اٹلی میں تین دن

اٹلی میں تین دن؛ تین دِنوں کا مطلب ہے صرف 72 گھنٹے، مگر اہم نکتہ اٹلی میں گزارے ہوئے گھنٹوں کی گنتی نہیں بلکہ وہ کمال کے تاریخی قلعے‘ پرانے محلات اور عظیم الشان گرجا گھر (Cathedrals) ہیں جو میں اپنے میزبانوں (معظم بھٹی اور فائزہ صاحبہ) کی بے مثال مہمان نوازی کے طفیل دیکھ پایا۔ یعنی مقدار نہیں معیار اہم ہے۔ دل (جس کو بقول شاعر: خدا سمجھے) کہتا تھا کہ کچھ دن اور رُک جائوں اور اٹلی کے مزید قابلِ دید مقامات (جو ہزاروں ہیں) دیکھوں، آنکھوں کو ٹھنڈک، دماغ کو روشنی اور رُوح کو بالیدگی پہنچائوں مگر دوسری طرف دماغ کہتا تھا کہ تین دن (فارسی محاورے کے مطابق صرف دو دن) کے بعد مہمان وبالِ جان بن جاتا ہے لہٰذا یہ نامناسب ہو گا کہ میں اپنے میزبانوں پر مزید بوجھ بنوں۔ اُن کا پُرزور اصرار‘ جسے میرے دل کی بھرپور حمایت حاصل تھی‘ بھی میرے دماغ کے فیصلے کو نہ بدل سکا۔
ستمبر کے آخری ہفتے میں موسمِ خزاں کی آمد آمد تھی۔ چمکیلی دوستانہ دُھوپ۔ موسم گرما‘ جو اب یورپ میں بھی ہر سال پہلے سے زیادہ گرم ہونے لگا ہے‘ کے بعد خزاں نے موسم کو بے حد خوشگوار بنا دیا ہے۔ لندن سے ہوائی سفر بہت مختصر یعنی صرف دو گھنٹوں کا تھا۔ شمالی اٹلی میں میرے میزبان Mantova میں رہتے ہیں جس کا قریب ترین ایئرپورٹVerona ہے‘ جسے شیکسپیئر کے ایک ڈرامہ نے عالمی شہرت دلوائی اور وہ ڈرامہ ہے: رومیو اور جولیٹ (Romeo and Juliet)۔ Verona جولیٹ کا شہر ہے اور وہاں کی بلدیاتی کارپوریشن نے اس ہیروئین کے گھر کو بطور قومی سرمایہ محفوظ کر رکھا ہے۔ دُنیا بھر کے سیاح اس کے آبائی گھر کو خصوصاً گھر کی اُس کھڑکی کو‘ جہاں جولیٹ روزانہ کھڑی ہو کر رُومیو کو اپنے دیدار کا شرف بخشتی تھی اور وہ اپنا حالِ دل بہت عمدہ رومانی اشعار میں گا کر اپنی محبوبہ کو سناتا تھا‘ دیکھنے اور اس کی تصویر اُتارنے جاتے ہیں۔ میرا قیام Mantova میں تھا جو Verona کے مضافات میں ہے اور صرف آدھ گھنٹہ کی مسافت پر ہے۔ یہ جنم بھومی ہے Virgil کی‘ جو لاطینی زبان کا سب سے بڑا شاعر تھا اور 70 قبل مسیح میں یہاں پیدا ہوا تھا۔ Mantova کو میں نے غروبِ آفتاب کے بعد دیکھا تو لگتا تھا کہ میں دُور دراز کسی افسانوی جزیرے میں ہوں اور کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ قدرتی جھیلوں اور صاف شفاف پانی سے بھری ہوئی خندقوں میں گھرے ہوئے قلعے اور جاگیرداروں اور حکمرانوں کے محلات‘ جن کی بلند و بالا دیواروں کی اونچائی قریباً 50 سے 60 فٹ تھی۔ ہزار‘ ہزار سال قدیم تاریخی عمارتوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا معیار اتنا اعلیٰ درجے کا تھا کہ اگر یہ بتایا جائے کہ انہیں صرف چند سال پہلے ہی تعمیر کیا گیا ہے تو بیشتر لوگ یقین کر لیں گے۔ کچھ تعجب نہیں کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اس شہر کو دُنیا بھر کے انسانوں کا ثقافتی سرمایہ ہونے کا شرف بخشا ہو۔
میں نے اپنے میزبانوں کے ساتھ Mantovaکی پتھروں (Cobblestones) سے بنی ہوئی سڑکوں اور بڑے بڑے چوکوں (Square) میں کئی میل پیدل چل کر سیر کی۔ ہم تھک جاتے تو سستانے کے لیے کافی پینے برآمدوں میں یا کھلے آسمان نیچے بیٹھ جاتے تھے۔ Mantova کے اپنے تین قدیم کیتھڈرل (Cathedrals) بھی شان و شوکت کے اعتبار سے کمال کے تھے مگر ہم خصوصی طور پر ایک دن سو میل کا سفر کر کے قریبی بڑے شہر میلان (Milano) گئے اور وہاں ایک کیتھڈرل کی زیارت کی جس کا نام Duoma ہے۔ اُسے تعمیر کرنے میں چھ سو برس لگے، جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ ساری عمارت سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے۔ اس کے اندر (حضرت عیسیٰ علیہ السلام، بی بی مریم، فرشتوں، بزرگانِ عیسائیت اور سینٹ لوگوں کی) مورتیوں کی کل تعداد 3400 ہے۔ اس کی تعمیر 1388ء میں شروع ہوئی اور اُنیسویں صدی میں مکمل ہوئی۔ اس گرجا گھر کے اندر چار سے پانچ ہزار افراد کے عبادت کرنے کی سہولت میسر ہے۔ یہ عمارت 350 فٹ بلند، 500 فٹ طویل اور 300 فٹ چوڑی ہے۔ سو سے زیادہ کھڑکیوں کو Stained Glass سے سجایا گیا ہے۔ ہر بڑے گرجا گھر کی طرح اس میں بھی ہزاروں موم بتیاں روشن تھیں۔ دُعا مانگنے کے لیے ضروری تھا کہ آپ عطیات کے ڈبے میں اپنی مرضی سے تھوڑی یا زیادہ‘ رقم ڈالیں اور ایک موم بتی جلا کر دُعا مانگیں۔ میں جس بھی کیتھڈرل میں گیا، موم بتی کے عطیات دیے اور ایک ہی دُعا صدقِ دل سے بار بار مانگی۔ 24کروڑ پاکستانیوں (ایک فیصد حکمران طبقے کو تفریق کر کے) کی سلامتی، خوشی اور خوشحالی کی دُعا۔ ان کو نصف صدی سے لوٹنے والے مافیاز کے تہس نہس ہونے کی دُعا۔ موجودہ بحرانوں سے نجات حاصل کرنے کی دُعا۔ روشن مستقبل کی دُعا۔ دل کہتا ہے کہ ایک محب وطن (خصوصاً جب وہ جلا وطن ہو) کی دُعائوں کو شرفِ قبولیت بخشا جائے گا۔
افسوس کہ میری خواہش اور میزبانوں کی کوشش کے باوجود میں کسی بھی شہر کے عوامی حکمران (میئر) کو نہ مل سکا۔ اس کے لیے کافی عرصہ پہلے وقت لینا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بہت اچھا ہوا کہ میں تین اطالوی وُکلا سے ملا اور اُنہوں نے بتایا کہ اطالوی نظام حکومت وفاقی ہونے کے باوجود مرکزی حکومت کے پاس کم از کم اختیارات اور مقامی حکومتوں (دیہات اور قصبوں سے لے کر چھو ٹے اور بڑے شہروں اور علاقائی ریجنل) کے پاس زیادہ سے زیادہ اختیارات ہیں۔ ہر شہر میں رہنے والے لوگوں کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ وہ (پاکستان جیسے ممالک کی طرح) رعایا نہیں کہ جس کو حکمران ڈنڈے سے ہانکتے ہیں بلکہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے باقی ملکوں کی طرح عوام ہیں؛ بااختیار عوام! جو اپنے وسائل کے خود مالک ہیں اور تمام چھوٹے بڑے فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ عوام نہ صرف نظامِ حکومت میں ہر سطح پر شامل ہیں بلکہ قوتِ اخوتِ عوام کے بل بوتے پر اپنے ملک کو اتنا صاف، سرسبز، شہری سہولتوں سے بھرپور اور دُنیا بھر کے سیاحوں کے لیے مقناطیسی کشش کا مالک بنانے میں بھی کامیاب رہے ہیں کہ جب اقبالؔ (کالم نگار کے پیر و مرشِد) نے یورپ کی سیر کی تو بے اختیار کہا:
افرنگ کا ہر گوشہ ہے فردوس کی مانند
کالم اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، مجھے اقبالؔ کا مذکورہ بالا مصرع لکھنے کے بعد اُن کا وہ شعر یاد آ گیا جو اُنہوں نے اٹلی کی سیر کرنے کے بعد لکھا:
سوادِ رومۃ الکبریٰ میں دلّی یاد آتی ہے
وہی عظمت‘ وہی شوکت‘ وہی شان دِل آرائی
حیرت کا مقام ہے کہ اقبال (جنہیں اہلِ ایران اقبالؔ لاہوری کہتے ہیں) کو اٹلی کے اَن گنت قابلِ دید مقامات دیکھ کر لاہور (جہاں کے وہ باشندے تھے) کے بجائے دہلی کی یاد آئی۔ شاہی مسجد، شاہی قلعہ، مغل بادشاہوں کے مزارات اور باغات کا شہر لاہور۔ اقبالؔ نے مذکورہ بالا شعر میں دلّی کی تین خوبیاں بجا طور پر گنوائی ہیں: عظمت، شوکت، شانِ دل آرائی۔ کالم نگار نے دہلی کو کئی بار دیکھا ہے اور اُس کے تاریخی سرمایہ کو بھی مگر میں بصد ادب اختلاف کرتے ہوئے کہوں گا کہ شاید اپنے شعر کو بے وزن ہونے سے بچانے کے لیے لاہور کے بجائے دلّی لکھا۔ ممکن ہے کہ اُن کی ذاتی رائے (شعر سے ہٹ کر) بھی وہی ہو جو اُن کے ایک ادنیٰ مرید کی ہے۔
جہاں تک پاکستان کی قدیم تاریخی عمارتوں، ٹیکسلا، ہڑپہ اور موہنجودڑو جیسے قبل مسیح آباد شہروں کا تعلق ہے‘ انہیں ساری دُنیا میں منفرد مقام حاصل ہے۔ ہم نے اپنے ورثہ کی حفاظت کرنے کے حق کو ادا نہیں کیا۔ درخت اُگائے کم اور کاٹے زیادہ۔ زرعی زمینوں اور باغات کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کر دیا۔ یہ ہے ہمارا اصل المیہ :
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں