چند بُری خبریں

شہر ایک‘ دن ایک اور بری خبریں نہ ایک نہ دو بلکہ پانچ! جو چھ ہزار میل کا فاصلہ‘ پہاڑوں‘ دریائوں اور سمندروں کو عبور کرتے ہوئے اس کالم نگار کے دل کو مزید دُکھی کرنے کا موجب بنیں۔ یقینا آپ کو بھی ان سب کا نہیں تو ایک دو کا تو ضرور علم ہو گا۔ یقینا آپ بھی اتنے دل گرفتہ اور غمگین ہوئے ہوں گے جتنا کہ یہ سطور لکھنے والا بوڑھا جلا وطن کالم نگار۔ آپ نے بھی میری طرح بے بسی اور لاچارگی محسوس کی ہو گی۔ مگر پہلے بات کرتے ہیں مشرقِ وسطیٰ کی جہاں سے ہر روز‘ بلکہ ہر لمحے بری خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ یقینا آپ کو بھی میری طرح یہ خیال آیا ہوگا کہ دنیا کا کوئی ملک اور کوئی خطہ ایسا نہیں‘ جہاں ایک طرف اسرائیل اور اس کی قتلِ عام کرنے والی ظالم فوج ہو اور دوسری طرف ہر قسم کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے فلسطینی مرد‘ عورتیں اور بچے۔ وہ بچے (اِکا‘ دُکا نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں) جن کے بدنصیب سروں سے والدین‘ دادا دادی‘ نانا نانی اور تمام قریبی رشتہ داروں کا مبارک اور مہربان سایہ اُٹھ چکا ہے۔ اب آئیے ہمارے وطن عزیز کی طرف! جہاں افتادگانِ خاک کے لیے زمین سخت ہے اور آسمان دُور۔ بقول اقبالؔ حال مست اور مال مست لوگوں کو اُن کی حالتِ زار کا کچھ علم نہیں اور اگر بفرضِ محال تھوڑا بہت علم ہو بھی تو رَتی بھر پروا نہیں۔ تاریک ماضی‘ بدترین حال اور مستقبل بے حد غیر یقینی کا شکار اور پہلے سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور طرح طرح کے عذابوں سے بھرپور۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ نہ کوئی اُمید اور نہ گھپ اندھیرے میں ایک بھی روشن‘ ٹمٹماتا ہوا چراغ۔ دل میں راکھ کا ڈھیر اور دماغ میں صرف تفکرات اور پریشانیوں کا ہر لحظہ بلند ہوتا پہاڑ۔ نیا سال ہو یا پرانا‘ بہار آئے یا خزاں‘ دن ہو یا رات‘ روزگار کی چکی چلانے والوں کی ناقابلِ بیان اور ناقابلِ تصور مشقت‘ ذہنی تکلیف اور جسمانی تشدد میں کوئی کمی یا کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یہ تھا وہ سیاق و سباق جس میں آپ کراچی سے آنے والی پانچ بری خبروں کی تفصیل پڑھیں گے۔
اوّل: کراچی کو (لاہور کی طرح) دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہونے کا شرف حاصل ہو جانے کی تصدیق ہو گئی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی میں سالانہ 16500 ٹن فضلہ اور کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے جسے سمندر کی طرف بہنے والے ندی نالوں میں بہا دیا جاتا ہے (جو ساحلِ سمندر کے پانی کو آلودہ اور زہریلا بنا دیتا ہے) یا اسے غریبوں کی بستیوں میں خالی پلاٹوں میں جلا دیا جاتا ہے جس سے کراچی کی ہوا اس قابل نہیں رہتی کہ اس میں انسان سانس بھی لے سکے۔ اس تشویشناک صورتحال میں بہتری کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ کراچی کارپوریشن کے پاس نہ اتنی افرادی قوت ہے‘ نہ اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی وہ جدید مشینری جو سالانہ ساڑھے سولہ ہزار ٹن فضلہ؍ کوڑا کرکٹ ڈھنگ سے بحفاظت ٹھکانے لگا سکے۔ آپ کو شاید اس خبر پر اعتبار نہ آئے مگر یہ بالکل سچ ہے کہ یکے بعد دیگرے ہمارے عوام دوست‘ صفائی پسند اور روشن دماغ اربابِ اختیار (چاہے ان کا تعلق کسی بھی حکومت یا سیاسی جماعت سے ہو) ہر سال دوسرے ممالک سے 80 لاکھ ٹن کچرا درآمد کرتے ہیں تاکہ ہم اسے ٹھکانے لگا سکیں اور اس خدمت کا معقول معاوضہ وصول کر سکیں۔ دعا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو خدا یہ توفیق دے کہ وہ غیر ممالک سے کچرا (وہ بھی 80 لاکھ ٹن) درآمد کرنے پر فی الفور پابندی عائد کرنے کا عہد کریں۔ یقینا ان جماعتوں کو یہ یاد کرانے کی ضرورت نہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔
دوم: سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ اس حد تک قابلِ تعریف ہے کہ اُس نے ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ٹھوس قدم اُٹھاتے ہوئے ایک پارک کی جگہ پر دو سو گھروں کو گرانے کا حکم نامہ جاری کیا مگر یہ نادر شاہی حکم اتنا ہی غیر پسندیدہ ہے کہ اُن دو سو گھروں میں دو سو خاندان کئی سالوں سے آباد تھے۔ ان مکانوں کو بنانے والوں کے قبضہ میں کوئی جنات نہ تھے کہ اُنہوں نے رات کی تاریکی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پارک کی خالی جگہ پر شب بھر میں مکانوں کی عمارتیں کھڑی کر لیں۔ یقینا انہیں کارپوریشن نے اُس جگہ مکان بنانے کی تحریری اجازت دی ہو گی‘ پھر مکانوں کے نقشے منظور (یا نامنظور) کیے جانے کا مرحلہ آیا ہو گا۔ مکان بنانے میں کئی مہینے لگے ہوں گے۔ عدالت نے کارپوریشن کے حکام کو تو ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں دیکھا، نہ اُن سے کوئی جواب یا وضاحت ہی طلب کی، سارا عتاب نازل ہوا تو بے گناہ اور بے قصور مکینوں پر‘ جن کے پاس رہنے کی کوئی متبادل جگہ نہ تھی اور نہ ہو گی۔ یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان دو سو مکانوں کے بدنصیب اور ستم رسیدہ مظلوم مالکوں کے پاس اتنا اضافی سرمایہ بھی نہ ہو گا کہ وہ کسی اور جگہ زمین خرید کر اُس پر ایک نیا مکان تعمیر کر لیں۔ حیرت کا نہیں‘ دُکھ کا مقام ہے کہ ایم کیو ایم یا جماعت اسلامی یا پیپلز پارٹی نے کارپوریشن کے عملے کی صریح غنڈہ گردی کا نشانہ بن جانے والوں کا ہرگز ساتھ نہیں دیا۔ میں کراچی میں حکومت کی چیرہ دستیوں کے تدارک کے لیے عدالتی کارروائی کرنے اور عوامی مفاد کے مسائل پر انصاف کے ایوانوں کی زنجیرِ عدل کھینچنے والی انجمن کا رکن ہوں۔ میں ضرور پوچھوں گا کہ وہ عوامی مسائل سے لاتعلق کیوں بن گئی‘ اُس نے اپنا فرضِ منصبی کیوں ادا نہ کیا؟
سوم: کراچی میں (دنیا کے دوسرے تمام بڑے شہروں کی طرح) گندے پانی کی نکاسی کے لیے زیرِ زمین نالیوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ اس سال کے شروع میں (جب سبھی نئے سال کی خوشیاں منا رہے تھے) کراچی میں دو محنت کش گھرانوں میں اس وقت صف ماتم بچھ گئی جب ایک زیر زمین پائپ میں گندے پانی کا بہائو رُک گیا تو اُسے صاف کرنے کے لیے کسی مشین (جو ان دنوں ہر امیر‘ غریب ملک میں دستیاب ہیں) کے بجائے دو مزدوروں کو مین ہول کا ڈھکن اُتار کر نیچے کام کرنے کو کہا گیا، اُنہوں نے بلا چون و چرا تعمیل کی‘ اُنہیں اس بات کا قطعاً علم نہ تھا کہ وہ اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ دونوں فرض شناس کارکن زہریلی گیس (جس کی موجودگی کا علم راکٹ سائنس ہرگز نہیں) کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ بقول فیضؔ:
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
نہ داد نہ فریاد۔ کراچی میں انسانی حقوق کے کسی علمبردار یا کارکن کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس المناک حادثے کی سو فیصد ذمہ داری متعلقہ محکمے اور اس کے افسروں پر عائد ہوتی ہے۔ میں اس کالم کے ذریعے عوامی مسائل اٹھانے والی انجمن سے بھی یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ عدالتی کارروائی کرے اور متا ثرہ گھرانوں کو کم از کم 25 لاکھ روپے دلوائے۔
چہارم: ایم کیو ایم پاکستان کے ایک راہ نما نے ایک بات کمال کی کہی ہے (کمال اُن کے نام کا بھی حصہ ہے) کہ کراچی پر حکومت ہر سال 22 ہزار ارب روپے خرچ کرتی ہے۔ مجھے اپنی بوڑھی آنکھوں پر ابھی تک اعتبار نہیں آیا کہ کراچی کا سالانہ ترقیاتی خرچ 22 ہزار ارب روپے ہے۔ یہ تو بہت بڑی رقم ہے۔ اگر اتنی زیادہ نہ بھی ہو تو پھر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ گزشتہ پندرہ برس میں (اٹھارہویں ترمیم کے بعد) اتنی بڑی رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوئی؟
ذمہ داران اس (ملین ڈالر) سوال کا جواب دیں گے؟ جواب تو عوام لے کر رہیں گے‘ 8 فروری سے پہلے یا 8 فروری کے بعد۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں