تاریخ اور اُس کا سبق

ہمارے پیارے ملک میں بقول جناب مفتاح اسماعیل اور جناب شاہد خاقان عباسی‘ حکمران طبقہ صرف ایک فیصد آبادی پر مشتمل ہے‘ ننانوے فیصدآبادی معاشی اور سیاسی طور پر غیر مراعات یافتہ (Have Nots) ہے۔یہ استحصال کا شکار ہے‘ بے بس و لاچار اور بے آواز ۔ میرے خیال میں ان دو رہنمائوں کے بیان میں کافی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ حساب جوڑیں تو 25 کروڑ لوگوں کا ایک فیصد 25 لاکھ بنتا ہے۔ مسکین کالم نگار ایک سابق وزیر خزانہ اور ایک سابق وزیراعظم سے اختلاف کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔ میں اپنے دونوں دوستوں سے اختلاف کرتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ حکمران طبقہ ایک فیصد آبادی (25 لاکھ) کے بھی ایک فیصد(25 ہزار) افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارے سارے حکمران طبقات کے تمام افراد‘ تمام سیاستدان (ماسوائے جماعت اسلامی) بڑے صنعتکار‘تاجر‘ جاگیر دار‘ بینکرز‘ بڑے افسران‘ غرض ملک کے سیاہ و سفید کے مالک سبھی اس مختصر سی فہرست میں شامل ہیں۔ یہی ایک فیصد کی ایک فیصد اشرافیہ (زیادہ مناسب لفظ ہے مافیا ) اپنے ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو قربان کر دیتی ہے، کروڑوں محنت کشوں اور افتادگانِ خاک کے حقوق کے بجائے اندھا دھند لوٹ مار اور ان کے استحصال میں مگن رہتی ہے۔ ایک طرف نقش کہن مٹانے کے بجائے فرسودہ طرزِ حکومت سے عوام کے انقلابی عمل میں ہر ممکن رُکاوٹ ڈالنے والی یہ اشرافیہ اور دوسری جانب وہ عوام (بلکہ رعایا کہنا زیادہ مناسب ہو گا) ہیں جنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا ہے‘ ذہنی طور پر مفلوج اور غلام! لکیر کے فقیر۔ اپنی مادری زبان بولنے کی صلاحیت سے محروم۔ انگریزی بولنے سے کئی قدم آگے بڑھ کر انگریزوں کے زاویۂ نظر سے سوچنے والے۔ اپنی قومی زبان کو سرکاری زبان نہ بنانے والے (یہ 1973 ء کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہے‘ آئینی طور پر یہ مرحلہ آئین سازی کے پندرہ برس بعد‘ 1988ء تک طے پا جانا چاہئے تھا) ۔
اقبال نے یورپ کو بغور دیکھ کر بجا طور پر کہا تھا:
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
ہم اپنے وطن عزیز کو دیکھیں تو دیکھتے ہیں کہ ہماری رگِ جان اس ایک فیصد کے ایک فیصد کے پنجے میں ہے۔ ہم سبھی ''وطنِ عزیز‘‘ کی اصطلاح بکثرت استعمال کرتے ہیں مگر اکثر تحریرکی روانی میں یہ دو لفظ لکھ دیتے ہیں۔ مقررین جوشِ خطابت میں یہ سب کہتے رہتے ہیں۔غور کیا جائے تو یہ الفاظ ادھورا سچ بیان کرتے ہیں۔ اقبال کے دیس کے فقیر حال مست ہیں اور امیر مال مست۔ آپ خود بتایئے کہ مال مست یا حال مست کو اپنا وطن کس طرح عزیز ہو سکتا ہے؟ حال مست کو صرف روزگار اور بال بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کی فکر ہوتی ہے اور مال مست کو روزوشب صرف ایک ہی فکر ہوتی ہے؛ جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ مال بنانا اور پھر اسے اس طرح چھپانا کہ نہ کوئی احتسابی ادارہ اُن سے پوچھ گچھ کر سکے اور نہ ہی ان کی کمائی ہوئی دولت پر ٹیکس لگا کر اُس کی وصولی یقینی بنائی جا سکے۔ ہزاروں میل دور بیٹھا یہ تارکِ وطن اپنے وطن کے غم میں گھلتا رہتا ہے مگر میرے حقیقی وطن کے وزرا محض میرے اوور سیز ہونے کی بنا پر میری حب الوطنی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ جو اپنا وطن ہے‘ وہ اپنا تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور جس وطن میں مقیم ہیں‘ دل وہاں بسنے اور ٹکنے سے عاجز ہے۔ اپنا وطن کتنی بڑی دولت ہوتا ہے‘ وہ آپ اہلِ کشمیر‘ کردوں اور فلسطینیوں سے پوچھ سکتے ہیں؟ ان تینوں کے پاس ایک انچ زمین بھی نہیں۔ اتنی بھی نہیں کہ وہ اُس پر اپنا پرچم نصب کر سکیں۔ ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کے زیر قیادت ایک زبردست عوامی تحریک سے حاصل کردہ پاکستان کی نہ تو حفاظت کی اور نہ ہی اس کی قدر کی۔ ہم نے مشرقی پاکستان کے جغرافیائی رقبے کو وہاں رہنے والے سات کروڑ عوام (جو ملک کی کل آبادی کا بڑا حصہ تھے) پر، ان کے مفادات‘ ان کی خواہشات اور تمنائوں پرترجیح دی اور اُنہیں دبانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اپنی آبادی کی اکثریت کے مطالبے کو خواہشِ اقتدار پر قربان کر دیا۔ بقول فیضؔخون کے دھبے کتنی برساتوں کے بعد دُھلیں گے، شاید اب بھی نہ دُھلے ہوں۔ بھٹو صاحب نے غلطیوں سے سبق نہ سیکھتے ہوئے سانحہ مشرقی پاکستان کے دو سال کے بعد ہی بلوچستان میں سیاسی مسائل کا حل ایک نئے آپریشن میں ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اب یہ بھی پرانی بات ہوگئی۔ پچاس سال سے کم عمر لوگوں کے لیے یہ سنی سنائی بات ہے اور باسی خبر۔ لمحۂ موجود کو دیکھیں۔ کیا آپ کو اسی حکمت عملی کا تسلسل نظر نہیں آتا؟
چار ہفتے قبل میں لندن میں ہونے والے پاکستان ادبی فیسٹیول میں طارق علی کی تقریر کے حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں یونیورسٹی طلبہ، پولیس اور عوامی لیگ کے سرکردہ رہنمائوں کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو طارق علی سمیت چار افراد (جن میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا)‘ برطانیہ میں رہنے والے آٹھ لاکھ پاکستانیوں میں سے صرف چار افراد‘ جن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا‘ نے مشرقی پاکستان کے جائز، قانونی اور آئینی مطالبات کی حمایت کی۔ اُس زمانے کے جرائد میں ہمارے خلاف جو اداریہ لکھا گیا اُس کا عنوان تھا ''ان غداروں کی بھی خبر لیجیے‘‘ ۔ یعنی حقیقی مسائل کی نشاندہی کرنے کی پاداش میں ہم پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا سنگین الزام لگا کر کارروائی شروع کر دی گئی۔ مگر یہ کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
رکن قومی اسمبلی علی وزیر گزشتہ دو سال سے (بلا مقدمہ) جیل میں قید ہے۔ رہائی کے تین ماہ کے اندر وہ دوبارہ گرفتارکر لیا گیا۔ کیوں؟ اگر اُس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے تو حکومت اُس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلائے۔ ہم اپنے آپ کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہیں۔ کیا یہ ہوتے ہیں ایک اسلامی اور جمہوری ملک کے طور طریقے؟ دستیاب شواہد ہمارے دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ دبی زبان میں مدھم سا احتجاج کیا گیا مگر پھر ساری توجہ آئی ایم ایف سے ملنے والی قرض کی قسطوں پر مرکوز ہو گئی۔ ہمارے سب سے بڑے قومی ایشوز یہ ہیں کہ ہماری کرکٹ ٹیم بھارت جائے یا نہ جائے؟ نو مئی کے ذمہ داران کے مقدمات کن عدالتوں میں چلائے جانے چاہئیں؟ ہمارے اربابِ اختیار دوسرے ملکوں سے سرمایہ پاکستان لا سکیں گے یا نہیں؟ ہم امریکہ کو ناراض کیے بغیر چین سے دوستی (جو گھپ اندھیرے میں روشنی کی واحد کرن ہے) بڑھائیں تو کیونکر؟ کیا ہمارے نوجوان وزیر خارجہ اس تنی ہوئی رسی پر چل سکتے ہیں یا نہیں؟ کیا وہ اگلے وزیراعظم ہوں گے یا کوئی اور؟ کیا نگران حکومت صرف 90 دن کے لیے ہوگی یا وہ پی ڈی ایم کے لیے حالات ''سازگار‘‘ ہونے تک (جس میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں) مسندِ اقتدار پر براجمان رہے گی؟
دوسری جانب پولیس کی پھرتیاں ملاحظہ فرمائیں کہ وہ بڑے مجرموں کی طرف قدم بڑھانے کا ''فضول‘‘ خیال دل میں لاکر اسے آلودہ نہیں کرتی مگر سر دھڑ کی بازی لگا کر اسلام آباد میں فیصل مسجد کے باہر (چار معذور بچوں کے باپ) کو قلفی کی ریڑھی لگانے کے لیے سی ڈی اے سے لائسنس نہ لینے کے جرم میں گرفتار کر لیتی ہے۔نہ صرف گرفتار کر لیتی ہے بلکہ اسے تین سال قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس گلے سڑے اور عوام دشمن نظامِ انصاف کے تنے ہوئے جال سے طاقتور ہاتھی بہ آسانی گزر جاتے ہیں مگربے چارے‘ بے کس اور بے زبان پتنگے اس میں پھنس جاتے ہیں۔ یہی پولیس ہے جو پُرامن مظاہرین پر لاٹھیاں برساتی اور اشک آور گیس کی بارش کرتی ہے مگر دریائوں کے کناروں پر کچے کے سینکڑوں‘ ہزاروں میل پر پھیلے ہوئے علاقے پر حکومت کرنے والے ڈاکوئوں اور بدمعاشوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کیا اسے کہتے ہیں مملکت خداداد۔ کیا یہ ہے دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک اور قوتِ اُخوتِ عوام کا دعویدار!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں