’’بھیڑ‘‘یا بھیڑیا؟

آپ بیک وقت بھیڑ اور بھیڑیے کے دوست‘ خیر خواہ اور ہمدرد نہیں ہو سکتے۔ انسانی تاریخ کے ہر دور اور ہر ملک میں ہمیں ایک کربلا اور اس میں دو مخالف قوتیں برسر پیکار نظر آتی ہیں۔ حق و باطل کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ اندھیرا اور روشنی‘ ظالم اور مظلوم‘ جھوٹ اور سچ‘ انصاف اور استحصال۔ ایک طرف لاٹھی کے زور پر بھینس پر قبضہ کرنے والے اور دوسری طرف قانون کی حکمرانی کا پرچم اٹھانے والے۔ ایک طرف فرعون صفت اشرافیہ اور دوسری طرف محنتی‘ مظلوم اور محکوم طبقہ۔ ایک طرف خون پسینے کی کمائی اور دوسری طرف لوٹ مار سے اکٹھا کیا گیا سرمایہ۔ ایک طرف جمال الدین افغانی‘ حسرت موہانی‘ میاں عبدالباری اور سبھاش چندر بوس اور دوسری طرف انگریزوں سے خطابات‘ انعامات اور جاگیریں لینے والے۔ ایک طرف بھگت سنگھ اور رائے احمد خان کھرل اور دوسری طرف جنرل ڈائر کے حکم پر جلیانوالہ باغ میں پُرامن مظاہرین کا قتلِ عام کرنے والے سپاہی۔ ایک طرف سرمایہ اور محنت‘ فرمانِ خدا‘ لینن خدا کے حضور میں اور ابلیس کا اپنی مجلس شوریٰ سے خطاب جیسی انقلابی نظمیں لکھنے والے اقبال اور دوسری طرف عشقیہ غزلیں لکھنے اور گلِ بلبل کی داستانیں بیان کرنے والے داغ دہلوی‘ عبدالحمید عدم اور جگر مراد آبادی۔ مناسب ہوگا کہ میں مزید مثالیں دے کر اپنا موقف بیان کرنا بند کر دوں اور آگے بڑھوں۔ مندرجہ بالا سطور لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چار جولائی کو ایک اردو معاصر نے اپنے کالم میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے مرتب کردہ میثاقِ معیشت کی تعریف کرتے ہوئے اس ضرورت پر زور دیاکہ ہر شہر میں ان کی تجاویز پر مباحثے منعقد کیے جائیں تاکہ سب لوگوں میں ان کی مجوزہ میثاقِ معیشت کے روشن پہلوئوں کو اجاگر کیا جائے اور ان کی کمال کی معاشی تجاویز سے ساری قوم مستفید ہو سکے۔
فاضل کالم نگار نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اگر مذکورہ تجاویز اتنی مفید اور مؤثر تھیں تو جناب ذوالفقار علی بھٹو ‘ بے نظیر بھٹو صاحبہ اور پھر آصف زرداری صاحب کے ادوارِ حکومت میں (جو قریباً پندرہ برسوں پر محیط تھے) پاکستان سے غربت‘ افراطِ زر اور بے روزگاری ختم کیوں نہ ہوئی؟ نہ امریکہ سے ملنے والی امداد پر انحصار ختم ہوا اور نہ ہی ہر سال بنائے جانے والے خسارے کے بجٹ کا سلسلہ تھما۔ آپ حفیظ شیخ‘ شوکت ترین‘ اسد عمر‘ حفیظ پاشا اور ان کی قبیل کے دوسرے ٹیکنوکریٹس کو دیکھیں‘ سب کے سب Neo-Liberal معاشی نظام کے علمبردار تھے اور انہوں نے علمِ معاشیات کی دو چار لفظ پڑھ کر پلے باندھ رکھے تھے۔ صدر ایوب خان کے دور میں محمد شعیب (جو بعد ازاں CIA کا تنخواہ دار ملازم نکلا) اور ڈاکٹر محبوب الحق کا بڑا شہرہ تھا۔ ان دونوں کے معاشی فلسفہ سے آپ لاکھ اختلاف کریں‘ ان کی علمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر میرا حافظہ بے حد کمزور نہیں ہوا تو میں یہ لکھنے کی جسارت کروں گا کہ میرے پیارے دوست میاں محمد یاسین وٹو مرحوم پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کی جگہ نہ صرف پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے بلکہ وزیر خزانہ بھی۔ موصوف کا تعلق ساہیوال کے زمیندار گھرانے سے تھا اور وہ پیشے کے اعتبار سے بالکل عام سے یعنی دوسرے درجے کے وکیل تھے۔ وہ معاشی امور کی الف ب بھی نہ جانتے تھے۔ ہمیں اب پتا چلا کہ ان کی ناکامی کی اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے زرداری صاحب سے رجوع کر کے ان سے وہ معاشی نسخے نہ سیکھے جو ہماری کایا پلٹ سکتے تھے۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ابھی آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی سیاہی خشک نہ ہوئی ہے اور نہ ہی مبارک سلامت کا شور تھما ہے اور میں اس رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے اپنے قارئین کو یہ بری مگر بالکل سچی خبر سناؤں کہ غیرملکی امداد؍ قرض (چاہے وہ کتنے ارب ڈالر ہی کیوں نہ ہو) ہماری معیشت کی کشتی کو ڈوبنے سے ہر گز نہیں بچا سکتا۔ بس اس کی وجہ سے آنے والا روزِ بد چند ماہ کے لیے ٹل گیا ہے۔ بقول اقبال:
سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
براہِ مہربانی آپ دوسرے مصرع کو (جو ہم پر بندۂ مومن کی خوش گمانی رکھتا ہے) نظر انداز کر دیں اور اپنی ساری توجہ پہلے مصرع پر مرکوز فرمائیں۔ اگر آپ کالم نگار (جو بی اے میں معاشیات کے پرچے میں بمشکل پاس ہوا) کے بیانیے کو معتبر نہ سمجھیں تو آپ حق بجانب ہیں۔ میرا وہی مقام ہے جو انگریزی زبان میں Layman کا ہوتا ہے مگر آپ کو سید سلیم رضا‘ ظفر مسعود‘ ڈاکٹر جنید‘ ڈاکٹر شہناز خان‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ڈاکٹر اکبر زیدی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ ڈاکٹر عمر چیمہ اور ان جیسے دوسرے بلند پایہ ماہرینِ معاشیات کے تبصروں اور تجزیوں کو اتنا وزن دینا پڑے گا جس کے وہ سب بجا طور پر مستحق ہیں۔
میرا فرض ہے کہ میں سول سوسائٹی کے ایک نمائندہ گروپ کے دو ترجمانوں کا شکریہ ادا کروں کہ انہوں نے ممتاز ماہرینِ معیشت کی باہمی مشاورت سے ایک قابل صدِ تعریف عوامی میثاقِ معیشت مرتب کیا۔ کتنا اچھا ہو کہ لاہور میں ممتاز انور‘ کراچی میں ڈاکٹر عرفانہ ملّاح اور ہر شہر اور ہر یونیورسٹی میں سول سوسائٹی (مذہبی رہنما‘ کسان و مزدور رہنما‘ وکلا رہنما‘ صحافی اور دانشور) کے قائدین اس میثاقِ معیشت پر مباحثے منعقد کرائیں تاکہ مذکورہ بالا میثاق طاقِ نسیاں پر پڑی ہوئی ایک بے جان‘ غیرفعال اور Academic دستاویز نہ بن جائے بلکہ اسے لاکھوں سوچتے سمجھتے لوگوں کی جاندار تائید حاصل ہو۔
جو دو افراد ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں انہوں نے چھ جولائی کے اخباروں میں دو بہت اچھے کالم لکھ کر ہماری بصیرت میں اضافہ کیا۔ (بدقسمتی سے جو لوگ مصلحتاًبصارت سے محروم ہوں ان کی بصیرت میں اضافے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی)۔ ایک ہیں PIDE سے وابستہ ڈاکٹر جنید احمد اور دوسری تھیں برابری پارٹی کی نائب صدر ڈاکٹر شہناز خان۔ ان دونوں کی تحریروں کے مطابق ہمارے معاشی مسائل کا حل اتنا آسان ہے (یہ راکٹ سائنس ہر گز نہیں) کہ وہ ہمارے کسی دیہاتی اَن پڑھ جوڑے (اللہ دتا اور سکینہ بیگم) کو بھی سمجھ آسکتا ہے۔ ایک جملے میں بات کہی جائے تو وہ یہ ہوگی کہ معاشی نظام کو عوام دوست بنائیں۔ زراعت میں جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں اور چینی کے کارخانے چلانے والوں (گنا اُگانے والوں کو اپنا یرغمال بنانے والوں) کے مفاد کے بجائے غریب کسانوں اور چھو ٹے رقبوں کے مالک کاشتکاروں کے مفادات کی حفاظت کریں۔ اسی طرح صنعتکار کے منافع سے زیادہ اہمیت صنعتی مزدورکی اہلیت اور اجرت کی ہے۔ ہمیں یقینا سرمایہ کی ضرورت ہے اور اس لحاظ سے سرمایہ داروں کی بھی مگر عوام دشمنی اور عوام دوست معاشی نظام میں یہ جوہری فرق ہے۔ ہر اوّل الذکر محنت پر سرمایہ کو ترجیح دیتا ہے اور موخر الذکر محنت کو سرمایہ پر (اقبال کی ایک کمال کی نظم کا یہی عنوان ہے)۔ ڈاکٹر شہناز خان نے بڑے وزنی دلائل دے کر ثابت کیا ہے کہ اگر ہم ہزاروں نوجوانوں کو جدید اور کمپیوٹرسے جڑی ہوئی فنی تربیت دے لیں تو ہماری آمدنی میں اربوں ڈالر سالانہ کا اضافہ ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں