘ سگریٹ نوشی کی عادتِ بد نہیں چھوڑتی۔ یورپی ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی عوامی مقامات پر تمباکو نوشی قانوناً منع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید سردی (منفی درجہ) کے موسم میں سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر سگریٹ پینے والے ہمدردی کے مستحق نظر آتے ہیں‘خصوصاً جب وہ خواتین ہوں اور وہ بھی عمر رسیدہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں