اصل میں تینوں ایک ہیں

قریباً ڈیڑھ سو سال قبل دہلی میں رہنے والے باکمال شاعر غالبؔ نے بڑے پتے کی بات کہی تھی اور وہ یہ تھی کہ ''قیدِ حیات اور بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی موت سے پہلے (قیدِ حیات سے رہائی سے پہلے) غم سے نجات نہیں پاسکتا۔ بقول غالبؔ: نجات پائے تو کیونکر؟ لگتا ہے کہ غالبؔ نے یہ شعر پاکستان میں رہنے والے کروڑوں افراد کو مخاطب کر کے لکھا تھا۔ 76 برس گزر گئے مگر 90 فیصد آبادی (یعنی ہر دس میں سے نو افراد) کے دُکھ ختم ہونے تو کجا‘ گھٹ جانے کے بجائے مسلسل بڑھتے چلے گئے۔ مہنگائی، بے روزگاری، افراطِ زر، اربوں کھربوں روپوں کے قرض کا بوجھ، سامراجی قوتوں (خصوصاً امریکہ) کی بالادستی، مستقبل کے بارے میں نااُمیدی، ڈگمگاتا داخلی امن و امان۔ ہر محکمے (تازہ ترین رپورٹ کے مطابق خصوصاً پولیس، محکمہ مال اور عدلیہ) میں کرپشن اور بدعنوانی کی انتہا، سلطانی ٔجمہور کے سامنے لگے ہوئے بڑے بڑے سوالیہ نشان، قوتِ اُخوتِ عوام میں بتدریج کمی، قانون کی عدم حکمرانی، آئین کی پامالی (جو آمرانہ ادوار میں بار بار پامال ہوا) انگریزی زبان بولنے والوں بلکہ انگریزی میں سوچنے والوں کی تعداد میں اضافہ۔ تعلیم، صحت اور ذاتی سکیورٹی کے شعبوں میں حکومت (چاہے حکمران کوئی بھی ہو) کی ناکامی اور پسپائی اور نتیجتاً پرائیویٹ تعلیمی اداروں، پرائیویٹ ہسپتالوں اور پرائیویٹ سکیورٹی اداروں (جن کے اخراجات صرف امیر طبقہ ہی ادا کر سکتا ہے) کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ (آزادی کے پہلے 25 برس میں یہ ادارے نہ ہونے کے برابر تھے اور اب چہار سو چھائے ہوئے ہیں)۔ یہ ہیں وہ اشاریے جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری آبادی کے 90 فیصد کی حالت پہلے سے بہتر ہو رہی ہے یا بدتر؟
مذکورہ سوال کا جواب آپ بخوبی جانتے ہیں مگر اصل المیہ یہ نہیں کہ متاعِ کارواں کے لُٹ جانے کا تکلیف دہ عمل اِن 76 سالوں میں جاری رہا بلکہ حقیقی افسوس بقول اقبالؔ ہماری تین بڑی سیاسی جماعتوں (اور اُن کے قائدین) کے دل و دماغ سے احساسِ زیاں کے کم ہوتے ہوتے محو ہو جانے کا ہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن، ذہنی بنجر پن، عوام دشمن پالیسیاں، امریکی خوشنودی، غیر جمہوری سرپرستی کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ۔تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر (دوبارہ لکھتا ہوں کہ ان پارٹیوں کے اندر) جمہوریت کا فقدان۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مارشل لا نافذ ہو جائے تو ڈکٹیٹر اپنے ساتھیوں کی ایک حد تک دوستانہ تنقید سن لیتا ہے، کئی مشورے بھی مان لیتا ہے، ہر بات میں اپنی من مانی نہیں کرتا اور اپنے مشیروں سے کبھی وہ حقارت آمیز سلوک نہیں کرتا جو ہر نام نہاد جمہوری وزیراعظم نے کیا (اور اغلب امکان ہے کہ آئندہ بھی کریں گے)۔
غالب ؔکے جس شعر میں تحریف آج کے کالم کا عنوان بنی وہ صرف دو عناصر (قیدِ حیات اور بندِ غم) کے اصل میں ایک ہونے کا بیانیہ ہے۔ کالم نگار نے بڑے غور و خوض، بڑی سنجیدگی اور دیانت داری سے پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف) کی کارکردگی اور ریکارڈ کا جائزہ لیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تینوں بھی اصل میں ایک ہیں۔ فرق ہے تو محض شخصیات کا۔ کچھ پیشہ ور موروثی سیاست دان (Electables ) ایک جماعت میں ہیں، کچھ دُوسری میں اور کچھ تیسری میں۔ یہ تقسیم ہر گز مستقل نہیں بلکہ بڑی لچکدار ہے۔ موسم بدلے تو فصلی بٹیرے ایک شاخ سے اُڑ کر دُوسری پر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب نہ کوئی اُصول ہو اور نہ کوئی اقدار تو پھر باہمی تبادلہ (Transference) میں نہ کوئی رُکاوٹ پید اہوتی ہے اور نہ کوئی قباحت نظر آتی ہے۔ شوکت ترین اور حفیظ شیخ کی مثال دیکھ لیں۔ وہ کتنی سہولت سے ایک جماعت سے دوسری اور دوسری سے تیسری تک کا سفر طے کرتے رہے۔ سیاسی مصلحت اور موقع پرستی کا تقاضا ہو تو ایک سیاسی جماعت سے راتوں رات ایک دُوسری جماعت جنم لے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ کی کوکھ سے مسلم لیگ (ق) اور دورِ حاضر میں پی ٹی آئی سے آئی پی پی(جہانگیر ترین اور علیم خان کی استحکام پاکستان پارٹی)اور پرویز خٹک کی تحریک انصاف پارلیمنٹرین۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سیانے، سمجھدار اور حقیقت پسند ہیں کہ انہوں نے آپس میں باہمی تعاون کرنے اور اقتدار میں باری لینے کا دوستانہ معاہدہ کر لیا۔ اُنہوں نے اس سے بڑھ کر ایک اور کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ دس‘ بارہ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو پہلے اپنی اجتماعی سیاسی تحریک اور پھر اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ ان کی رزم آرائی (سادہ زبان میں تصادم) کسی سے ہے تو وہ خان صاحب کی پی ٹی آئی ہے مگر میرا موقف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی لڑائی پی ٹی آئی سے نہیں ہے۔ ہر گز نہیں! بلکہ صرف اور صرف خان صاحب سے ہے۔ اسے انگریزی میں Personality clash کہتے ہیں۔
دیکھا جائے تو تحریک انصاف نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں ایک بھی ایسا فیصلہ نہیں کیا جس سے دو بڑی مخالف جماعتوں کو اُصولی اختلاف ہو۔ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہماری تینوں بڑی سیاسی جماعتیں عوام دُشمن پالیسیوں میں یکساں ہیں۔ ملکی و غیر ملکی مقتدرہ کی سرپرستی کے حصول کی جدوجہد میں ایک ہیں۔ Neo-Liberal معاشی پالیسی کو اپنانے میں‘ نظام انصاف میں ایک بھی قابل ذکر اصلاح نہ کرنے میں‘ گلے سڑے فرسودہ نظام کو مصنوعی تنفس کے سہارے زندہ رکھنے میں‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پائے جانے والے ہمہ گیر عوامی اضطراب کو طاقت کے ذریعے کچل دینے میں‘ سقوطِ ڈھاکہ کے عظیم ترین المیے سے کوئی سبق نہ سیکھنے میں‘ اپنے سیاسی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینے میں‘ بڑے زمینداروں، بڑے تاجروں، بڑے صنعتکاروں،سٹاک ایکسچینج میں بڑے بڑے شیئرز خریدنے والوں سے لے کر بڑے بڑے رئیل اسٹیٹ ڈیلرز تک سے ٹیکس نہ لینے میں‘ محصولات (Taxes) کا زیادہ بوجھ تنخواہ دار طبقے اور 90 فیصد غریب اور تنگ دست لوگوں پر ڈالنے میں‘ رشوت، سفارش اور اقربا پروری کی لعنتوں کو ختم نہ کرنے میں‘ قوتِ اُخوتِ عوام پر انحصار نہ کرنے میں‘ بجٹ میں مستقل خسارہ ختم کرنے کے بجائے اربوں ڈالر غیر ملکی قرض لینے میں‘ عوام کے دُکھوں سے بے تعلقی، بے حسی اور لاعلمی کا مظاہرہ کرنے میں۔ بقول اقبالؔ متاعِ غرور کا سودا کرنے میں‘ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان اُٹھانے میں‘ مراعات یافتہ طبقے پر تمام عنایات کی بارش کرنے اور افتادگانِ خاک کو ہر ناانصافی کا شکار بنانے میں‘ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی بجائے اسے پامال اور تارتار کرنے میں‘ جان بچاتے ہوئے خرگوش اور اس کا تعاقب کرنے والے شکاری کتے کیساتھ بیک وقت دوڑنے میں‘ ہر نظر آنے والے نقشِ کہن کو مٹانے کے بجائے اسے پختہ تر کرنے میں‘ عوام کیلئے مٹی کا ایک حرم بنانے کے بجائے خواص کیلئے مرمریں سِلوں سے محل بنانے پر قومی وسائل صرف کرنے میں۔ غرضیکہ ہر لحاظ سے اور ہر معاملہ میں مذکورہ تینوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی فوٹو کاپی معلوم ہوتی ہیں۔
اگر آپ میرے موقف سے اتفاق کریں تو پھر کیا کالم نگار آپ سے یہ توقع رکھنے میں حقِ بجانب نہ ہوگا کہ یہ تینوں سیاسی جماعتیں باہمی جنگ وجدل سے ہمارے ملک میں انتشار پھیلانے کی بجائے ایک قومی حکو مت بنائیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی ہر نشست پر یہ تینوں اپنا متفقہ اُمیدوار کھڑا کریں۔ ہمارا الیکشن کرانے کا شوق بھی پورا ہو جائے گا اور ہمیں بعد از انتخابات سیاسی استحکام (جو معاشی استحکام کا لازمہ ہے) جیسی بہت بڑی دولت بھی مل جائے گی۔ کالم نگار اپنے قارئین سے تائید اور حمایت کی بجا طور پر اُمید رکھتا ہے۔ پنجابی زبان میں ذاتی دُشمنی کو ''وَیر‘‘ کہتے ہیں۔ جس کا باافراط مظاہرہ فلم ''مولا جٹ ‘‘میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان اب ''وَیر‘‘ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جب ذرہ بھر اُصولی یا نظریاتی اختلاف نہ ہو تو پھر (انگریزی محاورے کے مطابق) اپنی اپنی کلہاڑی کو زمین کھود کر دفن کر دینا حب الوطنی کا عین تقاضا ہے۔ نواز شریف صاحب نے اچھا کیا کہ چودھری شجاعت حسین کو منانے سولہ برس کے بعد اُن کے گھر چلے گئے۔ دل بڑا کریں اور زرداری صاحب کو ساتھ لے کر اقتدار کی تیسری تکون کو جیل میں جا کر مل آئیں۔ اُن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ 24 کروڑ پریشان حال لوگوں کو مزید پریشان نہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں