موسمِ خزاں کا گلدستہ

آپ نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر ضرور بھانپ لیا ہو گا کہ آج کے کالم کا عنوان ''الفاظ کا کھلا تضاد‘‘ ہے۔ برطانیہ میں موسمِ خزاں میں پھول کہاں سے آئیں گے کہ گلدستہ بنایا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ کالم نگار نے قارئین کی توجہ اپنی تحریر کی طرف مبذول کرانے کے لیے ایک بے ضرر اور معصوم غلط بیانی کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ماضی قریب میں ملنے والی چند اہم یا دلچسپ یا دونوں خوبیوں کی مالک خبروں کے مجموعے کے لیے گلدستہ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ آپ انہیں پڑھ لیں گے تو چھ ہزار میل کے فاصلے پر ان سطور کو لکھنے والے کا بوڑھا‘ غم زدہ‘ فکر مند‘ اور بقول مصحفیؔ رفو کے بہت سے کام کا محتاج دل یہ جان کر خوش ہو جائے گا کہ قارئین نے پھولوں کا گلدستہ قبول کر لیا۔ اگر اقبال کو شانِ کریمی سے یہ توقع تھی کہ وہ ان کے عرقِ انفعال (پیشانی پر شرمندگی سے اُبھرنے والے پسینے کے قطروں) کو موتی سمجھ کر چُن لے گی تو کالم نگار حالیہ خبروں کے خلاصے کو پھولوں کا نام دے کر اپنے قارئین کی خدمت میں کیوں پیش نہیں کر سکتا؟ چلئے پہلا کام تو مکمل ہوا‘ اب آگے بڑھتے ہیں۔ میں سب خبروں کو نمبروار (نمبردار نہ پڑھئے گا) لکھتا چلا جائوں گا۔
(1) شروع کرتے ہیں برطانیہ کے موقر اخبار The Times کی گیارہ نومبر کی اشاعت کے صفحہ نمبر 6 پر شائع ہونے والی ایک تصویر سے۔ اس اخبار کے کل صفحات 72 ہوتے ہیں جن کا سائز ہمارے روزناموں سے لگ بھگ نصف ہوتا ہے۔ اس تصویر میں ایسا کیا نظر آتا ہے کہ دیکھنے والے کی نظر جم جاتی ہے۔ ویسے تو یہ ایک خاتون کی تصویر ہے مگر نظر کو متوجہ کرنے والی چیز وہ خوش شکل اور خوش لباس خاتون نہیں بلکہ اُس کے دستانے پہنے ہاتھوں میں تھامی ہوئی ایک تلوار ہے جو ایک خم دار میان میں اس طرح چھپی ہوئی ہے کہ بقول غالبؔ:
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
کمال تلوار کی خوبصورتی کا نہیں بلکہ اس کے سابقہ مالک کا ہے۔ وہ کون تھا؟ اٹھارہویں صدی میں جنوبی ہند میں میسور کی ریاست کے بہادر حکمران ٹیپو سلطان (جس کے نام کے ساتھ اُن کو شکست دینے والے انگریز ہمیشہ Tiger کا سابقہ لگاتے ہیں) کی تلوار کو آنے والے دنوں میں لندن کی ایک قدیم اور چوٹی کی کمپنی Bonhams نیلامی میں فروخت کر ے گی۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق اس کی بولی ایک لاکھ اسی ہزار پائونڈ (تقریباً 5 کروڑ دس لاکھ روپے) کے لگ بھگ لگے گی۔ انگریزوں نے اپنے سب سے بڑے دشمن کی وفات کے بعد اُس کے محل سے لوٹ لی جانے والی تلوار کو تین صدیوں تک سنبھال کر رکھا اور پھر اسے اتنی بڑی قیمت وصول کرنے کے لیے نیلام گھر لے گئے تو اس میں شکوہ و شکایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر آج ہم اپنا تاریخی رشتہ ٹیپو سلطان سے اس طرح اور اتنا قریبی جوڑتے ہیں کہ اقبال نے اُ ن پر شعر لکھتے ہوئے کہا:
ترکشِ مارا خدنگِ آخریں
یعنی ہمارے ترکش کا آخری تیر۔ غور فرمائیں‘ کسی دوسرے‘ تیسرے کے ترکش کا نہیں بلکہ ہمارے ترکش کا تیر۔ اب بیماروں کا حال یہ ہے کہ وہ شرمائے بغیر متاعِ غرور کا سودا کرتے ہیں۔ عراق‘ افغانستان‘ شام اور لیبیا کے بعد اب فلسطین میں مسلمانوں کے خون کی ارزانی دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اپنی غیرت کو نیلام کر چکے۔ بقول اقبالؔ:
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
پچاس سے زیادہ ممالک میں رہنے والے دو ارب کے قریب مسلمانوں کی بے حمیتی کی وجہ کیا ہے؟ بالکل سیدھی سادی وجہ ہے! اسرائیل کا اور ہمارا مائی باپ ایک ہے اور وہ ہے امریکہ! جس کی بندہ پروری میں ہمارے تقریباً70 سال گزرے۔ (ملک کے پہلے وزیراعظم کے دورئہ امریکہ سے شروع کریں تو پون صدی سے زائد) وہی عالمی طاقت ہمیں اسلحہ دیتی ہے‘ ہمارے بجٹ کا سالانہ اربوں ڈالروں کا خسارہ پورا کرتی ہے‘ گندم پیدا کرنے والے ملک کو گندم دیتی ہے‘ ہمیں ایران سے سستی گیس نہیں لینے دیتی‘ ہماری چین سے دوستی اُسے ایک آنکھ نہیں بھاتی‘ جس کا بحری بیڑہ خلیج فارس کی ایک ریاست (بحرین) میں مستقل طور پر لنگرانداز رہتا ہے‘ جو ہماری سرزمین پر سالہاسال اپنے (نام نہاد) دشمنوں (اور ہمارے شہریوں کو) ڈرونز کے ذریعہ بمباری کا نشانہ بنا کر قاتلانہ اور مجرمانہ وارداتوں کا ارتکاب کرتی رہی۔ اب ہماری (ایران‘ ترکیہ اور ملائیشیا کے سوا) کس کی مجال ہے وہ اسرائیل کو قتلِ عام سے روک سکے؟ حالیہ جنگ کا یہ بڑا فائدہ ہوا کہ تمام مسلم ممالک کے حکمران بے نقاب ہو گئے۔ نہ صرف متاعِ کارواں جاتا رہا بلکہ دو ارب مسلمانوں کے دلوں سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا۔ آدھے سے زیادہ کالم تو صرف ایک خبر (ٹیپو سلطان کی تلوار کی نیلامی) لے گئی۔ اب کیا کریں‘ خبریں زیادہ ہیں اور جگہ کم۔ یقینا معاملہ کئی قسطوں تک جائے گا۔
(2) وسط نومبر برطانیہ کے شاہی خاندان کے لیے زیادہ اچھا ثابت نہ ہوا۔ آنجہانی ملکہ ایلزبتھ کے ایک کزن (ملکہ وکٹوریہ اُس کی نانی کی نانی تھیں) The Earl of Strathmort کو ایک بڑی اور مہنگی کار کو سکاٹ لینڈ میں 82 میل فی گھنٹہ (حد رفتار70 میل فی گھنٹہ ) کی رفتار سے چلانے (اور وہ بھی نشے کی حالت میں) کے جرم میں ایک ہزار پائونڈ جرمانہ اور سوا سال تک کار نہ چلانے کی پابندی کی سزا دی گئی ہے۔ (کالم نگار کو ہمیشہ حد ایک سو پائونڈ کا جرمانہ کیا گیا) موصوف جس قدیم آبائی محل میں رہتے ہیں اُس کے گرد16 ہزار 500 ایکڑ کا باغ ہے۔ دو برس پہلے ان نواب صاحب کو ایک سنگین جنسی جرم کے ارتکاب پر بھی قید کی سزا دی گئی تھی۔
(3) دوسری طرف شاہ چارلس دوم کے ناراض‘ برگشتہ اور بگڑے ہوئے بیٹےHarry‘ جس نے برطانوی اخبارات (ڈیلی مرر، سنڈے مرر اور سنڈے پیپل) پر ازدواجی زندگی کے بارے میں بڑی نجی باتیں لکھنے اور رازوں کو فاش کرنے پر بھاری ہرجانے کی وصولی کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے‘ کو ان دستاویزات کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانے کی اجازت نہ دی گئی جو اخبار کے دفتر سے چرائی گئی تھیں۔
(4) امریکہ کی چوٹی کی یونیورسٹی ہارورڈ میں تحقیق کرنے والے چوٹی کے سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی جسم میں بنیادی اور کلیدی درجہ دل کو حاصل ہے۔ بڑھاپے میں حافظہ ختم ہونے کے مرض ڈیمنشیا (Dementia) بھی انسانی دل کی کارکردگی میں خرابی سے پیدا ہوتا ہے۔
(5) ایک انگریز ضعیف العمر جوڑا تعطیلات گزارنے گیا‘ بدقسمتی سے ہوٹل کے مالکان نے ایک کمرے میں کھٹمل مار دوائی کو چھڑکائو کیا‘جس میں ایک زہریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ (Carbon Monoxide) تھی جو ساتھ والے کمرے میں سوئے انگریز جوڑے کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ کیا یہ خبر ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی تو نہیں بجاتی؟ کیا ہم سپرے (خصوصاً فصلوں میں کیڑے مار دوائی کے جو سپرے کیے جاتے ہیں) میں کوئی ایسا زہریلا مواد تو استعمال نہیں کر رہے جو انسانی صحت (اور شاید زندگی ) کے لیے بہت مضر ثابت ہو؟
( 6) استعاراتی بحری جہاز Titanic سمندر میں ڈوب رہا ہے‘ لوگ عرشۂ جہاز پر مہنگی کرسیوں کی ترتیب اور انتخاب پر لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ عرشے پر موجود حکمرانوں اور نادان لوگوں کو اس کی کیا فکر کہ جہاز کے زیریں حصے میں (جہاں Have Nots مقید اور محصور ہیں) ہزاروں‘ لاکھوں اور کروڑوں افراد کو کون کون سے جان لیوا زہریلے سپرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو جانتے ہیں وہ بولتے نہیں اور جو بولتے ہیں وہ جانتے نہیں۔ میرے پیارے وطن عزیز کے عوام کریں تو کیا کریں؟ جائیں تو جائیں کہاں؟
رئوف کلاسرا صاحب کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے 5 جنوری کو شدید حیرت کا اظہار کیا کہ ہمارے حکمرانوں سے زیادہ (بلکہ کہیں زیادہ) ہمیں قرض دینے والے اداروں (عالمی بینک اور آئی ایم ایف) کو یہ فکر لاحق ہے کہ ہم سیاسی استحکام کی دولت سے فیض یاب ہوں۔ واقعی مقامِ فکر ہے!
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں