لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری

علامہ اقبال کے پہلے مجموعہ کلام بانگِ درا کی نظم نمبر9‘ جو اُنہوں نے 1905ء یعنی آج سے 118 برس پہلے لکھی‘ کا پہلا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا۔ اس سے پہلے کی تین نظموں کے نام بڑے دلچسپ ہیں اور وہ اپنی آساں بیانی اور سبق آموزی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک مکڑا اور مکھی ، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری۔
اقبال کے تخیلاتی بچے نے یہ تین نظمیں لکھیں یا پڑھیں تو اُس نے موقع غنیمت جان کر اللہ تعالیٰ سے جو مختصر دُعا مانگی وہ چھ کمال کے اشعار پر مشتمل ہے۔ اقبال نے بچے کی زبان میں جو دُعا مانگی وہ دراصل ان کی اپنی مانگی ہوئی دعا ہے۔ غالباً اُنہوں نے یہ دعا خود بچپن میں نہ مانگی تھی۔ وجہ ؟ اس دُعا کو مانگنے کے لیے سر ڈاکٹر علامہ اقبال کا بلند علمی اور رُوحانی درجہ حاصل کرنا ضروری تھا۔ یعنی یہ تمنا صرف حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے ہونٹوں سے دُعا بن کے ہی ادا ہو سکتی تھی۔ سیالکوٹ کے ایک قدیم محلہ میں ایک درزی کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہوا‘ بالغ ہوا‘ کئی مراحل طے کیے اور جب اقبالؔ بنا تو اُس نے یہ دُعا لکھی۔ دُنیا میں اَن گنت بچوں نے اپنا بچپن یہ دُعا مانگے بغیر گزار دیا اور کسی نے یہ دُعا مانگنے کی توفیق بھی نہ دلائی کیونکہ صلاحیت نہ تھی۔ وہ بڑے ہوئے اور مڑ کر دیکھا تو پتا چلا کہ جب اُنہوں نے دُعا ہی نہ مانگی تھی تو وہ قبول کس طرح ہوتی؟
کالم نگار کے خیال میں اقبالؔ ہم سب سے (جواب بچپن سے نکل کر بلوغت بلکہ بڑھاپے کی دہلیز بھی عبور کر چکے ہیں) توقع رکھتے ہیں کہ اگر ہم نے بچپن میں یہ کمال کی دُعا مانگنے کا سنہری موقع گنوا دیا تو کوئی مضائقہ نہیں‘ اب بھی ہم یہ دعا مانگ سکتے ہیں۔ عمر کااس دُعا سے بڑا رشتہ لچک دار ہے۔ آپ چاہیں تو عمر کے کسی بھی حصے میں دُعا کے لیے ہاتھ بلند کر سکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بقول فیضؔ ہم دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائیں تو کیونکر؟ ہمیں تو رسمِ دُعا بھی یاد نہیں۔ اس بدقسمتی کا کیا علاج؟ کالم نگار اپنے قارئین سے بجا طور پر توقع رکھتا ہے کہ اُنہیں اس گئے گزرے زمانے‘ جب جدید علوم نے عقیدے کے قلعہ میں نقب لگا کر شگاف پیدا کر دیا‘ میں رسم دُعا بہرحال یا دہوگی۔ اگر میری خوش گمانی کی بنیاد سچائی پر ہے تو اس سے پہلے کہ مزید دیر ہو جائے‘ آیئے ہاتھ اُٹھائیں تاکہ ہماری تمنا ہمارے ہونٹوں پر دُعا بن کر اُبھرے۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
تمنا کیا ہے؟ یہ دُوسرے مصرع میں بیان ہوا:
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
شمع بھی وہ جس سے دُنیا کا اندھیرا دُور ہو جائے اور ہر جگہ اس کے چمکنے سے اُجالا ہو جائے۔ دُوسرا شعر ہم نے نثری انداز میں بیان کر دیا، اب آگے بڑھتے ہیں، اگلے تین اشعار یہ ہیں۔
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب!
علم کی شمع... غور کیجیے شمع لفظ اس نظم میں دُوسری بار استعمال کیا گیا ہے۔
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے‘ ضعیفوں سے محبت کرنا
چھٹا اور آخری شعر حاصلِ کلام ہے:
مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو
اس نظم میں جو دُعا مانگی گئی اُس کے دو نکات سب سے اہم ہیں: حصولِ علم اور غریبوں (غیر مراعات یافتہ طبقے کے افراد یعنی افتادگانِ خاک) کی حمایت۔ کسانوں‘ مزدوروں کے مفادات کا تحفظ۔ بے بسوں‘ بے کسوں اور بے آوازوں کے لیے آواز بلند کرنا۔ یہ صرف ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ ہے فلاحی مملکت کا قیام۔ وہ کیا ہوتی ہے؟ جواب بڑا آسان ہے۔ وہ مملکت جس میں سماجی انصاف ہو۔ قانون کی حکومت ہو۔ زیادہ سے زیادہ مساوات کا دور دورہ ہو۔ استحصال (لوٹ مار) کرنے والے طبقے کا وجود نہ ہو۔ محنت کو سرمایے پر فوقیت حاصل ہو۔ قوتِ اُخوتِّ عوام کو بنیادی اور کلیدی اہمیت حاصل ہو۔ جس کھیت سے دہقاں (کسان) کو روزی تک میسر نہ ہو‘ اُس کا ہر خوشۂ گندم جلا دیا گیا ہو۔ پیرانِ کلیسا (مذہبی اجارہ دار) کلیسا (عبادت گاہوں) سے اُٹھا دیے گئے ہوں۔ مر مر کی سلوں سے بیزار ہونے والوں نے مٹی کا نیا حرم بنا لیا ہو۔ یہ ہے اقبالؔ کی ایک اور کمال کی نظم ''فرمانِ خدا فرشتوں کے نام‘‘ کا بیانیہ۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ اقبال کبھی بچے کی دلی تمنا (جو دراصل اُن کی اپنی تمنا تھی) اُس کے ہونٹوں پر دُعا کی صورت میں لائے۔ کبھی اپنا موقف فرمانِ خدا کی صورت میں بیان فرمایا۔ کبھی لینن کو خدا کے حضور میں پیش کر کے ایک شاہکار انقلابی نظم لکھی۔ کبھی ابلیس کی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد کرکے اُس کی رُوداد لکھی جیسے وہ سلیمانی ٹوپی پہنے اس اجلاس میں بذاتِ خود بطور مبصر موجود تھے۔ کبھی غافل افغان کو اپنی خودی پہچاننے کا صائب مشورہ دیا۔ کبھی بندئہ صحرائی اور مردِ کہسانی پر فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کا فرض عائد کیا۔ کبھی زندگی کا سراغ پانے کے لیے یہ شرط عائد کی کہ چیتے کی آنکھ (یعنی تحقیق اور تجسس اور خوب سے خوب تر کی جستجو کرنے والے ذہن) کو چراغ بنایا جائے۔ کبھی اپنے ترک مہمانوں کو ہندی مسلمانوں کی لمبی نمازوں اور طویل سجدوں کی سامنے سوالیہ نشان لگاتے دکھایا۔ کبھی چادرِ زہرا فروخت کر کے رقم ہڑپ کرنے والوں اور متاعِ غرور کا سودا کرنے والے مجرموں کی نشاندہی کی۔ وہ کون ہیں؟ بقول اقبال۔ ''زاہد، فقیہ اور خواجگانِ بلند عام جو مال مست ہوں‘‘۔
اقبال نے اپنا تیسرا مجموعہ کلام مرتب کیا تو اُس میں بصیرت افروز اور ذہنوں کو روشن کرنے والی پے در پے تین مختصر نظمیں لکھیں۔ اشتراکیت (پانچ اشعار)۔ کارل مارکس کی آواز (تین اشعار)۔ انقلاب (دو اشعار)۔ نظمیں تین اور کل اشعار صرف دس۔
کالم نگار وسط جولائی میں لندن سے مانچسٹر اپنے منہ بولے بیٹے جبران سونی کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں شریک ہونے گیا تو مجھے Bolton سے طارق محمود اور اُس کی رفیقہ حیات Preston ریلوے سٹیشن سے لینے اور پھر چھوڑنے آئے۔ اُنہوں نے سفر کرتے ہوئے کار میں جو نغمہ سنایا وہ اقبال کی یہی نظم تھی۔ جس ہندو بھارتی لڑکی نے یہ نظم پڑھی اُس کی آواز اس قدر مدھر اور سریلی تھی کہ دل چاہتا تھا کہ کار چلتی رہے اور یہ آواز میرے کانوں میں رس گھولتی اور ذہن میں چراغ روشن کرتی رہی۔ مجھے شادی کی تقریب میں دیر سے پہنچنے کا ملال نہ رہا۔
جہانِ تخیل میں اقبالؔ مجھ سے بار بار دریافت کرتے تھے کہ کیا تم نے حصولِ علم(علم کی شمع روشن کرنے) اور غریبوں کی حمایت کرنے کا فرض ادا کیا یا نہیں ؟میں لڑکھڑاتی زبان میں (اپنی شرمندگی پر قابوپانے اور پیشانی سے عرقِ انفعال کے قطرے چنتے ہوئے) یہی کہہ سکتا تھا کہ میں نے یہ کام کرنے کی حتی المقدور کوشش کی (جو بدستور جاری ہے) مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں