گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

اگرہمارے سیاستدان تقریر کریں (اکثریت میں تحریر کی تو سر ے سے صلاحیت ہی نہیں) تو حقائق کو بیان کرنے میں بھی افسانہ طرازی اور فرضی منظر نامہ ان پر غالب آجاتا ہے۔ سامعین کو ہر گز پتا نہیں چلتا کہ حقائق کہاں ختم ہوئے اور افسانہ کہاں سے شروع ہوا۔ دوسری طرف جناب محمد اقبال دیوان نے نہ صرف کمال کا بلکہ اتنا فقید المثال ناول لکھا کہ 455 صفحات میں اندازاً 55 صفحات پر صرف حقائق بیان کیے۔ ملکی مسائل کے ٹھوس‘ مثبت اور قابلِ عمل حل لکھے۔ دیوان صاحب اپنے قارئین کا دل صرف رنگین بیانی سے نہیں بہلاتے‘ تفریح طبع اُن کا اصل مقصد نہیں‘ وہ ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ کالم نگار کو یقین ہے کہ ہمارے ایک بھی سیاست دان‘ جو سنجیدہ کتابوں بلکہ ہر قسم کی کتابوں سے زیادہ سے زیادہ فاصلے پر رہتے ہیں‘ نے دیوان صاحب کا ناول نہیں پڑھا اور چاہے کتنے سال اور صدیاں گزر جائیں‘ وہ ہر گز نہ پڑھیں گے۔ اگر گاڑی کا ڈرائیور ہی ہائی وے کے اصول و ضوابط سے ناواقف ہو تو پھر اس گاڑی میں سوار مسافروں کو چاہئے کہ خوف کے مارے صرف چیخیں بلند کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ ہمت کر کے گاڑی چلانے کے آداب‘ اُصول اور قوانین خود پڑھ لیں اور ڈرائیور پر اتنا دبائو ڈالیں کہ وہ اُن کے قیمتی او رجان بچائو مشوروں پر عمل کرنے پر مجبور ہو جائے۔ دوسرے الفاظ میں‘ ہمارے پاس اصلاحِ احوال کا اب صرف ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ عوام دوست، محبِ وطن، روشن دماغ اور مقبولِ عام سیاسی جماعت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کہ ہم رائے عامہ کو تحریر و تقریر سے اُن انقلابی اصلاحات کے حق میں ہموار کریں جو ہمیں موجودہ سنگین بحران، عذاب اور گرداب سے نکال سکتی ہیں۔ تحریر و تقریر کی افادیت اپنی جگہ مگر ان سے بھی زیادہ اہم تاریخ کا جبر ہے جو اقتدار کی دیوار کو گراتا رہتا ہے۔
لمحۂ موجود میں ناقابلِ برداشت مہنگائی‘ بے روز گاری‘ روپے کی بے قدری‘ سینکڑوں ارب ڈالر کے قرض کا بوجھ‘ افراطِ زر‘ بڑھتی ہوئی درآمدات اور کم ہوتی برآمدات‘ بجٹ کا مستقل خسارہ‘ بجلی اور گیس سے لے کر صاف پانی کی عدم دستیابی اور سکت سے باہر بل‘ سیلاب کی تباہ کاریاں‘ یہ سب زمینی حقائق ہیں۔ ہم موجودہ عوام دُشمن معاشی پالیسی پر عمل کرکے‘ جو 76 سال سے یکساں ہی رہی ہے‘ مندرجہ بالا بیماریوں میں سے ایک کا بھی علاج نہیں کر سکتے۔ عمران خان نے تین وزرائے خزانہ آزمائے اور شہباز شریف نے دو۔ آخری وزیر خزانہ (اسحاق ڈار) کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر میاں نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنے تو وہی اُن کے وزیر خزانہ ہوں گے۔
اقبال دیوان صاحب کے مذکورہ بالا ناول میں اشعار اپنی مناسبت کے اعتبار سے اتنی خوبصورتی اور حسنِ ذوق سے استعمال کیے گئے ہیں جس طرح ایک اُردو محاورے کے مطابق زیورات میں چمکتے دمکتے ہیرے جواہرات کو نگینوں کی طرح جڑ دیا جائے۔ مثال کے طور پر ناول کے صفحہ نمبر336 پر مصطفی زیدی کی ایک نظم کے تین اشعار:
میرے وطن‘ میرے مجبور‘ تن فگار وطن!
میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے
میں نیو یارک کا دشمن‘ نہ ماسکو کا عدو
کسے بتائوں کہ اے میرے سوگوار وطن!
کبھی کبھی تجھے تنہائیوں میں سوچا ہے
تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو
ناول میں ایک فرضی اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں ایک فرضی کردار (مہمانِ خصوصی بن کر) مندرجہ بالا تین اشعار بطور تمہید پڑھنے کے بعد ایک طویل مگر دلچسپ اور معیاری اور فکر انگیز تقریر کرتا ہے۔ ہمارے اصلی سیاست دانوں کی تقریریں طویل ہوتی ہیں مگر بیان کردہ تینوں اسم ہائے صفت سے محروم ہوتی ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اس کالم میں تقریر کے ایک اقتباس کو درج کیا جائے۔ معاشرے ہوں یا اُن میں بسنے والے افراد‘ دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے کیونکہ یہ ایک انڈے کی طرح ہوتی ہے۔ انڈا اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایک سوال کثرت سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا پاکستان انقلاب کے دہانے پر ہے؟ آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ اپنے وقت کے چوٹی کے بیورو کریٹ جناب روئیداد خان نے‘ جو اب ماشاء اللہ عمر کی سو سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں‘ اسی عنوان کے تحت 60 برس پہلے ایک کتاب لکھی تھی۔ دیوان صاحب کا مقرر (فاضل مصنف کے خیالات دُہراتے ہوئے) اس سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ میرا جواب نفی میں ہے۔ نفی میں اس لیے کہ انقلاب سے پہلے ایک بڑا Radical Thought Process‘ جسے اُردو میں بہت بڑا روایت شکن اور انقلابی عمل کہہ سکتے ہیں‘ اس کا موجود ہونا ضروری ہے۔
میں یہ بات مانتاہوں کہ پاکستان میں طبقاتی کشمکش‘ کسانوں اور مزدوروں کی زبوں حالی‘ ایک بڑا معاشی بحران‘ عوام میں شدید بے چینی اور مایوسی اور ایسے دیگر تمام عوامل موجود ہیں جو ایک انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں مگر یہاں اُس سے بہت بڑی فکری تحریک کی عدم موجودگی اور مندرجہ بالا حالات کی مستقل موجودگی فسادات (Anarchy) اور امن عامہ کے درہم برہم ہو جانے کی طرف سے اُس طرح مڑ سکتی ہے جیسے بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ملک بھر بالخصوص سندھ میں چند دنوں کے لیے حالات کنٹرول سے بالکل باہر ہو گئے تھے۔ جسے ہم انقلاب کہتے ہیں وہ دراصل ایک شدید احتجاجی عمل کا نام ہے جس میں عوام الناس اُس حکمران طبقے کے افراد‘ جن سے وہ اپنی بہتری کے لیے عمدہ فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں‘ کی پے درپے ناکامیوں اور شدید ترین بداعمالیوں سے تنگ آکر اپنے فیصلے کرنے کا اختیار خود اپنے ہی ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایک انقلاب کا عمل میڈیا اور عدلیہ کے ذریعہ برپا ہو گیا ہے۔اس بات میں ایک حد تک صداقت ہے کہ یہ ایک نرم ( Soft) انقلاب ہے۔ ایک ملک کی عدلیہ چاہے کتنی ہی بااختیار کیوں نہ ہو‘ اس کا دائرہ کار محدود اور انتظامیہ اور مقننہ (Legislature) کی پیہم امداد کا محتاج رہتا ہے۔ میڈیا کی اپنی مجبوریاں ہیں اور سرکاری دبائو کا بوجھ کندھوں پر اُٹھا کر چلنا پڑتا ہے۔ اس سے عوام میں ایک احساسِ بے چارگی جنم لیتا ہے۔ یہ احساس عام ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان مایوسیوں کا ''زچہ خانہ‘‘ ہے۔
جناب اقبال دیوان کی لکھی ہوئی بہت سی اچھی اور کام کی باتیں آپ نے پڑھ لیں‘ وہ کالم نگار کی طرح‘ بقول اقبالؔ‘ اس بات کے قائل ہیں کہ
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام
پسِ تحریر: غزہ پر اسرائیل کے ان دنوں بڑے بڑے بموں کی بارش سے دس ہزار سے زیادہ افراد (جن میں اندازاً نصف بچے اور عورتیں ہیں) بے گناہ مارے جا چکے ہیں۔ جو زندہ بچ گئے ہیں‘ وہ بھی اتنہائی کسمپرسی کا شکار ہیں مگر اس جنگ کی وجہ سے ساری دنیا میں اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کی غنڈہ گردی‘ من مانی‘ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی اور امریکی سامراجی بالادستی کے خلاف لاکھوں افراد نے صدائے احتجاج بلند کی ہے اور کرتے رہیں گے۔ عالمی رائے عامہ اس سے متاثر ہوئی ہے۔ سارے یورپی ممالک میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ لندن میں اس حوالے سے ہونے والے ہر مظاہرے میں دو‘ ڈھائی لاکھ افراد نے شرکت کی جن میں ہزاروں کی تعداد میں یہودی نوجوان بھی شریک تھے۔ نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکہ کے ہر بڑے شہر میں بھی ایسا ہی ہوا۔ تمام مسلم ممالک میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ خدا کرے کہ اس کارِ خیر میں میرے اہلِ وطن پیچھے نہ رہ جائیں۔ بقول اقبالؔ‘ وقتِ قیام آگیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں