آیئے اپنے گریبان میں جھانکیں

چند ماہ قبل مفتاح اسماعیل صاحب کو اُن کی پرانی سیاسی جماعت (مسلم لیگ ن) سے دیس نکالا ملا۔ ابھی اس خبر کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ دُور دیس میں مقیم کالم نگار کو یہ غیر متوقع خبر ملی کہ مصطفی نواز کھوکھر اور اُن کے بعد جناب اعتزاز احسن اور جناب لطیف کھوسہ پر ان کی سیاسی پارٹی (PPP) کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں، مگر کیوں؟ اب ان تینوں کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟
اب ہم سویڈن چلتے ہیں۔جہاں ایک مخبوط الحواس شخص کے ہاتھوں ایک شرمناک فعل کے ارتکاب کی کتنی ذمہ داری اُس ملک کی حکومت اور عوام پر عائد کی جا سکتی ہے؟ یہ کالم نگار دو بار سویڈن گیا ہے۔ اُس نے وہاں کے سینکڑوں لوگوں سے ملاقات کی اور اُنہیں مہذب‘ بااخلاق اور غیر ملکیوں سے شریفانہ سلوک کرنے والا پایا۔ پاکستانی تارکینِ وطن ایک عرصہ سے وہاں مقیم ہیں اور آرام سے رہ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام مسلم ممالک مل کر ( او آئی سی کے پلیٹ فارم سے) یورپی ممالک سے مطالبہ کرتے کہ اُن کی حکومتیں مذہبی منافرت پھیلانا‘ ہر مذہب کے پیرو کاروں کا کسی بھی طرح سے دل دُکھانا یا اُن کی مقدس کتابوں کی توہین کرنا اپنے ضابطۂ فوجداری میں جرم قرار دیں‘ جس کی سخت سزا مقرر کی جائے۔ لیکن کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہم ابھی تک نہ تو یہ مطالبہ مؤثر انداز میں کر سکے ہیں نہ ہی یورپی و مغربی ملکوں کو اس قسم کی پالیسی سازی کے لیے راضی کر سکے ہیں۔
اپنے ملکوں میں ہم مذہبی بے حرمتی پربجا طو ر پر احتجاج کرتے ہیں مگر جب کسی دوسرے مسلم ملک (مثلاً آج کے مصر اور شاہ حسین کے وقت کے اُردن) میں وقت کے حکمران (اپنے ذاتی مفاد کی خاطر) کلمہ گو مسلمانوں کو‘ جن کی حرمت حدیث شریف کے مطابق خانہ کعبہ سے بھی زیادہ ہے‘ قتلِ عام کا نشانہ بناتے ہیں‘ سیاسی مخالفین کو جبراً گم شدہ افراد میں شامل کر دیتے ہیں تو ہم اس سے چشم پوشی کرتے ہیں؟ کیا یہ جرم کچھ کم ہے؟ یقینا مقدساتِ دین کا جتنا بھی احترام کیا جائے‘ وہ کم ہوگا مگر جب کلمہ گو مسلمانوں کی باری آتی ہے تو ہم ان کے حوالے سے دُہرے معیار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی بے گناہی سے قطع نظر‘ ہزاروں مشتبہ افراد پر ہر روز تھانوں میں ناقابلِ بیان تشدد کرتے ہیں۔ تشدد کرنے والے اور تشدد کا نشانہ بننے والے‘ دونوں مسلمان ہوتے ہیں۔ دُکھ کی بات ہے کہ آج تک کسی دینی و سیاسی رہنما کو مذکورہ بالا تشدد کی مذمت کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ اسلامی ضابطۂ حیات کے بلند و بالا مرتبہ کو تو رہنے ہی دیں‘ ہم اس وقت ساری دُنیا (غیر مسلموں کی دُنیا) میں تسلیم کیے جانے والے معیار کے مطابق ہی بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنا سیکھ لیں تو کمال ہوگا۔ ایک بار پھر لکھتا ہوں کہ پاکستان کی بقا کے لیے ہمیں اپنے سیاسی نظام کو چار پائیدار ستونوں پر استوار کرنا ہوگا۔سلطانی ٔجمہور‘ معاشی انصاف‘ قانون کی حکمرانی اور قوتِّ اخوتِ عوام۔ جوشیلے نعرے اور جلوس ان کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔
مذہبی و سیاسی جماعتوں کے منشور‘ امام صاحبان کے خطبات میں‘ ہمارے درس و وعظ میں ہمہ گیر انقلاب تو دُور کی بات ہے‘ اصلاح کی کوئی بھی کرن نظر نہیں آتی۔ ایک بھی کرن نظر نہیں آتی۔ اندھیرے اُفق پر روشنی کہاں اور کس طرح نمودار ہو گی؟ ہمارے رہنما اُس عوام دُشمن‘ مغرب نواز‘ نو آبادیاتی اور ظلم و جبر کے استحصالی نظام کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہتے جو مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک سارے عالم اسلام کو میدان کارزار بنانے کا (بلا شرکت غیرے) ذمہ دار ہے۔
کیا ذہین قارئین نہیں جانتے کہ ہمارے حکمرانوں نے محنت کشوں کا خون چوس کر جن بڑے صنعت کاروں کو اربوں روپوں کی مراعات دیں وہ اپنے ناجائز منافع کو منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر سمگل کرکے اُسے دبئی اور لندن یاورجن آئی لینڈ اور پاناما کی طرح آف شور کمپنیوں اور جزیروں میں چھپا دیتے ہیں۔ کاش کہ وہ ہمارا اتنا لحاظ کرتے کہ لوٹ مار کا مال پاکستان ہی میں سرمایہ کاری پر صرف کرتے نہ کہ ملک سے باہر جائیداد یں خریدنے کے لیے اسے استعمال میں لاتے۔ 1971 ء تک مشرقی پاکستان ہر لحاظ سے مغربی پاکستان سے بہت پیچھے تھا۔ کیا وجہ ہے کہ آج پچاس‘ باون سال بعد آج بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل گیا؟ کیوں اور کیسے؟ ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ بنگلہ دیش جائیں اوران سے کہیں کہ وہ ہمیں معاشی ترقی کا نسخہ کیمیا بتائیں۔
یونانی دیو مالائی داستانوں میں جب بھی کسی پر برا وقت پڑتا تو اسے کہا جاتا کہ دیوتا تم سے ناراض ہیں‘ ہمارا ایسا عقیدہ نہیں‘ تو پھر یہ مان لیں کہ سو فیصد قصور ہمارے حکمرانوں اور اُن کی تباہ کن حکمت عملی اور پالیسیوں کا ہے۔ اگر ہمارے حکمران 76 سالہ حکمت عملی بدلنے پر تیار نہ ہوں تو ہم ان حکمرانوں کو بدلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
کالم نگار کے دل و دماغ پر اقبال کے اشعار کا سحر ٹوٹا تو اُسے لگا کہ وہ وطن عزیز کے موجودہ حالات نہیں بلکہ ایک ڈرائونا خواب دیکھ رہا ہے۔ کروڑوں ہم وطنوں کی غربت کی خلیج کی بڑھتی ہوئی چوڑائی اور گہرائی۔ انگریزوں کے دو سوسال پرانے سامراجی دور کے قوانین، اربوں کھربوں کے بڑھتے ہوئے قرض (داخلی اور خارجی ) کا ناقابلِ برداشت بوجھ، قانون اور انصاف کی پامالی، بڑھتا ہوا انتشار، بے یقینی اور مایوسی، خطرات اور خلفشار، جھوٹ، بے ایمانی اور بدعنوانی کے سیلابِ بلا کی یلغار، ناقابلِ بیان مہنگائی، خود غرضی، مفاد پرستی، غریبوں کا حال مست اور امیروں کا مال مست ہونا۔ یہ سب ایک ڈرائونا خواب نہیں تو اور کیا ہے؟
یارب العالمین! اب ہمارے پاس نہ اقبال ہیں اور نہ قائداعظم محمد علی جناح۔ نہ حسرت موہانی اور نہ جمال الدین افغانی۔ نہ عبید اللہ سندھی اور نہ سبھاش چندر بوس۔ نہ کراچی میں کورنگی بستی کا کارنامہ سرانجام دینے والے اختر حمید خان اور نہ اُسی شہر میں آسودئہ خاک عبدالستار ایدھی۔ نہ دادا امیر حیدر، نہ غوث بخش بزنجو اور نہ سردار عطا اللہ خان مینگل۔ نہ ریلوے مزدوروں کے قائد میرزا ابراہیم، نہ حسن ناصر، نہ جمیل عمر۔ نہ کسانوں کے قائدین چودھری فتح محمد اور بابائے سوشلزم شیخ رشید۔ایک طرف شدید ترین قحط الرجال (اچھی قیادت کا فقدان) ہے اور دُوسری طرف ہمارے دروازوں پر دستک دیتا ہوا رزق کا قحط اور بھوک کا عذاب۔
ستم یہ ہے کہ تمام بڑے جرائم کا ارتکاب حکمران طبقے اور اشرافیہ نے کیا ہے اور ساری کی ساری سزا بے گناہ عوام کو‘ محنت کشوں کو اور کم آمدنی والے گھرانوں کو ملے گی۔ بقول اقبالؔ:
دُنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات
بندئہ مزدور کے اوقات میں ابھی اور کتنی تلخی بڑھے گی کہ مشیتِ ایزدی کو جوش آئے؟ جو اس کالم کا عنوان ہے‘ اس کے مطابق ''آئیے اپنے گریبان میں جھانکیں‘‘ اور تلاش کریں کہ خرابی کہاں ہے۔ کالم نگار ابھی یہاں تک پہنچا تھا کہ آج کا کالم ختم ہونے کو آ گیا۔ ایسے میں اس کے کانوں میں اقبالؔ کی اُمید افزا آواز بار بار آئی۔ روحِ اقبال نے مجھے حکم دیا کہ میں اُنہی سات الفاظ پر یہ کالم ختم کروں جو میں پہلے بھی کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں:
''ہم جاگیں گے تو سویرا ہو گا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں